شاہ ولی اللہ
کراچی میں اولین سکونت اختیار کرنے والوں میں یہودی باشندے بھی تھے، انھیں بنی اسرائیل بھی کہا جاتا تھاـ یہودی انگریزوں کے ساتھ انیسویں صدی کے وسط میں یہاں آکرآباد ہوئے تھے، تاہم ان کی تعداد انتہائی کم تھی 1941میں ان کی تعداد 513مردوں اور 538 خواتین پر مشتمل تھی ـ یہ تعلیم یافتہ تھے اوران کا رہن سہن ایرانی نژاد پارسیوں سے مماثل تھا۔ یہودی افراد زیادہ تر ملازمت پیشہ تھے اور عبرانی ملی مراٹھی اور انگریزی بولتے تھے۔ یہ لوگ کراچی کے پرانے علاقوں رامسوامی ،لارنس کوارٹراور رام باغ موجودہ آرام باغ کے اطراف رہائش پزیر تھےـ یہودی برادری کی اکثریت اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی کراچی سے منتقل ہوگئی تھی۔ 1960 کے عشرے میں بچے کچے یہودی بھارت سمیت دیگرملکوں میں چلے گئے۔کراچی سے یہودیوں کی نقل مکانی کے بعد پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ان کی املاک کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ـ برطانوی حکمرانوں نے جب کراچی کا انتظام ایک شہر کے طور پر چلانا چاہا تو مقامی بلدیہ کے ارکان کے طور پر یہودیوں کو بھی منتخب کیا گیا تھا’’عروس البلاد کراچی ‘‘کے مصنف ڈاکٹر سید عارف شاہ گیلانی عیلگ کے مطابق’’ یہودی خاندان کی ممتاز شخصیات میں ابراہیم بنجامن تلکراوران کی بھتیجی الزبتھ تلکر ماہر تعلیم تھے،ـ انہوں نے 1922سے 1952 تک سندھ مدرستہ الاسلام میں بطورسائنس ماسٹر خدمات انجام دیں۔ ـ ابرایم بنجامن تلکر نے 1960میں بمبئی میں وفات پائی ،ان کی اہلیہ مسز تلکرمسیحی خاتون تھیں، ـ وہ کارنیروانڈین گرلزاسکول کی پرنسپل تھیں۔ ـ مسٹرسولومن ڈیوڈ میونسپل کارپوریشن کے رکن تھے۔ ، ، 1936 میں ابراہیم رابن نامی یہودی کونسلر تھے، ایم جے سالون نے ڈی جے کالج میں بحیثیت آفس سپرنٹنڈنٹ خدمات انجام دیں ـ وہ 1965 میں کراچی سے ہجرت کرکے بمبئی چلے گئے تھے۔‘‘
1930 میں کراچی میں پہلی آئس کریم کی دکان جوبلی کے نزدیک ایک یہودی نے کھولی تھی۔ اسی طرح عراقی نسل یہودی ممتاز آرکیٹکٹ موسز سومیکی بھی کراچی میں مقیم رہے ،انہوں نے اس شہر میں بہت سی عمارتیں ڈیزائن کیں۔ ان عمارتوں میں بی وی ایس پارسی اسکول، صدر میں گوان ایسوسی ایشن کی عمارت، بندر روڈ کا خالق دینا ہال، کھارادر کی جعفر فیدو ڈسپنسری اور قائد اعظم کافلیگ اسٹاف ہاوس ان کا کارنامہ ہے۔ آرکیٹکٹ موسز سومیکی قیام پاکستان سے چند مہینے قبل برطانیہ ہجرت کر گئے تھے ۔کراچی کا موجودہ سینٹرل جیل1903 میں بنایا گیا تھا ،جبکہ اس کا باضابطہ افتتاح 6 ستمبر1906میں ہوا تھاـ ’’کراچی تاریخ کے آئینہ میں‘‘کے مصنف محمد عثمان دموہی کے مطابق اس نئے جیل خانے کا پہلا سپرنٹنڈنٹ سالومن نامی یہودی تھا۔
کراچی میں یہودیوں کی قدیم اور مشہورعبادت گاہ (Magain Shalome Synagogue (Bani Israel Trust کی عمارت تھی.1893 جو قیام پاکستان سے 54 برس قبل قائم ہوئی تھی ،جسے آج بھی کراچی کے پرانے لوگ اسرائیلی یا یہودی مسجد کے نام سے پہچانتے ہیں۔ا س عبادت گاہ کومیونسپلٹی کے سرویئر سولومن نے بنایا تھا اور اپنی بیوی شیگل بائی کی یاد میں ساتھ میںکمیونٹی ہال بھی تعمیر کروایا تھا۔ قیام پاکستان سے قبل کراچی میں سولومن ڈیوڈ کے نام سے ایک اسٹریٹ بھی موسوم کی گئی تھی۔ اس اسٹریٹ کا کتبہ جوبلی مارکیٹ کے پاس لگا تھا۔ یہ عبادت گاہ رنچھوڑ لائن کے مرکزی چوک ہارنس اسٹریٹ اور لارنس روڈ موجودہ نشتر روڈ پر واقع تھی، اس عبادت گاہ کو بنی اسرائیل مسجد بھی کہا جاتا تھا۔اس کےدروازے پر اردو، بنگالی اور عبرانی زبانوں میں نام تحریر تھا۔ ـ عبادت خانہ بنی اسرائیل ٹرسٹ کے زیرانتظام تھا۔ اس کی آخری ٹرسٹی ریچل جوزف نامی ایک خاتون تھی۔ اب اس کی جگہ مدیحہ اسکوائر کی کثیر المنزلہ عمارت موجود ہے۔
وائی ایم سی اے گراؤنڈ سے ملحقـ ہوپ لاج برطانوی دور میں تعمیر ہونے والی یورپی طرز تعمیر کا پہلی شاہکار عمارت تھی جو آج بھی اپنے اصل خدوخال میں موجود ہے، تاہم دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اپنی خوبصورتی کھو چکی ہے آج کل اس عمارت میں وائلڈ لائف سندھ کا دفترقائم ہےـ۔ کراچی کے قدیم میوہ شاہ قبرستان میں ہی ایک حصہ میںیہودیوں کی قبریں ہیں یہودی قبرستان میں تقریباً 500 قبریں موجود ہیں۔ ـ 1980 کے بعد سے یہاں کسی یہودی باشندے کی تدفین نہیں کی گئی ـ بعض قبروں پر انگریزی اورعبرانی زبان میں کتبے نصب ہیں تمام قبریں نہایت خستہ حالت میں ہیں۔ ہر جگہ کانٹے دار خودرو جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں۔ قبروں کی مناسب انداز میں دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ـ اس یہودی قبرستان میں عام شہریوں کا داخلہ ممنوع ہےـ۔