• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد اسلم

رمضان کیا آیا کراچی کی رونقیں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ یہ مہینہ مسلمانوں کے معمولات بدل دیتا ہے ، کراچی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہاں کی راتیں جاگتی ہیں،لیکن ہجری کلینڈر کے نویں مہینے شہر کے مختلف علاقوں میں یہ رونقیں رات سے آگے بڑھ کرسحری تک بڑھ جاتی ہیں۔ شبینہ محفلیں، قرات نعتیہ مقابلے، مساجد میں شب بیداری، درس قران کی محفلیں، عبادت و اذکار،روشنیوں میں نہائی ہوئی مساجد، طاق راتوں میں قبرستانوں میں روشنیاں اور لوگوں کی کثرت سے آمد، تو دوسری جانب کھیل تماشے، شاپنگ میلے، نائٹ کرکٹ میچ، سڑکوں پر ٹریفک جام ، فٹ پاتھوں پر افطار کا انتظام ، گداگروں کے ریلے، فقیروں کے میلے،کراچی کے گلی کوچوں کی یہ رونق چاند رات کو اپنے عروج پر پہنچ کر عید کے بعد اگلے سال تک کے لیے پھر غائب ہو جائے گی۔

اس مہینہ ہر طرف ایک ایسا رنگ نظر آنے لگتا ہے، جس میں اسلامی تہذیب و ثقافت اور روایات کی جھلک نمایاں ہوتی ہے، مساجد اور عبادت گاہیں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، خاص طور پر رمضان کی طاق راتوں میں روح پرورفضا ہوتی ہے۔ کچھ لوگ جو سارا سال نمازِ جمعہ کے علاوہ مسجد میں نظر نہیں آتے، اس با برکت مہینے میں پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرتے نظر آتے ہیں، کم عمر بچے بھی بہت ذوق و شوق سے مساجد کا رخ کرتے ہیں۔شہر میں موجود شادی ہالوں میں تین روزہ اور پانچ روزہ نماز تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے، رمضان کے آخری عشرے میں تمام بڑی بڑی مساجد بالخصوص نیو میمن مسجد بولٹن مارکیٹ، رحمانیہ مسجد طارق روڈ اور مسجد طوبیٰ ڈیفنس وغیرہ میں محافل شبینہ منعقد کی جاتی ہیں۔

شہر بھر میں کھانے پینے کی دوکانیں اور ہوٹل احترامِ رمضان میں افطار تک بند ہو جاتے ہیں۔سڑکوں پرافطاری کا زیادہ تر اہتمام کیا جاتا ہے،یہاں مخیر اور اہل ثروت حضرات کی جانب سے شہر میں جگہ جگہ روزہ داروں کے لیے سحری و افطاری اور کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔بس اسٹاپوں پر مسافروں کی سہولت کے لیے افطاری کے اسٹال لگائے جاتے ہیں۔ماہ مبارک میں مخیر حضرات عوامی مقامات اور پارکس میں بھی خصوصی افطاری کا اہتمام کرتے ہیں۔ شہر میں روزانہ ہزاروںافراد مختلف شاہراہوں پر افطار کرتے ہیں۔مختلف مقامات پر فلاحی تنظیموں نے بھی دسترخوان قائم کیے ہیں، جہاں رمضان میں غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد بلارنگ ونسل وتفریق روزہ افطار کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔شہر میں افطار کا اہتمام مختلف علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر دینی، روحانی اور ملی جذبے کی وجہ سے شہر بھر میں پھیل گیا ہے ،شہر کی عام شاہراہوں ، گزر گاہوں، بس اسٹاپس، چوراہوں پر شہری اپنی مدد آپ کے تحت بھی افطار دستر خوانوں کا اہتمام کرتے ہیںاور افطار باکس بھی باٹے جاتے ہیں۔

شہر کی سب سے پرانی اور مشہور فوڈ اسٹریٹ رمضان میں تو گویااس قدر مصروف ہوجاتی ہے کہ وہاں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی اور کھانے پینے کی ایسی کون سے شے ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں ہوتی ۔ دہلی کے مشہور دہی بڑے ہوں یا ، مزیدار حلیم ، فوڈ سینٹر کی بریانی ہو یا نہاری، کباب یابن کباب، روزہ داروں کی شکم سیری کا سامان مہیا کرتا ہے ، مختلف اقسام کے معیاری و غیر معیاری شربت،فریسکو کے سموسے اور رولز، باربی کیو شاپس سے چکن تکہ، ملائی بوٹی، گولہ کباب، پراٹھہ رول عام دنوں میں شاید اتنے فروخت نہیں ہوتے جس قدر رمضان میں ہوتے ہیں۔ رمضان میں یہاں کی خاص جلیبی افطاری کے وقت بہت زیادہ پسند کی جاتی ہے ۔

رمضان میں دیگربازاروں کی رونقیں اور بھی دوبالا ہو جاتی ہیں، یہ بازار تقریباً ساری رات ہی کھلے رہتے ہیں،کپڑے ، جوتے ، جیولری وغیرہ کی خریداری سحری تک دیکھنے میں آتی ہے۔ بازاروں میں نت نئے خوانچہ فروش دیکھنے کو ملتے ہیں جو ٹھیلوں اور خوانچوں پر سموسے، پکوڑے، دہی بڑے اور انواع و اقسام کی چاٹ فروخت کر رہے ہوتے ہیں، مارکیٹ میں پھل تو دستیاب ہیں لیکن مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کے رجحان کی وجہ سے ایک غریب اور عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ رمضان کی ایک روایت گھروں میں افطاری کی تیاری بھی ہے۔ عموماً گھروں میں نمازِ عصر کے بعد افطاری بننا شروع ہوجاتی ہے، جس میں بچوں اور بڑوں سب کی پسند کا خیال رکھا جاتا ہے، رشتے داروں، ہمسایوں، محلے کے غریب گھروں اور مساجد میں افطاری اور خاص کھانوں کو بھیجنے کا رواج آج بھی زندہ ہے، آج کے دور میں افطاری کے وقت ایک دستر خوان پر ایک ساتھ سب کا روزہ کھولنا کسی انعام اور نعمت باری سے کم نہیں ہے۔

ماہ رمضان المبارک میں کراچی شہر پر بھی پیشہ ور بھکاریوں اور گداگروں کی یلغار ہوتی ہے، جن سے بازاروں اور سڑکوں پر جان چھڑانا آسان کام نہیں ہے۔سحری کے اوقات میں محلے کی مساجد سے خوبصورت لحن دار آوازوں میں نعتوں کا پڑھنا اور بار بار سحری کے اختتامی وقت کا بتانا ایک معمول ہے، حالانکہ پہلے سحری میں جگانے والے آتے تھے جو اعلانات اور ڈھول بجا کر لوگوں کو اٹھانے کا فریضہ سر انجام دیتے تھے، لیکن اب یہ لوگ دور دور تک نظر نہیں آتے۔گزشتہ دس پندرہ سالوں سے نوجوانوں میں اعتکاف میں بیٹھنے کا رحجان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور اب کراچی کی مساجد میں ایک نہیں بلکہ کثیر تعداد میں نوجوان ، اعتکاف میں بیٹھتے ہیں۔ کراچی آج بھی پاکستان کا ایک ایسا شہر ہے جو اپنی تہذیب و ثقافت، اساس اور روایات کا امین اور ان سے اپنا رشتہ قائم رکھےہوئے ہے۔

تازہ ترین