• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
مختلف معاشروں میں ’’جنگل کا قانون‘‘ لاگو ہونے کی اصطلاح بے امنی، خانہ جنگی اور ملکی قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے یا پھر ملک میں کوئی قانون نہ ہونے کے معنوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم اگر یہ نظر غائر دیکھا جائے تو یہ اصطلاح زیادہ درست نظر نہیں آتی، کیونکہ جنگل میں قانون موجود ہوتا ہے اور سارے کمزور جانور اس کی تابعداری بھی کرتے ہیں! یہ قانون جنگل کے سب سے طاقتور (جانور) شیر نے بنایا ہوتا ہے کہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اگر شیر بکری سے کہے کہ دریا کا پانی ڈھلوان کی طرف نہیں بلکہ چڑھائی کی طرف بہہ رہا ہے تو ’’مروجہ‘‘ قانون کے مطابق یہ بات درست ہوگی اور بکری کو اس قانون کی خلاف ورزی کی سزا بھی ملے گی! اس قانون کو کوئی جانور چیلنج بھی نہیں کرسکتا کیونکہ شیر سے زیادہ طاقتور اور شاطر کوئی دوسرا جانور جنگل میں موجود ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی ان میں اتحاد کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے کہ دو چار بھیڑیے، ہاتھی، ریچھ وغیرہ متحد ہوکر بادشاہ سلامت کو ’’قابو‘‘ کرلیں اور اس کی مرضی کے قوانین کو تبدیل کرسکیں! اسی طرح انسانی جنگل میں بھی امریکہ بہادر ’’شیر‘‘ ہےاورواحد سپر پاور ہے۔ اگرچہ روس، جرمنی، چین اور یورپی یونین وغیرہ میں اتنی طاقت ہے کہ وہ متحد ہوکر امریکہ کو من مانیوں سے روکیں مگر ایسا نہ پہلے ہوا ہے اور نہ شاید مستقبل میں ہوگا! نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ نے اقوام متحدہ کا کام بھی خود ہی شروع کردیا ہے۔ خود ہی کمزور ممالک سے مذاکرات کرتا ہے، پھر ان کے ساتھ کئے گئے معاہدے توڑتا بھی ہے اور انہیں ’’جنگل کے قانون‘‘ کے مطابق سزا دینے کیلئے ان پر پابندیاں بھی لگاتا ہے یہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کو بھی اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ مذکورہ ممالک کے ساتھ تجارت، لین دین کریں نہ تعلقات رکھیں! جو ملک ایسا کرنے سے لیت و لعل سے کام لے اس کی منجی بھی ٹھونکنے کے لئے تیار رہتی ہے۔ آج کل اس نے یہ مہربانیاں جنوبی کوریا اور ایران پر کی ہوئی ہیں جبکہ پاکستان بھی کچھ اسی طرح کی ’’محبتوں‘‘ کو برداشت کر رہا ہے قصور یہ ہے کہ پاکستان امریکہ میں 40/50 برس سے رہنے والے ان پاکستانیوں کو واپس لینے میں  پس و پیش یا تاخیری حربے استعمال کررہا ہے جن کے بارے میں امریکہ کا خیال ہے وہ ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں؟ امریکہ کا موقف ہے کہ پاکستان کی حکومت ان پاکستانیوں کو واپس لینے کیلئے بہت تاخیری حربے استعمال کرہی ہے؟ تو پھر حکومت پاکستان کیا کرے؟ کیا وہ بلا تصدیق دوسرے ممالک کے شہریوں کو بھی پاکستانی شناختی دستاویزات دے کر پاکستان لے آئے؟ ظاہر ہے کہ اتنے عرصہ سے امریکہ میں رہنے والے افراد کے بارے میں تحقیقات اور چھان پھٹک کرنے میں وقت تو لگتا ہی ہے! پاکستان نے جنگل کے قانون کے مطابق شیر کے احکامات سرآنکھوں پر بجا لائے ہیں، بس صرف اتنی گزارش کی ہے کہ ہمیں ’’ان‘‘ کی شناخت کرنے کی تو مہلت دی جائے! اس پر شیر کی طرح امریکہ بہادر کو بھی غصہ آگیا ہے اور اس نے پاکستان کو بھی ان دس ممالک کی فہرست میں شامل کردیا ہے جو غیرقانونی تارکین وطن کی واپسی کیلئے اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتے! اس کی سزا یہ ہے کہ عام پاکستانیوں کو بھی ویزوں کے اجراء میں گو۔سلو (Go Slow)کا استعمال کیا جائے گا یعنی وہ لوگ جو باقاعدہ قانونی طور پر امریکہ جانا چاہتے ہیں ان کے ویزوں کے کیسوں کو اس قدر لٹکا دیا جائے گا کہ وہ بالاخر تنگ آکر کہیں گے کہ ’’مٹی پائو‘‘ امریکہ کی ان ’’مہربانیوں‘‘ کا اطلاق شروع ہوچکا ہے۔ اب امریکہ نے ایسا اس ملک کے ساتھ کیا ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا بڑا اتحادی تھا! جس کے ہزاروں شہریوں اور فوجیوں نے اس کے لئے قربانی دی۔ جو امریکہ کی موسٹ فیورٹ نیشنز میں شمار ہوتا تھا تاہم اس فہرست میں اس نے انڈیا کو شامل نہیں کیا جس کے پاکستان سے زیادہ شہری وہاں  غیرقانونی طور پر مقیم ہوسکتے ہیں! مگر انڈیا کے ساتھ دوستی کی پینگیں ابھی تک جاری ہیں۔ دبائو اتنا شدید ہے کہ اپنے معاشی حالات کی وجہ سے پاکستان مزید مزاحمت نہیں کرسکے گا اور اسے جس بھی ملک کے شہری کو پاکستانی کہہ کر پاکستان کے حوالے کیا جائےگا اسے پاکستان کو قبول کرنا ہوگا کیونکہ جنگل کا قانون یہی ہے۔
تازہ ترین