• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف کی کڑی شرائط عوام کے لیے کتنی سود مند کتنی نقصان دہ؟

معاشیات کی سمجھ بوجھ رکھنے والے دانش وَروں کی یہ بات پاکستان کے اہلِ بست و کشاد اور اقتدار و طاقت رکھنے والوں کو کب سمجھ آئے گی کہ دنیا کی کوئی پس ماندہ ریاست، جو اشیائے صرف کی صنعتوں سے ترقّی کے آغاز کا منصوبہ بنائے، اسے مشینوں کے لیے بنیادی صنعتوں والے مُلک یا ممالک کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ تاہم، 1945ء کے بعد جب بڑی طاقتوں نے بریسٹن ووڈ کے تحت عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے تشکیل دئیے، تو پس ماندہ ممالک کے سامراج کے حاشیہ بردار حکم رانوں نے اپنے قدرتی وسائل اور انسانی ہنرمندی کو بروئے کار لانے کی بہ جائے قرضوں کاآسان راستہ اختیار کیا، جس کی وجہ سےآج کئی ترقّی پزیر ممالک بند گلی میںکھڑے ہیں۔ قرضوں کی معیشت ، محتاج معیشت ہوتی ہے،اسی لیے ذرایع پیداوار یعنی مشینوں اور درآمدات پر انحصار کر کے کنزیومر انڈسٹری چلانے سے مُلک ادائیگیوں کے عدم توازن میں پھنس کر گِروی ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت، جسے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا، 35ارب ڈالر زکےتوازنِ ادائیگی کے خسارے کا سامنا کرتے ہوئے، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کر کے عوام کا کچومر نکالنے کا بندوبست کر رہی ہےکہ اس کے سوا حکومت کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ حالاں کہ موجودہ حکومت کے اقتصادی ماہرین اگر بڑے پیمانے پر چوری ہونے والے سیلز اور انکم ٹیکس حاصل کرنے کی کوئی راہ نکالیں، تو مُلک پٹری پر آ سکتا ہے۔قبل ازیں، اسد عمر نے یک دَم ہی روپے کی قدر میں کمی کردی، اگروہ اور اُن کی معاشی ٹیم اقتدار میں آنے سے پہلے سیلز اور انکم ٹیکس وصول کرنے اور برآمدات میںاس قدر اضافے کی منصوبہ بندی کر لیتے، جتنی روپے کی قدر میں کمی کی ہے، تو پھر عوام پر قرضوں کا بوجھ پڑتا ،نہ ہی منہگائی کا جن بے قابو ہوتا۔ ایف بی آر کے نئے سربراہ ، شبّر زیدی سے امیدہے کہ وہ’’ دیر آید درست آید‘‘جیسا محاورہ دُرست ثابت کر دیںگے، لیکن اس مرتبہ آئی ایم ایف ،امریکی پشت پناہی پر سی پیک کا بدلہ لینے کی آڑ میں کڑی شرائط رکھ رہا ہے۔ بین الاقوامی قرضوں اور عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطے پاکستان اور پس ماندہ ممالک کو مجبور کرتے ہیں کہ توازنِ ادائیگی میں خسارہ ہو تو ،آئی ایم ایف کے پاس جانا لازم ٹھہرتا ہے۔ اس کے بعد ہی دیگرمنصوبوں کے لیے عالمی بینک اور دیگر امور کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک اور بہت سے دیگر بینکس اور ادارے پاکستان کو قرضہ دیں گے۔ اس طرح حکومت تو چل پڑے گی ، لیکن عوام کاوہی حال ہو گا، جو ارجنٹائن ، یونان اور ان جیسےبہت سے دیگرممالک کے عوام کا ہوا۔ 2018ء میں پاکستان کےقرضوں کا تخمینہ 72.1فی صد جی ڈی پی لگایا گیا تھا، جواب 2019ء میں بڑھ کر 79.1فی صد ہو جائے گا۔ اگر پاکستان اگلے سال قرض کی 21ارب ڈالرز کی رقم ادا نہیں کر سکا،توسمجھیںاس کے 79 فی صد اثاثے گروی ہیں۔یعنی قرض دینے والے ان کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ گزشتہ 30 برسوں میںجن لوگوں کی بد عنوانیوں کی وجہ سے وطنِ عزیز آج اس نہج پہ پہنچا ہے،اُن سے اب تک 20 ارب ڈالرز کی رقم بھی نہیں نکلوائی جا سکی۔اور دعویٰ کیا جاتارہا کہ باہر سے 200 ارب ڈالرز واپس لائیں گے ،جو سراسر جھوٹ ہے۔

آج دنیا چوتھی جنریشن انڈسٹریل سطح تک پہنچ چکی ہے ، حقیقی ترقّی کا انحصار بنیادی صنعتوں اور آٹومیشن پر ہو گیا ہے۔ عہدِ حاضر میں بےپناہ قوّت کا سر چشمہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی ہے۔ جب کہ مواصلات اور معلومات کاحصول بہ ذریعہ الیکٹرانک ٹیکنالوجی، تجزیات پر کنٹرول بہ ذریعہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور تسخیرِ کائنات بہ ذریعہ خلائی ٹیکنالوجی ممکن ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں کہ چاند کون دیکھے گا، لڑکی کی شادی کی عُمر کیا ہونی چاہیے، ذریعۂ تعلیم انگریزی ہو یا اردو اور نہ جانے کیا کیا الا بلا… اوران تمام باتوں کے شور میں لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیاہمارا مُلک آئی ایم ایف کے حوالے ہوگیا۔ پاکستان میں قومی اقتدار کو اصل چیلنج پیداوار اور مارکیٹ اکانومی کے احتیاطی نظام کا ہے ،جس کے پھندے میں سر دینے کے شوق میں کئی حکومتیں بے اقتدار ہو چکی ہیں۔ اس وقت تحریکِ انصاف کی حکومت کے لیے اصل چیلنج اپوزیشن نہیں،بلکہ سب سے بڑاچیلنج تودرآمدی سیلاب ہے، جو ادائیگیوں کے عدم توازن، خساروں اور قرضوں کے انبار میں اضافے سے قوم کا بچا کھچامعاشی وسیاسی وقار کھو کھلا ہو رہا ہے۔ معاشی دیمک تو پاکستان کی سر زمین کے پانی کو بھی چاٹ رہی ہے۔ اب دیکھیے، پانی ہمارا ہے اور بیرونی ’’فرینچائز‘‘ بوتلیں بھر بھر کر منرل واٹر کے نام پر فروخت کر رہی ہیں۔ سابق چیف جسٹس، سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پانی کا ایک روپیہ ٹیکس دوکہ یہ کس معاہدے کے تحت ہماری جھیلوں اور دریائوں کے پانی سے منافع کما کر ڈالرز کی صُورت اپنے ممالک بھیج رہے ہیں؟ اگر حکومتیں بین الاقوامی ضابطوں سے بے بس ہیں ،تو ہم کیوں پی رہے ہیں؟ مشروب کالے رنگ کے ہوں یا سفید ، صحت کے لیے مفید نہیں ۔جب ہم جیسی بے حس قوم ان مشروبات اور منرل واٹرز سے اجتناب تک نہیں کر سکتی، تو پھر آئی ایم ایف کا عذاب ہی نازل ہو گا۔ عمران خان کی انتظامیہ کا پورا دھیان کرپشن کے خاتمےپر ہے اور آئی ایم ایف بھی اسے سپورٹ کرتا ہے، اس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’جن ممالک نے کرپشن کو کم کیا ، ان کو اس کا انعام بھی ملا ۔ اُن ممالک کا ٹیکس ریونیو خاصا بڑھا ہے ، جارجیا میں 13فی صد پوائنٹس اورافریقی مُلک روانڈا میں 6 فی صد جی ڈی پی پوائنٹس میں اضافہ ہوا ہے۔ جن ملکوں میں کرپشن کم ہے، ان کے سماجی وترقیاتی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘ جن لوگوں کو روانڈا کے بارے میں علم ہے ، وہ جانتے ہیں کہ وہ مُلک دس سال پہلے کس قدر غریب اور قتلِ عام کی آماج گاہ تھا ،جہاںایک ہفتے میں دو قبیلوں میں جنگ سے چار لاکھ انسان قتل ہوئے، آج وہ ترقّی کر رہاہے۔ ایتھوپیا ، جہاں1981ء میں لوگ قحط اور بھوک زدہ تھے ، نحیف ہو کر اپنی قبریں کھود کر بیٹھ جاتے تھے ،آج وہ بھی ترقّی کر رہا ہے ، تو بیش بہا نعمتوں سے مالا مال پاکستان کیوں ترقّی نہیں کر سکتا۔ بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ’’2005 ء اور2010ء کے درمیانی عرصے میں سینڈک جو چاغی میں واقع ہے، اس سے 1500میٹرک ٹن سونے اور تانبے کی پیداوار حاصل کی گئی‘‘ اس بارے میں کسی حکومت نے کچھ نہیں بتایا کہ وہ سب کہاں گیا۔ آئی ایم ایف نے تین سال میں 700ارب پیشگی ٹیکس عاید کرنے کی ہدایت دی ہے ، لیکن یہاں 40لاکھ مال دار ترین لوگ انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے، سیلز ٹیکس ہڑپ جاتے ہیں، بجلی و گیس چوری عام ہے، اگر یہ سب چور پکڑے جائیں ، توکیا یہ مٹی زرخیز نہیں ہو سکتی؟ اہلِ بست و کشاد مہربانی فرماکر کم از کم پانچ سال تک بے ایمانی بھی ایمان داری سے کر لیں، کیوں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن تو ہوتی ہے، لیکن جو حکم ران کھاتے کم، لگاتے زیادہ ہیں، وہ مُلک کچھ نہ کچھ ترقّی کرہی لیتے ہیں۔اس حوالے سے ملائشیا اور ترکی کی مثالیں واضح ہیں، اب تو افریقی ممالک بھی سِوک لائف میں ہم سے بہتر ہو گئے ہیں ۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ’’کرپشن پر قابو پانے کے لیے سیاسی پختہ ارادہ ضروری ہے۔‘‘ ظاہر ہےوزیرِ اعظم ،عمران خان اس معاملے میں تو سیاسی ارادہ رکھتے ہیں، لیکن یہ بھی دھیان میں رہے کہ مُلک کنزیومر ازم میں آگے اور مینو فیکچرنگ میں بہت پیچھے ہے ۔شبّر زیدی سب کچھ جانتے ہیں ۔اگر سیلز اور انکم ٹیکس درست وصول کیا گیا ، تو دو سال میں بجٹ کا خسارہ کم ہو سکتا ہے۔چھوٹے تاجریک دَم بڑے بڑے مالز کے مالک کیسے بن جاتے ہیں، ڈاکٹرز(اسپیشلسٹ) کیسے کروڑ پتی بن جاتے ہیں،ان سب کارہن سہن ،گاڑیاں، ریستورانوں میں ایک ایک وقت میںدس ،دس ہزار روپےکا کھانا کیسے ممکن ہوجاتا ہے۔یہاں گارڈزاور خاکروبوں کی تنخواہیں پانچ پانچ ہزار روپے ہیں۔ اس طرح مُلک کیسے چلے گا؟آئی ایم ایف نے مشورہ دیا ہے (کڑی شرائط کے علاوہ) ’’کرپشن کم کرنے کے لیے ادارے مضبوط بنانے ہوں گے، تاکہ احتساب ہو سکے۔‘‘ اس ضمن میں مزید تین مشورے بھی ہیں ((1شفّافیت اعلیٰ درجے کی ہو، جو اصلاحات میں نظر نہیں آتی۔ باہر کے مُلکوں کی آڈٹ ایجینسیوں سے آڈٹ کروایا جائے۔ عوام کو بھی کرپشن پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ (2)اداروں کاایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہو، تاکہ کرپشن کا سدّ ِباب ہو سکے۔ (3)میرٹ کی بنیاد پر سب اداروں میں لوگوں کو ملازمت دی جائے، پروموشن اور ہائرنگ کا درست میکانزم ہو۔( آئی ایم ایف جہاں قرضوں کی مار میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا ، وہاں دل جوئی کے لیے اچھے مشورے بھی دے دیتا ہے۔ )

حکومت کرنا عمران خان کے لیےاُس وقت آسان ہو گا، جب ٹیکس چوروں کو معاف نہ کیا جائے، خاص طور پر سیلز ٹیکس ہضم کرنا، تو بڑا جرم ہے۔ انکم ٹیکس چوری اس سے بھی بڑا جرم ہے اور برآمدات میں حکومت اتنا کر لے کہ برآمد کنندگان سےبجلی، گیس اور دیگر ٹیکس مینو فیکچرنگ کے وقت بل نہ لے، جب وہ ایکسپورٹ بڑھائیں، زرِمبادلہ لائیں، باہر نہ رکھیں تو پھر اس سے بلوں کو لے لیا جائے، اس طرح پاکستان مسابقت کے قابل ہو جائے گا۔ اگرہم دو سال میں 35ارب ڈالر زایکسپورٹ تک پہنچ گئے اور ٹیکس کی آمدنی دُگنی ہو گئی۔ (جو محنت کی جائے تو کوئی مشکل نہیں) تواس کے بعد آئی ایم ایف کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، لیکن یہ ذہن میں رہے کہ زراعت میں ڈیری فارمنگ اور لائیو اسٹاک پر رقوم لگائی جائیں، یہاں سے قرض کی واپسی بھی آسان ہو گی۔نیز، ایگرویل انڈسٹری لگائی جائے ۔فاٹا میں ووکیشنل تربیت کے علاوہ کاٹیج انڈسٹری کو بھی فروغ دیا جانا چاہیے۔اگر ٹیکس میں اضافہ اور برآمدات میں منصوبہ بندی کے تحت اضافہ کر دیا جائے، تو معیشت جَست لے سکتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ دستاویزی حیثیت کو عاید کیا جائے۔اکبر علی ایم اے، قرضوں کے بارے میں اپنی کتاب ’’پاکستان روحِ انصاف کی تلا ش میں‘‘ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’آخر جاپان اور جرمنی نے بھی جنگِ دوم کے بعدقرض کے ذریعے بربادی کو بحالی میں بدلا تھا۔ انہوں نے قرضے اپنے سائنس دانوں، ٹیکنالوجسٹس ، انجینئرز ، مستریوں ، صنعت کاروں اور مزدوروں کے ساتھ ناتے جوڑنے کے لیے حاصل کیے ۔ انہوں نے یہ قرضے اپنی تعلیم کو اپنی صنعتوں کی بحالی میں استعمال کرنے کے لیے حاصل کیے ۔اور انہوں نے قرض استعمال کرنے کے لیے مطلوبہ انفرااسٹرکچر کوبحال رکھا۔ انہوں نے قرضوں سے مشینیں یا گاڑیاں نہیں خریدیں ، ٹیکنالوجی کا خود اطلاق کرنے کی پالیسی سے بحالی کی راہ اپنائی۔‘‘در اصل اِنڈیجنائزیشن (مقامیت) ان کی پالیسی کا مرکزی نقطہ تھا۔تو سی پیک بھی ہمارے لیےاُسی وقت فائدہ مند ثابت ہو گا، جب انسانی سرمائے کو اثاثہ بنانے کے لیے تربیت یافتہ کیا جائے گا۔ فی الحال تو چین ہی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ 6ارب ڈالرز قرضےمیں سے ایک ڈالر بھی اسٹیٹ بینک میںنہیں آیا۔ کیوں…؟چھے ارب ڈالرز کا بیل آئوٹ پیکیج تین سال میں ملے گا ۔تاہم، اس سال 6.88ارب ڈالرز سود کی ادائیگی کرنی ہے، جو گزشتہ حکومت نےقرضے لیےہیں، ان کا بوجھ مزید بڑھے گا۔ اگلے برس تیس ارب ڈالرز کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہمیں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔ انرجی کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہو گا۔ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری میں اضافہ ہوا ،لیکن اسٹیٹ بینک نےحکومت کو اجازت دی ہے کہ وہ مجسٹری سپورٹ کے لیے گزشتہ برس سے 26فی صد زیادہ رقوم حاصل کر سکتی ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ مانیٹری پالیسی کے اثرات کیا ہوتے ہیں ،کیوں کہ ڈاکٹر عشرت ، ڈاکٹر یعقوب کی شرحِ سود کو ’’یوٹرن‘‘ لے کر 23 فی صد سے 5 فی صد تک لے آئے تھے۔ اب دو تین ارب ڈالرز ایشیائی بینک بھی قرض دے گا۔ عالمی بینک بھی اتنی ہی رقم قرض کی صُورت دینے کو تیار ہے، محصولاتی خسارےکے لیے 700ارب روپے کا فوری انتظام کرنا پڑے گا اور سود کی شرح 200پوائنٹس سے بڑھائی جائے گی ،جو 12 فی صد ہو گی۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں وینزویلا اور ایران پر پابندیوں کی وجہ سے 62 ڈالر فی بیرل سے 74ڈالر ہو گیا ہے، جو پاکستان کی توازن ِادائیگی کے لیے مشکلات میں اضافےکا باعث ہے۔ امریکا کو کوئی پوچھنے والا نہیں ،ورنہ ایران سے گیس اور تیل درآمد ہونے سے عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔ برآمدات بڑھانے اور براہِ راست ٹیکس وصولی کے لیے گرے اور بلیک شعبوں سے سختی سے نمٹنا ہو گا، کیوں کہ بجٹ کا خسارے، 22سو ارب روپے سے نبردآزما ہونا بھی حکومت کے لیے ضروری ہے۔ ویت نام اور بنگلا دیش کی برآمدات پاکستان سےکئی گنا زیادہ ہے، تو پاکستان ان کے برابر کیوں نہیں پہنچ سکتا۔ماہرین کے مطابق بجلی کی کمی کی وجہ سے انڈسٹری کو2012ء میں 210ارب روپے اور 2015ء میں 253ارب روپے کا نقصان ہوا ۔ اس لیےبجلی چوری کی گرفت اور اس کی ترسیل پر توجّہ دینی ہو گی، اسٹاک مارکیٹ میں شوکت عزیز نے جو کچھ کہا تھا، اُس سے اناڑیوں کا اعتماد اُٹھ گیا ہےاور اب یہ کھیل آپس میں کھیلا جا رہا ہے ۔ ویسے بھی اسٹاک مارکیٹ ایک شخص کو روزگار فراہم نہیں کر سکتی، سماجی تفریق بہت بڑھ گئی ہے ۔روزگار بڑھانے کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ پھرقوّت ِخرید ،آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے سبب مزید کم ہو گی، تواب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک ِانصاف کی حکومت گزشتہ اور حالیہ ملبے کو کیسے صاف کرتی ہے۔

تازہ ترین