• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سردار عبدالرحمٰن…بریڈفورڈ
اقوام متحدہ کے بین الاقوامی تنازعات کے حل میں کامیابی اور ناکامی کی جانچ پڑتال کا ایک راستہ یہ ہے کہ اس ادارے کے معرض وجود میں آنے کے اسباب اور اغراض و مقاصد پر گہری نظر دوڑائی جائے اور پھر یہ معلوم کیا جائے کہ ایسی تنظیم کو دنیا کے امن کے لئے کیوں ضروری سمجھا گیا تھا، جبکہ اس نوعیت کی ایک دوسری تنظیم یعنی ’’لیگ آف نیشن‘‘ بری طرح ناکام ہوچکی تھی۔ ’’لیگ آف نیشنز (League of nations) کے مکمل طور پر ناکام ہونے کے بعد دنیا کا امن اور تحفظ تباہی کے داہنے پر پہنچ چکا تھا۔ اس لیے بڑی طاقتوں کو ایک بین الاقوامی ادارے کی سختی سے ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ 1943کے آغاز تک امریکہ، برطانیہ، روس اور چین ایک نئی تنظیم کے حق میں تھے ۔لہٰذا اس بارے میں ماسکو میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کے بعد بنیادی طور پر ایک عالمی تنظیم کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا 1943اور1944کے درمیان چند بین الاقوامی ایجنسیوں کی بنیاد رکھی گئی۔ مثلاً ریلیف اینڈ ری ہیبلی ٹیشن ’’فوڈ اینڈ ایگری کلچر‘‘ ’’انٹر نیشنل منی ٹری فنڈ‘‘ اور ’’انٹر نیشنل ایوی ایشن‘‘ یہ غیر متنازع تنظیمیں اور کانفرنسیں ایک طرح کا آغاز تھا جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جارہا تھا کہ آیا دنیا کے امن اور تحفظ کیلئے ایک بین الاقوامی نوعیت کے تنظیم کے انعقاد کے امکانات بھی ہیں؟ لہٰذا 1944میں چار بڑوں کے درمیان گفت و شنید کا آغاز ہوا۔ طویل بحث و تمحیص کے بعد1948ء میں ہی ایک جیورسٹ کی کمیٹی نے ایک (Statute) یا مسودہ ڈرافٹ کیا یہ اسٹیٹیوٹ (Statute) پچاس اقوام کی کانفرنس میں پیش کیا جانا تھا۔ دو ماہ کی محنت اور کافی بحث مباحثہ کے بعد اقوام متحدہ کا یہ چارٹر معرض وجود میں آگیا۔ پھر بین الاقوامی عدالت (Statute of international court) معرض وجود میں آگئی۔ دنیا کا یہ انتہائی بلند امیدوں پر قائم ادارہ1945ء میں معرض وجود میں آگیا اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر باقاعدہ دستخط ثبت ہوگئے۔ اس ادارے کا مقصد پورے گلوب پر امن قائم کرنا تھا۔ اس بات میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے کہ اس ادارے کے بنانے میں اور اس کی پلاننگ میں امریکہ کی سیاسی لیڈر شپ کا بہت بڑا اثر و رسوخ اور کردار تھا۔ باوجود اس کے کہ امریکہ کے پاس بہت بڑی عسکری اور اقتصادی طاقت ہے۔ صدر ’’فریسکیلن روز ولٹ‘‘ کا خیال تھا کہ گلوبل امن امریکہ کے مفاد میں ہے۔ تاہم یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ بڑی طاقتوں کے اعلیٰ مراتب اور مقامات پر قابض افراد نے بھی اس ادارے کے قائم ہونے میں بھرپور مدد کی۔ تین بڑی طاقتوں نے جنگ عظیم دوم میں بہت نقصان اٹھایا۔ اس لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ دنیا میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے ان بڑی طاقتوں نے جنگ عظیم دوم میں بہت نقصان اٹھایا۔ اس لیے یہ ضروری سمجھایا گیا کہ دنیا میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے ان بڑی طاقتوں کا اس قسم کی بین الاقوامی تنظیم کے ذریعے آئندہ کامیابی کیلئے آپس میں رابطہ رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے سوچا کہ آپس میں تعاون دوران جنگ کامیاب رہا۔ اس لیے یہ تجربہ اور نقطہ ان کو اقوام متحدہ کی کامیابی کے لیے ایک امید نظر آئی۔ ’’سان فرانسکو‘‘ کانفرنس میں ان بڑی طاقتوں کو اپنے اپنے مختلف مفادات اور نظریات کو مفصل طور پر زیر بحث لانے کا موقع ملا اور ان بڑی طاقتوں نے ایک دوسرے کو اپنی اپنی پوزیشن سے آگاہ کیا، لیکن کچھ کمپرومائز کے بعد اقوام متحدہ کا چارٹر معرض وجود میں آگیایہ چارٹر شروع ہی سے بڑی طاقتوں کے درمیان طے ہوتا اور کمزور طاقتوں کیلئے ایک ’’حکم نامہ‘‘ (Dictate) رہا۔ گوکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں بڑی طاقتوں کا بہت اثر رسوخ شامل ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ جنگ عظیم کے بعد دنیا کی نفسیاتی حالت اور جنگ کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے ایسی تنظیم کے لیے عوام کی خواہشات اور مرضی بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی معرض وجود میں آنے کی تاریخ، ترتیب، تسلسل، غرض و غایت اور اس کی نوعیت اور منشا صاف ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کا اس گفت شنید میں اہم رول تھا اور امریکہ دوسرے فریقین پر اثر انداز ہونے میں اپنا پورا پریشر ڈال رہا تھاجنگ عظیم کے بعد بڑے اتحادیوں کا ایک دوسرے سے الگ ہونے کا خطرہ منڈلا رہا تھا یہ ایک دوسرے سے دوری امریکہ کے گلوبل پریشر کیلئے اچھی نہ تھی۔ بظاہر اقوام متحدہ کو بین الاقوامی امن اور انصاف ایک وسیلہ یا آلہ کار بنایا گیا تھا جو پوری گلوبل کمیونٹی کی ایجنسی سمجھی جاتی تھی، تاکہ فاتح اقوام کی ایک ذیلی تنظیم، اقوام متحدہ کا دائرہ اور مدعا محدود نہیں تھا۔ اقوام متحدہ ایک خاص تنظیم تھی جو مختلف انواع کے عالمی تنازعات کے حل طلب معاملات کو طے کرنے کی غرض سے بنائی گئی تھی۔ دنیا کے انسانوں اور ممالک کے وہ تمام تنازعات جو بین الاقوامی توجہ چاہتے تھے اس تنظیم کے دائرہ اختیار میں تھے۔ اقوام متحدہ کا مقصد صرف دنیا کے سیاسی مسائل کرانا اور امن و امان کے مسائل پر نظر رکھنا ہی نہیں تھا بلکہ اس کے چارٹر کی آرٹیکل نمبر1میں اقتصادی، سوشل کلچرل اور دوسرے انسانی حقوق کے مسائل بھی شامل ہیں۔ ’’میکسیکو‘‘ کے نمائندے ’’اسکیول پاڈیلو‘‘ نے اس پہلو پر ’’سان فرنسسکو‘‘ کانفرنس میں ان الفاظ میں اظہار کیا تھا۔
’’لوگو! یہ چارٹر صرف جنگ و جدل کی وحشت کے خلاف سیکورٹی کا آلہ کار نہیں ہے، بلکہ یہ چارٹر ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو انسانی وقار رکھنے کے لیے اور اصولوں کو قائم رکھنے کے لیے برسرپیکار رہتے ہیں۔ یہ فلاح و بہبودی اور خوشی کا چارٹر ہے۔ یہ چارٹر ایسے امن کے لاف ہے جس میں خوف و بیزاری، ناامیدی، انسانی تذلیل و تحقیر اور ناانصافی اور محرومی ہو۔‘‘
ظاہر ہے کہ اس ادارے کی کامیابی کا دارو مدار ہر شعبے میں مکمل طور پر بڑی طاقتوں کے تعاون سے مشروط ہے اور عموماً چھوٹے ممالک کو بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات میں ساتھ ملا لیتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی تشکیل و تنظیم ازسرنو گلوبل امن قائم رکھنے کی کوشش تھی، مگر کمزور ممالک کے ممبران کو اقوام متحدہ کے فیصلوں پر بالکل کوئی قابل ذکر اختیار نہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی کارکردگی اور ریکارڈ فلسطین، کشمیر، سائپرس، روڈشیا اور جنوبی افریقہ کے تنازعات میں ناکامی کی ایک کھلی کتاب ہے۔ آج دنیا کے تنازعات پر نظر ڈالیں تو وہی بے اثر ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو سفاکی اور بربریت سے تہ تیغ کیا گیا، مگر اقوام متحدہ حرکت میں نہ آئی۔اس تنظیم اور عالمی حکومت میں بہت فرق ہے۔ اقوام متحدہ ایک خودمختار ڈھانچہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ اپنی ممبر ریاستوں کی مرضی کے بغیر اپنے فیصلے مسلط کرسکتا ہے دنیا کے سیاسی نوعیت کے تنازعات کے حل کرنے میں اقوام متحدہ کا ریکارڈ انتہائی ناقص ہے۔ شاید یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ ان بنیادی ضروری اختیارات سے محروم ہے جو ایسے فیصلے نافذ کرانے کیلئے لازمی ہیں جب قراردادیں نافذ کرانے کا وقت آتا ہے تو اقوام متحدہ بڑی طاقتوں کے ’’بلاکس‘‘ میں تقسیم ہوجاتی ہے اور اقوام متحدہ اقوام منقسم کا تاثر دینے لگتی ہے۔ پھر تقریباً ہر بات کا دارو مدار متحارب ریاستوں کی مرضی اور آمادگی پر منحصر ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے نافذ ہونے میں بھی دونوں متحارب ریاستوں کی مرضی اور آمادگی کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ کشمیر کے معاملے میں ہندوستان اور پاکستان دونوں کی رضا مندی رائے شماری کیلئے لازمی ہے۔اقوام متحدہ کا بھی یہ مقصد نہ تھا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کا بھی یہ مدعا نہ تھا کہ اقوام متحدہ کو ایک عظیم اور سپریم ریاست بناکر دوسری ممبر ریاستوں پر سپر پاور بناکر بٹھا دیا جائے۔ تاکہ یہ اپنی پالیسی فوج کے ذریعے قراردادوں کی شکل میں متحارب ممبر ریاستوں پر ٹھونس دے اور اس طرح گلوبل امن و امان قائم ہوجائے۔ امریکہ کے صدر ’’روز ویلٹ‘‘ نے جون 1944ء میں کہا تھا۔ ’’ہم ایک سپر اسٹیٹ بنانے کا نہیں سوچ رہے ہیں، جس کے پاس امن و امان قائم کرنے کیلئے اپنی پولیس فورس ہو اور جس کے پاس دوسرے جابرانہ سازو سامان اور لوازمات ہوں، بلکہ ہم ایک موثر معاہدے اور منصوبے کی تلاش اور جستجو کرہے ہیں جو اقوام عالم مل کر قائم رکھیں گی۔ وہ اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق امن وامان قائم رکھنے کیلئے اور جنگ و جدل روکنے کیلئے اپنی اپنی فوج کو تیار رکھیں گے اور جہاں کہیں بھی ان کی ضرورت پڑے گی وہ مدد کریں گی‘‘ دوسرے الفاظ میں اقوام متحدہ اس حد تک کامیاب ہوگی جس حد تک امن پسند ممبرز ریاستیں اپنی مرضی، توفیق اور استعداد کے ساتھ مدد کرسکیں گی۔ اقوام متحدہ بالواسطہ طور پر دوسری ریاستوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی آرٹیکل نمبر2پیراگراف نمبر2کے مطابق یہ تنظیم تمام ممبرز ریاستوں کی خودمختاری کے اصولوں پر قائم ہے۔ اقوام متحدہ آزاد ریاستوں کے باہمی تعاون کا منصوبہ ہے۔ ناکہ ریاستوں کو ایک مطلق العنان ’’سپر ریاست‘‘ کے ماتحت ٹھوس بنیادوں پر قائم رکھنے کا ایک الگ ڈھانچہ۔ اس لیے اقوام متحدہ کا بین الاقوامی تنازعات کے حل کرنے کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا دارو مدار اس تنظیم کی شریک ممبرز ریاستوں کے اندرونی اور بیرونی پالیسیوں پر منحصر ہے، جن پالیسیوں کے تحت وہ گلوبل حالات باہمی ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کو بڑی طاقتوں کا آپس میں اتحاد کے مفروضے پر معرض وجود میں لایا گیا تھا۔ بڑی طاقتوں کو یو این او کے چارٹر میں خصوصی استثنا اور اعزاز دیا گیا تھا اور انسانی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں، لیکن شواہد بتا رہے ہیں کہا ن پانچ بڑی طاقتوں نے اپنا ’’حق استعداد‘‘ یعنی (Veto) ناجائز طریقے سے استعمال کرکے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو رد کرکے انصاف میں رکاوٹ ڈالی۔ اس میں بھی شک نہیں کہ بڑی طاقتوں نے کچھ عالمی نوعیت کے معاملات میں عدم تعاون کے شگافات کو کم کیا۔ چند بڑی طاقتوں کے درمیان سخت اختلافات ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی نوعیت کے دوسرے تنازعات حل نہ ہو سکے مغرب اور مشرق کے درمیان ’’سردجنگ‘‘ خصوصاً امریکہ اور روس کے درمیان اس لیے جاری رہی کہ ان کا اپنا اپنا سیاسی اور معاشی بنیادی تصور اور مطمع نظر مختلف تھا۔ اس صورت حال میں دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس صورت حال کو ’’بائی پولر سسٹم‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی امریکہ اور اس کے اتحادی ایک طرف اور روس اور اس کے اتحادی دوسری طرف۔ یہ صورت حال قراردادیں منظور کرانے میں اقوام متحدہ کے لیے مشکل تھا کہ بلکہ ناممکن تھا کہ وہ کسی گلوبل تنازع کا حل نکال سکیں۔ ان دونوں (Camps) کے اپنے اپنے مفادات کا ٹکرائو بین الاقوامی تنازعات پر اثر انداز ہوتا ہے حق استعداد (Veto) ایک اور بڑی رکاوٹ رہی ہے اور یہ چھوٹی ریاستوں کے لیے مضحکہ خیز ہے جو بظاہر اقوم متحدہ کے ممبرز کی حیثیت سے برابر سمجھی جاتی ہیں، لیکن فیصلوں میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ بڑی پانچ طاقتوں کی منظوری اور قبولیت پر بھی تنقید کی گئی ہے اور اس چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے کہ اقوام متحدہ پر ایک خاص مقصد کیلئے بین الاقوامی مخصوص طبقے کی حکومت بٹھا دی گئی ہے۔ بجائے اس کے کہ بین الاقوامی جمہوریت گلوبل تنازعات کا حل نکالے پانچ بڑی طاقتوں نے سازش کے ذریعے اپنے اپ کو گلوبل ڈکٹیٹر بنا لیا ہے۔ چھوٹی ریاستوں کا پانچ بڑی ریاستوں کی خصوصی حیثیت کے خلاف کانفرنس کے ابتدائی مواقع پر آواز اٹھانے کو سختی سے مسترد کردیا تھا۔ اقوام متحدہ کے معرض وجود میں آنے کے بعد دنیا میں کسی گلوبل سطح کے سیاسی بحران رونما ہوئے اور ممبرز ریاستوں میں کئی تنازعات نے سر اٹھائے۔ ایک تنازع بھی اقوام متحدہ نے بغیر مداخلت کے کامیابی سے حل نہیں کرایا۔ اقوام متحدہ اکیلی خود کوئی کارروائی نہیں کرسکتی اور نہ اس کے پاس ای سے اختیارات ہیں۔ اقوام متحدہ مالی طور پر بھی آزاد نہیں ہے۔ اس ادارے کے مالی وسائل اور سرمایہ بڑی طاقتوں کی طرف سے آتا ہے۔ سیکرٹری جنرل کی اسامی بھی خودمختار نہیں ہے مثال کے طور پر ایک سیکرٹری جنرل کو سوویت یونین کی شدید رکاوٹ اور مداخلت کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ ’’ڈاگ ہمر شلڈ‘‘ کی پراسرار موت بھی یو این او کے معاملات میں مداخلت کی طرف واضح دلیل ہے۔ یو این او کے معرض وجود میں آنے کے بعد نئے حالات کے رونما ہونے کی وجہ سے اس کا گلوبل معاملات میں کردار اور اثر بہت محدود ہوگیا ہے۔ ’’بائی پولر‘‘ مقابلے کی وجہ سے تواتر سے یو این او کا اثر کم ہوتا رہا ہے۔ ’’ایس۔ ہاف مین‘‘ اپنے ایک مضمون میں اس صورت حال کی اس طرح نشاندہی کرتا ہے۔ یو این او بے اثر رہا اور محدود رہا جب بھی بری دو طاقتوں میں سے کسی ایک نے اکیلے آزادانہ اور طاقت کے زور پر یا دھمکی کے ذریعے اپنے حلقہ اثر میں غلبہ یا تسلط قائم کرنے کی کوشش۔‘‘
’’ہاف مین‘‘ کے اس نقطے کی تصدیق سوویت یونین کی ہنگری میں کارروائی سے ہوتی ہے۔ جہاں یو این یو نے مداخلت کرنے میں مکمل کمزوری اور معذرت ظاہر کی۔ اقوام متحدہ نے دو بڑی طاقتوں کے درمیان تنازعات کے خطرات کے خلاف کسی قسم کی اجتماعی سیکورٹی حاصل نہیں کی۔ ماضی میں ان دو طاقتوں اور ان کے اتحادیوں کے درمیان کئی خطرناک نوعیت کے تنازعات رونما ہوئے، لیکن ان میں اقوام متحدہ کا کردار برائے نام ہی رہا ہے۔ مثلاً اقوام نے ’’برلن ملاکیڈ‘‘ لائوس کی جنگ، کیوبن مسائل کرائی سس، ویتنام کی جنگ اور کئی دوسرے خطرناک واقعات میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جب یہ بڑی دو طاقتیں بالواسطہ کسی تنازع میں شامل نہیں ہیں لیکن ان کے بلاواسطہ طور پر ان تنازعات میں مفادات ذاتی حیثیت میں موجود ہیں۔ تب بھی اقوام متحدہ کوئی سودمند کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کانگو میں1960ء میں اور مڈل ایسٹ میں 1969ء میں غیر موثر رہی۔ یو این او کو دو بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ ختم کرانے کی ناکامی کے علاوہ دوسرے ملکوں کے درمیان جھگڑے ختم کرانے میں بھی بری طرح ناکامی کا چیلنج رہا۔ بڑی طاقتوں کے درمیان ٹھوس بنیادوں پر مجموعی رائے یا اتفاق کی عدم موجودگی اور ارادے کی ناپختگی کو یو این او کی ناکامی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مثلاً یو این او نہ الجیرین جنگ میں کامیاب ہوئی اور نہ ’بی افرا‘‘ جنگ میں۔ یو این او کی قراردادیں جنرل اسمبلی اور سیکورٹی کونسل دونوں میں منظور کی گئی ہیں، جو بعد میں غیر موثر ثابت ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کا ناکامی اور مایوسی کا ریکارڈ بہت لمبا اور پرانا ہے۔ اقوام متحدہ کی کارکردگی اور ریکارڈ فلسطین، کشمیر، روڈشیا اور جنوبی افریقی کے ایشوز میں ناکامی ایک کھلی داستان ہے۔ اقوام متحدہ کے اقصادی پہلو پر غور کیا جائے تو اس طرف بھی کوئی نمایاں کامیابی نہیں ہوئی۔ بڑی اور امیر اقوام کی طرف سے وسائل اور فنڈز چھوٹی اقوام کی طرف منتقل نہیں ہوئے۔ یو این سی ٹی اے ڈی کا ریکارڈ بھی بہت قابل رحم ہے۔
تازہ ترین