• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ساتھ والوں کے لڑکے کی بغیر سائلنسر والی موٹر سائیکل کی تیز آواز بی امّاں کی سماعتوں سے ٹکرائی، تو انہوں نے بے اختیار کانوں پر ہاتھ رکھ کر لاحول پڑھی اور بولیں،’’توبہ…توبہ، اس لڑکے کی تربیت نہیں کرسکے امّاں باوا۔ یہ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، منہ ٹیڑھا کر انگریزی میں گِٹ مِٹ کرتے ہیں، مگر مجال ہے، جو ذرا سی تمیز سکھائی ہو۔‘‘زینی اپنی مُسکراہٹ چُھپائے کتاب پر نظریں جمائے بیٹھی رہی۔ ایف اے کے امتحان جو سَر پر تھے۔جب سے ہم سائے میں نئے مالک مکان آئے تھے، بی امّاں سخت نالاں تھیں۔ رہ رہ کر پُرانے محلّے داروں کو یاد کیا کرتیں، جو جانے کس مجبوری کے تحت کچھ عرصہ پہلے اپنا گھر بیچ کر چلے گئے ۔

زینی کو بھولا نہیں تھا، جب ساتھ والی آنٹی اپنے مشہورِزمانۂ سپوت کے ساتھ پہلی بار ان کے گھر آئی تھیں۔ بیٹے نے اپنے لمبے بال کس کر پونی میں باندھ رکھے تھے۔ گلے میں سونے کی چین تھی اورایک کان میں بالی۔ بازوئوں پر نقش کھدے تھے،تومنہ میں پڑی چیونگم کی جگالی الگ سے جاری تھی۔ ماں نے اچھی خاصی سانولی رنگت پر سنہری بال ڈائی کروا رکھے تھے اور سونے کی دکان بنی ہوئی تھیں۔ ابھی زینی ان کا جائزہ لے ہی رہی تھی کہ بی امّاں کی غضب ناک آواز گونجی،’’زینی بٹیا! باورچی خانے میں جاکر مہمانوں کی تواضع کا انتظام کرو۔‘‘ ساتھ ہی آنکھوں سے اشارہ کیا، جس کا مطلب تھا۔ ’’خبردارجودوبارہ اِدھر آئیں تو…‘‘اس کے بعد بھاون چاچا ہی بازار سے لوازمات لائے، چائے بنائی اور پیش کی، مگر مہمانوں نے کسی چیز کو ہاتھ تک نہ لگایا تھا۔ان کے جانے کے بعد بی امّاں نے آہ بَھر کر کہا، ’’ہائے! کیسا وضع دار گھرانہ تھا، میاں نجم الدین کا۔ کیسے لوگ آگئے ان کی جگہ۔خاندانی روساء میں بڑا رکھ رکھائو ہوتا ہے، انہیں تو مہمان بننے کے آداب بھی نہیں۔ اور ہاں بھاون میاں! کان کھول کے سُن لو یہ بی بی سو بار آئیں ہمارے گھر، مگر یہ لڑکا اب اندر قدم نہیں رکھے گا۔‘‘بھاون چاچا سَر ہلا کر برتن سمیٹنے لگے۔بھاون چاچا گھر کے بڑے پُرانے ملازم تھے اور زینی نے انہیں ہمیشہ ایسے ہی سَر جُھکائے حکم بجا لاتے دیکھا تھا۔

اس وقت زینی محض چند سال کی تھی،جب بی امّاں کا جوان بیٹا اور بہو حادثاتی موت کا شکار ہوگئے تھے۔زینی نے ہوش سنبھالتے ہی بی امّاںکو ماں، باپ، بہن، بھائی اور دوست کے روپ میں دیکھا تھا۔زینی لاؤنج میں بیٹھی گہری سوچوں میں گم تھی کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بج اُٹھی۔عطرت پھپھو کا امریکا سے فون آیا تھا۔ وہ بڑے پیار سے اس کا حال احوال پوچھنے لگیں۔زینی بے زاری سے ہر بات کا جواب دیتی رہی ،پھر بی امّاں کو فون تھمادیا اور خود آنگن میں لگے آم کے پیڑ کی طرف آگئی، جس پر بیٹھی کوئل کب سے بول رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جانے ایسی کیا مجبوری ہے ،جو پھپھوکئی برس گزر جانے کے بعد بھی ایک بار پاکستان نہیں آئیں۔یہی سب سوچتے سوچتے تھوڑی دیر باغیچے میں ٹہلتی رہی اور پھر اندرونی حصّے کی طرف بڑھی۔ تبھی اس کی نظر ٹیرس پر کھڑے ساتھ والوں کے ’’ناہنجار سپوت‘‘ پر پڑی، جو اس کی طرف متوجّہ تھا۔ اسے فوراً بی امّاں کی بات یاد آئی،تو اندر چلی آگئی۔

زینی کے ایف اے میں اچھے نمبرز آئے تھے، وہ کالج میں داخلہ لینا چاہتی تھی، مگر بی امّاں نے تو پہلے ہی میٹرک کی اجازت مشکل سے دی تھی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے آج وہ راحیلہ کے ساتھ براجمان تھی۔یہ وہ واحد سہیلی تھی، جس کے گھر آنے کی اجازت اسے میسّر تھی۔ کیوں کہ بقول بی امّاں، محلّے میں اب یہ آخری وضع دار گھرانہ بچا تھا۔ بہرحال، کسی نہ کسی طرح راحیلہ اور اس کی امّی نے بی امّاں کو منا کر ہی دَم لیا اور زینی کا داخلہ بھی کالج میں ہوگیا۔پھر جیسے وقت پَر لگا کر اُڑنے لگا۔ ایسے ہی ایک دِن جب وہ کالج سے واپس آئی، تو بی امّاں نے اسے خوش ہوکر بتایا کہ ان کا اکلوتا نواسہ یعنی عطرت پھپھو کا فرزندِارجمند،عمّاد کچھ عرصے کے لیے پاکستان آرہا ہے۔ زینی کو یہ خبر ذرا بھی پسند نہ آئی۔ ’’کیوں بھلا ،کیا کریں گے، وہ یہاں آکر۔‘‘ ’’اے ہے! لڑکی بائولی ہوئی ہے کیا؟ یہ اس کے نانا، نانی کا گھر ہے۔ بچّہ یہاں نہیں آئے گا تو کہاں جائے گا۔‘‘ ’’میرا یہ مطلب تھوڑی تھا۔ مَیں یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ یہ بدیسی لوگ ہمارے جیسے گھروں میں نہیں رہ سکتے۔ نہ ہمارے گھر میں اے- سی ہے، نہ ماسی اور نہ…!‘‘ زینی گڑبڑا کر بولی۔ انہوں نے اور تو کچھ نہ سُنا ’’ماسی‘‘ کے ذکر پر البتہ تلملا گئیں۔ ’’دو جی ہیں، گھر میں۔ کام ہی کتنا ہوتا ہے، ماسی کا تم نے اچار ڈالنا ہے کیا؟ آدھے سے زیادہ کام تو بے چارہ بھاون نمٹا دیتا ہے۔ مَیں دیکھ رہی ہوں،گز بَھر لمبی زبان ہوگئی ہے تمہاری۔ یہ اسی موئے کالج کے کرشمے ہیں۔‘‘’’ایسی کوئی بات نہیں ہے دادی۔‘‘ ’’اچھا بس، اب بحث نہ کرو۔ عمّاد اوپر والے بڑے کمرے میں رہے گا۔ بھاون صاف کردے گا، باقی سیٹنگ وغیرہ تم کرلینا۔یوں کرو ،راحیلہ کے ساتھ بازار ہو آئو۔ مَیں اشیاء کی فہرست بنا دیتی ہوں، رمضان بھی شروع ہونے والا ہے۔ ہاں! اپنے لیے کچھ ڈھنگ کے کپڑے ضرور لے لینا۔ ہر وقت اول جلول حلیے میں پھرتی رہتی ہو۔‘‘ اور زینی ہونّق بنی اس لات پر غور کررہی تھی، جو حاتم طائی کی قبر پر ماری جارہی تھی۔

اور اُس دِن جب بھاون چاچا ساتھ والوں کے سپوت سے ملتے جُلتے حلیے والے ایک نوجوان کو لیے گھر داخل ہوئے، تو زینی گھبرا ہی گئی۔’’بھاون چاچا! یہ کسے اُٹھا لائے ہیں آپ؟یاد نہیں، بی امّاں نے ایسی چیزوں کا داخلہ گھر میں ممنوع کر رکھا ہے؟‘‘ ’’بٹیا! یہ اپنے عمّاد میاں ہیں۔‘‘ ’’ہیلو! ڈیئر کزن! آپ یقیناً تز…ئین میرا مطلب ہے زینی ہیں ناں؟‘‘ مگر زینی کوئی جواب دیئے بغیر دھم دھم کرتی اندر چلی گئی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ ایسے نواسے کو دیکھ کر بی امّاں پر کیا گزرتی ہے، جس کے لیے وہ کئی دِن سے دیدہ و دِل فرشِ راہ کیے ہوئے تھیں۔بی امّاں حقیقتاً ہونّق سی ہوگئیں۔ زینی کی طنزیہ مُسکراہٹ سے نظر بچا کر نواسے کے سَر پر بادل نخواستہ ہاتھ پھیرا، جو کہ اس کے لمبے گھنگھریالے بالوں میں اُلجھ کر رہ گیا کہ عمّاد نے پونی باندھنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ بی امّاں نے سَر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جھٹ کہا، ’’بھاون! بچّے کو اوپر کمرے میں لے جاؤ، ذرا تازہ دَم ہولے۔‘‘ زینی کے لیے ہنسی روکنا مشکل ہورہا تھا۔ وہ خُوب سمجھ رہی تھی کہ بی امّاں کو اپنے حواس قابو میں رکھنے کے لیے وقت درکار تھا۔زینی کافی دِن مضطرب سی رہی۔ گھر میں نئے فرد کا اضافہ اس کے لیے قابلِ قبول نہ تھا، اس لیے اپنا زیادہ وقت پڑھنے میں گزار دیتی۔ ایک دِن جانے کیوں خلاف معمول وہ اس کے سَر پر آکھڑا ہوا اور بولا، ’’آپ کو انسانوں سے الرجی ہے کیا؟‘‘ ’’نہیں۔‘‘ زینی نے اسے سَر سے پیر تک دیکھا۔ ’’انسانوں سے تو ہرگز نہیں۔‘‘ اور کتابیں سمیٹ کر وہاں سے چل دی۔ عمّاد کتنی ہی دیر گم صم سا وہیں کھڑا رہا۔

روزے شروع ہوئے تو زینی کی مصروفیت بڑھ گئی، البتہ وہ اس بات پر ضرور حیران تھی کہ عمّاد باقاعدگی سے روزے رکھ رہا تھا اور محلّے کی مسجد میں نماز کے لیے بھی جاتا تھا۔ بی امّاں اُسے بھلائے ہر وقت نواسے ہی کی بلائیں لیتی رہتیں۔’’پتا نہیں کب ٹلیں گے، یہ حضرت یہاں سے۔‘‘ وہ دِل ہی دِل میں سوچتی رہتی۔ عمّاد دِن میں ہینڈز فِری لگائے لیپ ٹاپ پر کسی کام میں مگن رہتا یا پھر شام کو بھاون چاچا کے ساتھ باغیچہ سنوارتا رہتا۔ زینی نے غور کیا، اس کی توجّہ سے سخت گرمی میں بھی پودے ہرے بَھرے ہورہے تھے۔شام کو جب آنگن دُھل جاتا اور پھول، پودے دُھل دُھلا کر مُسکرانے لگتے، تو باغیچے میں بیٹھنا بہت اچھا لگتا۔ ’’گھر کے دَر و دیوار میں جیسے جان سی آگئی ہے ۔عمّاد کے آنے سےکتنی رونق سی رہنے لگی ہے۔‘‘ ایک شام بی امّاں سرشاری کے عالم میں اس سے مخاطب ہوئیں۔ ’’ہاں! اسی لیے تو اب مَیں آپ کو نظر نہیں آتی۔‘‘ زینی نے دُکھی ہوکر سوچا، مگر منہ سے کچھ نہ کہا۔ عید قریب آرہی تھی۔ اس بار تو بی امّاں خُوب اہتمام سے تیاریوں میں مصروف تھیں۔ زینی کو بھی باربار کہتیں کہ وقت پر اپنے لیے ساری خریداری مکمل کرلے، مگر زینی کو اپنے امتحانات کی فکر تھی، جو قریب ہی تھے۔ ایک شام افطاری کے بعد بی امّاں نے اُسے اپنے پاس بٹھا لیا اور بولیں، ’’زینی بٹیا! اب تم بڑی ہوگئی ہو۔ اپنا اچھا بُرا سمجھ سکتی ہو۔ مَیں بوڑھی ہوگئی ہوں۔ تمہارے مستقبل کے اندیشے میری جان کھائے جاتے ہیں۔ اس دُنیا میں تمہارے لیے عطرت کے گھر سے بڑھ کر بھلا کس کا گھر ہوگا۔ مَیں چاہتی ہوں کہ تمہارا نصیب عمّاد سے جوڑ کر تمہیں عطرت کو سونپ دوں۔ تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ ’’پلیز بی امّاں! ایسا سوچیے گا بھی مت۔ ساتھ والوں کا لڑکا ایسا ہے، تو آپ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہیں اور اپنے نواسے میں آپ کو کوئی عیب نظر نہیں آتا۔‘‘ وہ بدلحاظی سے بولی۔ ’’ارے او لڑکی! عقل گھاس چرنے گئی ہے کیا؟ کس کو کس سے ملا رہی ہو؟ میرا بچّہ اتنا سمجھ دار اور تہذیب یافتہ…‘‘ بی امّاں کی بات منہ ہی میں تھی کہ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور سامنے سے آتے عمّاد سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ ’’شاید اس نے سب سُن لیا ہے۔ ہونہہ! میری بلا سے…‘‘ اس نے لمحے بَھر کو سوچا۔ پھر سَر جھٹک دیا۔ بی امّاں نے تو اس کے بعد جیسے زینی کا مکمل بائیکاٹ ہی کردیا۔ نہ اس سے مخاطب ہوتیں ،نہ کوئی کام بتاتیں۔

آج چاند رات متوقع تھی اور عمّاد صُبح سے غائب تھا، لہٰذا موقع ملتے ہی زینی بی امّاں کے پاس بیٹھ کر انہیں منانے کی کوشش کرنے لگی۔دادی بھی کتنے دِنوں بعد اسے گلے لگا کر مُسکرا دیں۔ کچھ دیر بعد زینی اطمینان سے گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئی، مگر سارے ماحول میں کچھ کمی سی تھی۔ ایک اُداسی سی جیسے درودیوار سے لپٹی تھی۔ وہ گھبرا کر باہر نکل آئی اور باغیچے میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اچانک ڈور بیل کی آواز پر چونک اُٹھی۔ دروازہ کھولا، تو ایک خُوب صُورت، نفیس سی خاتون کے ساتھ ایک دراز قد نوجوان شلوار قمیص میں ملبوس کھڑا تھا۔ اس کے بال فوجی کٹ انداز میں نفاست سے ترشے ہوئے تھے اور مونچھوں تلے لبوں پر شریر مُسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ وہ ایک دَم ہونّق سی ہوگئی۔ ’’یہ لڑکا تو کچھ دیکھا بھالا سا لگ رہا ہے، مگر یہ خاتون…‘‘ اتنے میں خاتون نے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگا لیا۔ ’’ارے میری جان! مَیں مانتی ہوں مجھے تو تم نے اتنے عرصے بعد دیکھا ہے، مگر یہ عمّاد تو کب سے یہیں ہے اور تم ہو کہ ہمیں اجنبیوں کی طرح ٹُکر ٹُکر دیکھے جارہی ہو۔‘‘ عطرت پھپھو نے اس سے الگ ہوتے ہوئے کہا۔ ’’چھوڑیں مام! یہ انسانوں کو ظاہر کی نگاہ سے دیکھنے کی عادی ہیں۔‘‘ عمّاد نے چوٹ کی اور اندر بڑھ گیا۔بی امّاں پر تو شادیٔ مرگ کی سی کیفیت طاری تھی۔

اگلے دِن عید کا اعلان ہوا، تو جیسے گھر میں شادمانی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ چُپکے چُپکے عمّاد کو کئی بار دیکھ چُکی تھی۔ ’’تو کیا واقعی میں محض اس کا ظاہر ہی دیکھتی رہی، باطن میں جھانکا تک نہیں۔ آج وہ کتنا مختلف اور اچھا لگ رہا تھا۔ اونچی آواز میں بولتا، قہقہے لگاتا، جیسے گھر بَھر کو زندگی کی نوید دے رہا تھا۔میری کم نگاہی کے باوجود اس نے میری خاطر اپنا ظاہر بدل ڈالا ہے۔‘‘ یہ سوچ کر وہ دِل ہی دِل میں شرما گئی۔راحیلہ نے بی امّاں کو زینی کے دِل کی حالت کی خبر دی، تو وہ خوشی سے سرشار ہوگئیں۔ اگلا دِن واقعی ’’عید‘‘ کا دِن تھا۔ عطرت پھپھو نے اُسے منگنی کی انگوٹھی پہنائی،تو بی امّاں نے بھی عمّاد کو پہنانے کےلیے ڈبیا کھولی۔ ’’مام نے تو زیادتی کی ہے گرینی! آپ تو نہ کریں۔ مجھے انگوٹھی زینی خود پہنائے گی، تاکہ مجھے یقین ہوسکے کہ زینی نے مجھے پورے دِل سے قبول کیا ہے۔‘‘ عمّاد شرارت سے بولا۔’’ہاں…ہاں ضرور،‘‘ بی امّاں نے خلافِ توقع انگوٹھی زینی کو پکڑا دی۔کئی لمحے دبے پائوں گزر گئے۔ زینی کے لرزتے ہاتھوں میں انگوٹھی بھیگ گئی۔’’چلیں بی امّاں! آپ ہی پہنا دیں۔ یہ نہ ہو معاملہ پھر کھٹائی میں پڑ جائے۔‘‘ عمّاد نے بے تابانہ کہا، تو زینی نے جھٹ ہاتھ آگے بڑھا کر انگوٹھی پہنا دی اور عمّاد کے بُلند بانگ قہقہے سے پورا گھر گونج اُٹھا۔

تازہ ترین