اسلام آباد (نمائندہ جنگ ) سپریم کورٹ نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ای کورٹس سسٹم کا آغاز کردیا ہے جبکہ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی سپریم کورٹ میں ہی ای کورٹ سسٹم کا پہلی مرتبہ آغاز ہوا ہے،جس سے سائلین پرمالی بوجھ بھی نہیں پڑیگا، سستاانصاف آئینی ذمہ دار ی ہے،اپنی ذمہ داری پوری کرنیکی کوشش کر رہےہیں، ای کورٹ سسٹم کو پورے پاکستان تک پھیلائیں گے اور آئندہ مرحلے میں ای کورٹ سسٹم کوئٹہ رجسٹری میں شروع کرینگے،ای کورٹ سسٹم کے ذریعے مقدمات کی سماعت کا آغاز ٹیکنالوجی کی دنیا میں بڑا قدم ہے، جس سے کم خرچ سے فوری انصاف ممکن ہو سکے گا اور سائلین پر مالی بوجھ بھی نہیں پڑیگا، وکلاسائلین کے خرچے پرفائیواسٹارہوٹلوںمیں ٹھہرتے ہیں، آج سائلین کے وکلا پر خرچ ہونے والے 20؍ تا 25؍ لاکھ روپے بچائے۔ انہوںنے سپریم کورٹ کی آئی ٹی کمیٹی کے ممبر،ججز،مسٹر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مشیر عالم چیئرمین نادرا اور سپریم کورٹ کے متعلقہ ڈی جی آئی ٹی کی کاوشوں کوخوب سراہا۔ فاضل عدالت نے ای کورٹ سسٹم کے تحت فوجداری نوعیت کے پہلے چار مقدمات کے فیصلے بھی جاری کئے۔ دوران سماعت عدالت نے اقدام قتل میں ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواستیں خارج جبکہ قتل کے دو مقدمات میں ملزمان کی ضمانت منظورکرلی۔ بدعنوانی کے ایک مقدمے میں چیف جسٹس نے ملزم سعید سومرو سے استفسار کیا کہ سرکاری ملازم ہو کر 32 ایکڑ زمین، 3 فلیٹس، گاڑیاں ، شیئرز ، اتنا خزانہ کہاں سے آیا ؟ عدالت نے سزاکیخلاف نظرثانی درخواست مسترد کر دی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سوموار کے روز ملکی تاریخ میں پہلی بار ویڈیو لنک کے ذریعے کراچی برانچ رجسٹری کے4فوجداری مقدمات کی سماعت کی توفریقین کے وکلاء نے سپریم کورٹ کراچی برانچ رجسٹری سے دلائل دیئے ، سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے کراچی برانچ رجسٹری سے چیف جسٹس اور دیگر فاضل ججوں کو ویڈیو لنک نظام کی تنصیب کے حوالے سے مبارکبادپیش کی ،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آج پہلے ہی روز ای کورٹس سے سائلین کے20سے 25 لاکھ روپے بچ گئے ہیں ،سستا اور بروقت انصاف ہماری آئینی ذمہ داری ہے، فاضل عدالت نے مقدمہ قتل کے ملزم نور محمد کی ضمانت قبل از گرفتاری سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کی سماعت کی تو ملزم کے وکیل محمد یوسف لغاری نے کراچی برانچ رجسٹری سے دلائل پیش کئے۔چیف جسٹس نے ریکارڈ کا جائزہ لینے اور دلائل سننے کے بعد ریمارکس دیئے کہ عینی شاہدین کے مطابق نامعلوم افراد نے قتل کیا ہے اور اس کیس کے نامزد ملزمان اس واردات میں ملوث نہیں۔ انہوںنے کہاکہ مقامی پولیس نے کیس کی تفتیش میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا ہے ،مقدمہ میں شریک ملزمان غلام حسین اور غلام حیدر پہلے ہی ضمانت پر ہیں۔ دوران سماعت فاضل عدالت کے علم میں آیا کہ سندھ ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواست خارج ہونے کیخلاف 2016 میں دائر ہونے والی اپیل کو 2019 تک لٹکائے رکھا ، چیف جسٹس نے کہا کہ وقوعہ 2014 میں رونما ہواہے، ٹرائل کورٹ نے 2016 میں ملزم کی ضمانت کی درخواست خارج کی تھی، سندھ ہائیکورٹ نے 2016 سے 2019 تک اس کی اپیل پر فیصلہ کیوں نہیں کیا؟ انہوںنے ریمارکس دیے کہ اس طرح کے معاملات ججوںکے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں۔ عدالت نے سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکرٹری کو ہائی کورٹ کے فیصلے کی کاپی حاصل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے ضمانت کی اپیلوں کے فیصلوں سے متعلق دو ہفتوں کے اندررپورٹ بھی طلب کرتے ہوئے وہ رپورٹ چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کرنے کا حکم جاری کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کا جائزہ لیکر مناسب اقدام کیا جائیگا۔ بعدازاں عدالت نے ملزم نور محمد کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی۔ فاضل عدالت نے ایک اور مقدمہ قتل میں ملزمان حفیظ احمد اورامجد علی کی ضمانت قبل از گرفتاری سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیلوںکی سماعت کی تو ملزمان کے وکیل غلام رسول منگی نے کراچی برانچ رجسٹری سے دلائل پیش کئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جب کسی نے کچھ دیکھا ہی نہیں تو اب ملزمان کی گرفتاری کا کیا فائدہ؟ایف آئی آر بھی 6 دن کے بعد درج کرائی گئی ہے ، کیا پوسٹمارٹم میں موت کی وجہ سامنے آئی ہے ،جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ پوسٹمارٹم میں بھی موت کی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میڈیکل رپورٹ میں بھی موت کی وجہ سامنے نہیں آئی۔بعد ازاں عدالت نے ملزمان کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی۔ فاضل عدالت نے اقدام قتل اور زخمی کرنے سے متعلق ایک اور مقدمہ کے ملزم عرب عرف بالو اور محمدمشتاق کی ضمانت قبل از گرفتاری سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیلوں کی سماعت کی تو ملزمان کے وکیل غلام اللہ چنگ نے کراچی برانچ رجسٹری سے دلائل پیش کئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قتل کی نیت کرنا بھی جرم ہے، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 324 میں ارادہ قتل سے حملہ کرنے کی سزا دس سال ہے،حملہ کے نتیجہ میں اگر زخم آئے تو اسکی سزا الگ ہوتی ہے ،انہوںنے کہاکہ اقدام قتل( تعزیرات پاکستان کی دفعہ 324 ) کا کیس قتل سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے کیونکہ اس میں ز خمی ہونے والا شخص اصل حملہ آور کی نشاندہی کر سکتا ہے،جبکہ کوئی مقتول ایسا نہیں کرسکتا۔انہوںنے ریمارکس دیے کہ ای کورٹ سسٹم سے آج کے دن سائلین کے 20 سے 25 لاکھ بچ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ہماری آئینی ذمہ داری ہے اورہم اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بعد ازاں فاضل عدالت نے دونوں ملزمان کی ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواستوں سے متعلق اپیلیں خارج کر دیں،جس پرسندھ پولیس نے کراچی رجسٹری کے باہر سے ملزمان ارباب اور مشتاق نامی ملزمان کو گرفتار کر لیا۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے کرپشن کے ملزم سعید اللہ سومرو کی سزا کیخلاف نظرثانی درخواست خارج کر دی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ سرکاری افسر ہوکر آپکے پاس کونسا خزانہ تھا جو اتنے اثاثے بنا لیے؟ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو ملزم کا کہنا تھا کہ اپنی سزا بھگت چکا ہوں لیکن کرپشن کا داغ ہٹوانا چاہتا ہوں کیونکہ کرپشن پر سزا دینے کا فیصلہ غلط تھا، انکا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی سی ایل میں بطور ڈویژنل انجینئر کام کرتے تھے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے 32ایکٹر زمین اور تین فلیٹ خریدے،دو گاڑیاں اور اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز بھی خریدے، سرکاری افسر ہوکر آپکے پاس کونسا خزانہ تھا جو اتنے اثاثے بنا لیے؟ سعید اللہ سومرو نے کہاکہ ملازمت کی ساتھ کاروبار بھی کرتا تھا، 32 ایکٹر زمین میرے والد نے خریدی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ملازمت کیساتھ ذاتی کاروبار کیسے کر سکتے تھے؟ آپ نے دوران ملازمت والد کے ذریعے زمین خرید کر نفع میں فروخت کی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے دو کروڑ جرمانہ ادا نہ کرنے کی سزا بھی بھگت لی، اضافی سزا بھگتنے سے جرمانہ معاف نہیں ہو جاتا،کیوں نہ دو کروڑ جرمانے کی رقم وصولی کیلئے نوٹس جاری کریں۔