• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دور حاضر کے کھلاڑیوں کی صلاحیت، کارکردگی اور سکلز کا جائزہ لیا جائے تو پاکستانی کھلاڑی حریف ٹیموں کے پلیئرز سے زیادہ بہتر دکھائی نہیں دیتے، بھارت، انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے پاس بے شمار ایسے کھلاڑی ہیں جو کسی بھی کنڈیشن میں کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر اس کے باوجود ہر دن چونکہ نیا ہوتا ہے اس لئے موسم، وکٹ، ماحول اور قسمت بھی اہم ترین فیکٹر بن جاتے ہیں جس کے باعث فیورٹ ٹیم ناکامی سے دو چار ہوتی ہے، 1983 کے عالمی کپ میں بھارت فائنل کی پہلی اننگ ختم ہونے تک بھی فیورٹ نہیں تھا مگر چیمپئن بن گیا، 1987 کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا اور 1992 کے عالمی کپ میں پاکستان فیورٹ نہ ہونے کے باوجود بدلتے حالات کے ساتھ جیت گئے، 1996 میں سری لنکا کا کسی نے بھی نہ سوچا تھا، 1999 میں پاکستان آسٹریلیا کے مقابلے میں زیادہ فیورٹ تھا مگر ایسا ہارا کہ پھر آسٹریلیا 2003، 2007 میں بھی جیت گیا، 2019 کا ورلڈ کپ ایک بار پھر انگلینڈ میں ہونے جا رہا ہے۔ ایک روزہ کرکٹ کے میگا ایونٹس کے حوالہ سے خود انگلینڈ کے لئے اس کا دیس موزوں نہیں رہا۔ یہاں پاکستان نے 2009 میں ورلڈ ٹی 20 جیتا، 2017 میں چیمپئنز ٹرافی میں فتح اپنے نام کی، بھارت بھی یہاں چیمپئنز ٹرافی اور ورلڈ کپ جیت چکا ہے۔ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز بھی فاتح بنے، جنوبی افریقا، نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے لئے یہاں کبھی حالات موزوں نہیں رہے۔ بنگلہ دیش اور افغانستان کا کیا ذکر ہو۔ چنانچہ اس اعتبار سے پاکستان، بھارت، ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے لئے اچھے مواقع موجود ہیں۔ان حالات میں جب کہ پاکستان کو فیورٹ ٹیموں میں شامل نہیں کیا جارہا ہے تو بھی اسکے ورلڈ کپ 2019 میں جیتنے کے 4بڑے اشارے موجود ہیں ،پہلا اشارہ ورلڈ کپ کا فارمیٹ ہے یہ 1992 کے ورلڈ کپ والا ہے جس میں پاکستان فاتح رہا۔ فرق صرف ایک ٹیم کا پڑاہے کہ 9 کی بجائے 10 ٹیمیں ہو گئی ہیں۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ اب تک کے ایسے اکلوتے فارمیٹ راؤنڈرابن لیگ میں قسمت پاکستان پر مہربان رہی ہے اور وہ اب بھی ہو سکتی ہے۔دوسرا اشارہ یہ ہے کہ اس وقت بھی ٹیم سلیکشن میں آج جیسے معاملات تھے،جاوید میاں داد کو ان فٹ کہہ کرڈراپ کیا گیا،پھر سعید انور اور وقار یونس اسکواڈ میں آتے آتے فٹنس مسائل کے سبب باہر ہوگئے ،آج بھی حالات ایسے ہی ہیں،محمد عامر سینئر بائولر ہونےکے باوجود باہر ہیں اور انکی شرکت مشکوک ہے،شاداب خان سلیکٹ ہونے کے باوجود واپسی کی کوشش کر رہے ہیں،ان میں سے کوئی ایک میاں داد کی طرح واپسی کرسکتا ہے،تیسرا اشارہ یہ ہے کہ اس وقت کپتان عمران خان تھے، آج وہ پاکستان کے وزیر اعظم اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے کپتان (پیٹرن انچیف) ہیں، یہ مناسبت 1992 کے بعد کسی بھی شکل میں ٹیم کو حاصل نہیں رہی ہے ، چنانچہ یہ مناسبت بھی کپتان سرفراز احمد کے لئے نہایت اہم ہے، اس کے لئے 2023 ورلڈ کپ کا انتظار طویل سے طویل تر ہو گا ممکن ہے کہ اس وقت کرکٹ بورڈ کا کپتان (پیٹرن انچیف) کوئی اور ہو اور یا پھر سب کچھ ایسا ہی ہو اور یہ مناسبت بھارتی میدانوں میں پاکستانی پرچم کے لہرائے جانے کی صورت میں ثابت ہو۔چوتھا اور آخری اشارہ یہ ہے کہ 1992 کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کا افتتاحی میچ ویسٹ انڈیز سے تھا اور اس مرتبہ بھی ویسٹ انڈیز کے خلاف مہم کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اس وقت بھی ورلڈ کپ رمضان المبارک میں تھا اور اب بھی اس کے ابتدائی میچز اسی ماہ میں ہورہے ہیں ۔ رائونڈ رابن لیگ، ٹیم سلیکشن کے معاملات، افتتاحی میچ اور ونر کپتان عمران خان کی کسی نہ کسی صورت موجودگی، یہ ایسے اشارے ہیں کہ اگر ان کو دیکھا جائے تو پاکستان کے ورلڈ چیمپئن بننے میں اتفاقات کا عمل دخل ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین