• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودوداحمدماجد،جھڈو

ملکی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے لیکن کرپشن مافیا کی چیرہ دستیوں کی وجہ سےیہ اہم شعبہ بھی تباہی سے دوچار ہے اور اس سے وابستہ لاکھوں افراد بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔زرعی شعبے کی زبوں حالی کے نتیجے میں بھوک و افلاس کا شکار ہونے والے ہاری اورکسان کہتے ہیں کہ صوبائی محکمہ انہارکے تمام چھوٹے بڑے ملازمین کے اثاثوں کی چھان بین نہایت ضروری ہے۔ ہاری، کسان تنظیموں کے نمائندوں نے الزام عائد کیا کہ کرپشن کے معاملے میں محکمہ انہارمبینہ طور پر تین بڑے محکموں میں شامل ہے۔ زیریں سندھ کے تباہ حال، آبادگار زرعی شعبے سے کنارہ کش ہوکر ، دیگر کام کرنے پر مجبور ہیں جب کہ بعض گھرانوں میںبے روزگاری کی وجہ سے فاقہ کشی کی صورت حال ہے۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ آب پاشی کے محکمے کے بعض ملازمین بااثر زمین داروں کی طرف سے مبینہ طور سے پانی چوری کرنے میں سہولت کارکا کردار ادا کرکے مالدار بن گئے ہیں۔ اگراینٹی کرپشن اور نیب کا محکمہ ان افراد کو گرفتار کرنے کے بعدشفاف طریقے سے تحقیقات کرکے ان سے یہ تمام مال نکلوائے تو اربوں رویے کی رقوم جمع ہوجائیں گی جن سےمتعددذیم بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

1901 میں جب انگریز سرکار نے سکھر بیراج میں نہری نظام کو رائج کیااتھاتو اس وقت بعض برطانوی ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ نظام اس وقت تباہ ہو گا جب ان نہروں سے ڈی او واٹر کورس (ڈائریکٹ آئوٹ لیٹ) نکالے جائیں گے۔ برطانوی زرعی قوانین کی رو سے نہروں سے ڈی او واٹر کورس نکالنا جرم قرار دیا گیا تھا۔ لیکن 1985 کے بعد سے جاگیردار اور وڈیرے سرگرم ہوئے اور نارا کینال کی نہروں میں سے ایک کے بعد دوسرا ڈائریکٹ واٹر کورس نکلنا شروع ہوگیا۔ سیاسی اثر رسوخ کے حامل وڈیروں کی ہوس زر کی تکمیل اور سیاسی مصلحتیں زیریں سندھ کی زراعت کے لئے قاتل ثابت ہوئیں، جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ زیریں سندھ کے اضلاع میرپورخاص، عمرکوٹ، بدین اور تھر کا تھوڑا بہت قابل کاشت علاقہ بھی بنجر ہو گیا۔ ہزاروں ایکڑاراضی پر کھڑے باغات کی جگہ چٹیل میدان نظر آنے لگے۔،33فیصدزرعی آبادی کرنے کا قانون کتاب میں دفن ہوا، کہیں زرعی آبادی کم ہوکر 10 فیصد پرہ گئی اور کہیں5 فیصد بھی نہ رہی، اس کے برعکس ڈی او واٹر کورس سے وابستہ بااثر زمینداروںکی زرعی آبادی 33 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد سے تجاوز کرگئی۔

جمڑاو کینال (اولڈ) سکھر بیراج سےنکلنے والی نہروں میں سے ایک ہے جو کہ 124 میل موری کے بعد ٹیل کی شاخ بگی مائنر کے نام سے تقریبا 8 یا 10 کلومیٹر سفر کرکے جھڈو کی یونین کونسل روشن آباد میں ختم ہو جاتی ہے ۔ محکمہ انہار کے مطابق اس نہر میں 3 ہزار کیوسک سے زائد پانی دیا جاتا ہے، جس میں حالیہ کمی دس فیصد بتائی گئی ہے لیکن بگی مائنر تک پہنچتے پہنچتے یہ کمی 50 فیصد ہوجاتی ہے اور اس وقت بگی مائنر میں ایک ایک ہفتہ کے بعد پانی دیا جارہا ہے، جس کا سبب صرف اور صرف پانی کی چوری ہے۔ ٹیل آبادگار ایسوسی ایشن کے رہنما غلام قادر کھوسو اور بگی مائنر کی فارمرز آرگنائزیشن کے جنرل سیکریٹری ممتاز کھوسو ایڈووکیٹ نے بتایا کہ بگی مائنر میں پانی کی 50 فیصد قلت کی وجہ جمڑاؤ کینال میں سے کی جانے والی پانی کی چوری ہے، جوکہ ڈی او واٹر کورسوں، لفٹ مشینوں اور پائپ لگا کر کی جاتی ہے ۔ بگی مائنر پر 8 ہزار ایکڑ زمین پر فصل کاشت نہیں کی جا سکی، جس کی وجہ سے ہاری اور کاشتکاربے روزگاری اور فاقہ کشی سے تنگ آکردیگر پیشے اپنانے پر مجبور ہیں۔ بہت سےلوگ بالائی سندھ کی طرف ہجرت کر گئے اور بیشتر نوری آباد، دھابیجی اور کراچی کے کارخانوں میں کام کررہے ہیں۔ کئی افراد اپنے اہل خانہ کی ضرورتیں پوری کرنے میں ناکامی کے بعدخودکشی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

زمیندار اور ہاری کہتے ہیں کہ جمڑاؤ کینال سے ڈائریکٹ واٹر کورس نکالنے والے بااثر لوگ اور قانون کے برعکس 33 فیصد کی بجائے 60 فیصد زرعی آبادی حاصل کرنے والےآبادگار ٹیل کی تباہی کے ذمہ دار ہیں اور اس ظلم میں محکمہ انہار کے بعض کرپٹ عملدار، ان کے شریک کارہیں۔محکمہ انہار اور آبپاشی کے حکام کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے اس علاقے میں محکمہ آب پاشی نے کھلی کچہری منعقد نہیں کی ہے ۔ سندھ ہاری تحریک اور عورتانی تنظیم نے 2004 اور 2008 میں پانی کانفرنس کے عنوان سے بڑے بڑے پروگراموں کا انعقاد کر کےزراعت کی تباہی کو اجاگر کیا۔ جس کے بعد انہوں نے لانگ مارچ بھی کئے۔ سب ڈویژن خیرپور گنبو کے آبادگاروں نے بدین حیدرآباد کراچی اسلام آباد میں دھرنے دئیے، بھوک ہڑتالیں کیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بعض ّبادگار رزق حلال کے حصول میں ناکامی کے بعدجرائم کی دنیاسے وابستہ ہوگئے، ان میں سےبعض افراد شراب کی بھٹیاں لگا کر نئی نسل کی رگوں میں زہر سرایت کرنے لگے۔

ہماری زیادہ تر برآمدات زرعی پیداوار کی مرہون منت ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ زراعت کو تباہی سے بچانے کے لیے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کیے جائیں اور محکمہ انہار اور آبپاشی کو کرپٹ عناصر سے نجات دلائی جائے۔

تازہ ترین
تازہ ترین