• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر انوار احمد زئی

؎چراغ بھی دسترس سے باہر ہے اور ہوا بھی…عجیب ہوتا ہے نارسائی کا سلسلہ بھی…یہ کون مجھ میں سما گیا ہے کہ آج مجھ سے…گریز کرنے لگی ہیں آنکھیں بھی، آئینہ بھی۔ کائنات کی تفہیم، تشریح اور تعلیم و تسلیم کے لیے طرزِ احساس ہی سب سے بڑا وسیلہ ہے اور شاید سب سے بڑی رکاوٹ بھی۔ احساس ایک ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، جو انسان کو کائنات سے وابستہ رکھتا ہے۔ مگر طرز کی تبدیلی، عہد کی تبدیلی سے عبارت ہے، جو بدلتی ہوئی طرزِ تعمیر کے ساتھ خوفِ تخریب کے ملگجے سائے میں چلتی ہے۔لیاقت علی عاصم نئ طرزِ احساس کا نقیب بھی ہے اور رقیب بھی۔ اس کی نادرہ کاری اور خلاّقی میں جو واشگاف باغیانہ بیانیے کی نوید ہے، وہ بیم و رجا کی زندگی آمیز اور زندگی آموز تصویر کی نقّاشی بھی ہے اور عکّاسی بھی اور یہی وصف لیاقت علی عاصم کی نئی طرزِ احساس سے متعارف کرواتا ہے۔ جب کوئی فرد کیمرے کی آنکھ سے عکس بندی کرتا ہے، تو وہ محض عکّاسی کرتا ہے، جو تصویر کے خدوخال اور نقوشِ چہرئہ زیبا کو سامنے لا سکتی ہے، مگر جب یہی کارِ جاں گسل مصوّر کے رامش ورنگ سے جلو ہو کر سامنے آئے، تو یہ عکس محض عکّاسی نہیں، بلکہ نقّاشی کہلاتا ہے، کیوں کہ اس کے خدّوخال میں اندرون کے احساسات کی کہانی بھی تحریر ہوتی ہے اور یوں تصویر قیس کو پردے سے نکال کر داستانِ عشق کا سراپا بنا دیتی ہے۔ لیاقت علی عاصم کی شاعری خود اس کے اندرون کو اُبھارتی ہے کہ وہ اسے خود پر طاری کرے اور کائنات کو مسحور و محصور کرنے کے لیے نئی طرزِ احساس کا شارح بن جائے۔ لیاقت علی عاصم کی پوری شاعری عہد ساز بھی ہے اور عہد سوز بھی۔ ؎تم کو دیکھیں تمہاری آنکھوں سے…یہ توقّع! ہماری آنکھوں سے…آگئی ہے ہماری آنکھوں تک…نیم خوابی تمہاری آنکھوں سے…ڈھونڈتے رہنا وصل کا امکاں…ہجر میں بھاری بھاری آنکھوں سے۔ ان استعارات میں نیا پن نہیں، مگر ان کی بُنت میں نیا پن موجود ہے اور اسی کو نئی طرزِ ادا کہتے ہیں۔ نیز، اس خیال سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ الفاظ انسانوں کے نمایندے اور ان کے وجود کا اظہار ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے کسی قوم کا ادب اس کی نفسیات اور اس کی مخصوص طرزِ احساس کا منضبط اظہار ہے۔ لہٰذا، ادب میں کسی بنیادی تبدیلی کا رجحان دراصل پوری قوم کے مزاج اور طرزِ احساس میں تبدیلی کا غماز ہوتا ہے، لیکن فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ادب کے بارے میں قطعیت سے کوئی ایسی فیصلہ کن بات کہی جاسکتی ہے کہ کس لمحے ادب میں تبدیلی آگئی، کیوں کہ ادب کی صورتِ حال ایک زندہ اور ہمہ جہت و ہمہ وقت تبدیل آشنا صورتِ حال ہے اور ظاہر ہے کہ ادب میں آنے والی تبدیلی کو ہم طرزِ احساس کی تبدیلی نہیں کہہ سکتے۔

لیاقت علی عاصم اپنے عہد کے ان نمایندہ شعراء میں شمار ہوتے ہیں کہ جن کا اپنا ڈِکشن، وِژن، استعاراتی بیانیہ اور وضع کردہ منظر نامہ رہا ہے۔ مگر ایسے کتنے شعراء ہوں گے، جن کے یہاں وضع داری یا روایت پسندی میں بغاوت آمادہ اور جدّت آراستہ افکار کی کہکشاں نمایاں ہوتی ہے، جو اس قبیل کو ممتاز کرتی ہے۔ مختصر افراد پر مشتمل اس قافلے کے سُرخیل و سالار کا نام’’ لیاقت علی عاصم‘‘ ہے، جن کے سات شعری مجموعے اشاعت پذیر ہو چُکے ہیں، جنہیں ’’یک جاں‘‘ کے زیرِ عنوان کلیات کی صورت بھی پیش کیا جا چُکا ہے۔ ان کے سات مجموعوں کے سرنامے کچھ یوں ہیں، سبدِ گل (1970ء)، آنگن میں سمندر ( 1988ء)، رقصِ وصال (1996ء)، نشیبِ شہر (2008ء)، دل خراشی ( 2011ء)، باغ تو سارا جانے ہے ( 2013ء) اور نیشِ عشق (2017ء) شامل ہیں۔ لیاقت علی عاصم کراچی میں بیچ سمندر یعنی منوڑا نامی جزیرے پر پیدا ہوئے، اسی لیے ان کے ایک مجموعے کا نام ’’آنگن میں سمندر‘‘ ہے۔ یہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور ان کے یہاں دیگر استعارات کے ساتھ سمندر بھی بہ طور استعارہ موجود ہے۔ عاصم نے سمندر کو آنکھ سے نہیں، بلکہ پورے جسم و جاں سے دیکھا ہے اور اسی لیے سمندر ان کے اندر اُتر آیا اور پھر جب جب موقع ملا، یہ شعری سوغات لیے خود سمندر میں اترتے رہے ہیں۔ سمندر اگر وسعت، گہرائی، گیرائی، سمائی اور سمن آرائی سے عبارت ہے، تو عاصم اس کا نقیب نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عاصم کی غزل عہدِ موجود کی نمایندہ غزل ہے، جو اُن عناصر کو لب بستہ ہونے پر مجبور کرتی ہے، جو اس صنفِ سُخن کے خلاف لب کُشا رہے ہیں یا رہتے ہیں۔ عاصم نے ثابت کیا ہے کہ غزل فکر اور بیان کا سمندر ہے ۔ یہ صنف جہاں ندرتِ بیان سے آراستہ فکر کا سمندر ہے، وہیں ادائی کی دل آویز اور روح پرور تقاضوں کی آئینہ دار بھی ہے۔ لیاقت علی عاصم نے اپنی غزل کو تکرار اور تقلید کی لازمی روایت سے بڑی حد تک بچایا ہے۔ ان کے اظہار میں تنوّع کے ساتھ موضوعات کا نیا پن بھی موجود ہے، جو انہیں اپنے معاصرین میں ممتاز کرتا ہے اور اسی سبب سے انہیں ’’آبروئے غزل‘‘ کے نام سے پُکارا جاتا ہے۔ اصل میں غزل کا کمال یہی ہے کہ یہ اپنے ہر شعر کے جدا ہونے کے باوجود غزل سے مربوط ہونے کے رشتے سے اپنے عہد اور گزرے زمانے کے درمیان ربط و بُعد دونوں کو واضح کرتی ہے۔ میر کی غزل، غالب کی غزل سے کتنی جدا تھی یا فراق کی غزل اور ناصر کاظمی کی غزل میں زمانے کے فرق کا کتنا احاطہ تھا، یہ بہ جائے خود غزل کی عِشوہ طرازی اور ہر زمانے کی مشاطگی اور زیبائی کی دلیل ہے۔ اور اسی وصف کو لیاقت علی عاصم نے حرف و معنی کو نیا رنگ، رُوپ، ادا اور صدا و سوز دے کر زندہ رکھا ہے، جس کے باعث عاصم کی آب بیتی، جگ بیتی ہوکر رہ گئی ہے۔ ؎ جانے کس زخم کی نسبت سے مجھے دیکھتا ہے…وہ غزال آج بھی وحشت سے مجھے دیکھتا ہے…میرے چہرے میں کسی اور کا چہرہ تو نہیں…جانے وہ کس کی رعایت سے مجھے دیکھتا ہے۔

ایک حسّاس شخص کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے دُکھ کو کائنات کے دُکھوں سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتا۔ یہ بیماری، یہ عارضہ صرف اُن کو ہوتا ہے، جو سارے کے سارے ذات کے نہیں ہوتے۔ ان محسوسات سے آراستہ شاعر گل و بلبل کی داستانوں سے بہت آگے کا سفر کرتے ہیں۔ اپنے اطراف کے دُکھ درد، رشتے ناتے، آزار و آلام سب ان کے اپنے ہوتے ہیں اور ان کو اپنی شاعری کا موضوع بنانا ان کی مجبوری ہوتی ہے جو انہیں معتقدین، متوسّطین، متاخرین اور عہدِ جدید کے خاکوں میں منقسم ہونے نہیں دیتی۔ وہ انتقادی اسالیب اور بیان کی تحاریک سے ماورا جو سوچتے ہیں، وہ لکھتے ہیں اور ان کا یہی انداز بجائے خود نئے اسلوب اور نئی تحریک کا اعلانیہ بن جاتا ہے۔ جو نقّاد اپنے سانچے اور اوزار لے کر ادب کے رویّوں اور زاویوں کو ناپنے تولنے نکلتے ہیں، انہیں پہلے مرحلے میں مایوسی ہوتی ہے، کیوں کہ یافت اور دریافت کا خداداد خلاّق اُن کے زمانہ ساز پیمانوں سے ماور ااپنا زاویہ وضع کرتا ہے۔ اس پر نقّاد اپنے سانچے، اوزار اور ڈھانچے اپنے اپنے تھیلوں میں واپس رکھ لیتے ہیں اور نئی سوچ اور نئے آہنگ کے نمایندہ شاعروں کو اپنا امام بنا لیتے ہیں ۔ نقّادوں کی تنقید کو شکست و ریخت سے دوچار کرنے والے اس شاعر کا نام لیاقت علی عاصم ہے، جو کہتا ہے کہ ؎ دل کو آمادئہ فریاد کیا تھا مَیں نے…خوب آئے ہو، تمہیں یاد کیا تھا مَیں نے…پھڑپھڑاتی ہے میری روح بدن میں اب بھی…اک پرندہ کبھی آزاد کیا تھا مَیں نے…چھوڑ آیا ہوں سمندر کی نگہبانی میں… وہ جزیرہ ،جسے آباد کیا تھا مَیں نے…شام کا وقت، پرندہ نہ ستارہ، نہ چراغ…کس حوالے سے اُسے یاد کیا تھا مَیں نے۔

غالب نے بھی اپنے بیان کے لیے مزید وسعتوں کی تمنّا کی تھی۔ غزل کی قصیدہ خوانی کے اس مرحلے پر راقم کو جدید غزل کی نمایندہ وکیل کی ایک تحریر یاد آرہی ہے، جو وسعتِ بیاں کے لیے نئی جہات کی تمنّائی ہے۔ سدرہ سحر عمران نے عرب دُنیا کی نام ور باغی شاعرات کے لازوال کلام کو منضبط کرتے ہوئے، جو ’’صحرا کا رقص‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا ہے، کہا ہے کہ ’’یہ صدی اظہار کی صدی ہے۔ عظیم مفکّرین، دانش وَر اور شعر و ادب کے معتبر تخلیق کار اپنی داخلی جرأتوں کے ساتھ بوسیدہ طرزِ ثقافت کو رَد کرتے ہوئے اظہار کے لیے بساط بھر آسمان حاصل کر چُکے ہیں، لہٰذا انگلیوں کے پوروں پر سِمٹتی دُنیا نے ہر خطّے کی ثقافتی بود و باش، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، زبان و بیان اور شعر و ادب کی ترویج و ترقّی کے لیے اخذ و ماخوذ اور انسانی فکر کی ترجمانی کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا ہے۔‘‘ اس زاویے کو جدید عہد کی ترجمانی کی مقیاس اور کسوٹی بنایا جائے، تو لیاقت علی عاصم کے فکر و فن کی وسعتیں اس پر پوری اترتی ہیں۔ اس دعوے کی دلیل میں عاصم کے یہ اشعار پڑھیے۔؎ دشت اپنا ،نہ وہ غزال اپنا…رہ گیا ہے فقط ملال اپنا…سب سنورنے کی خوش گُمانی ہے…کوئی رکھتا نہیں خیال اپنا۔اسی غزل کے اگلے دو اشعار اختیاری اور بے اختیاری کے عجب نمایندہ ہیں۔ پہلے اختیاری کے حوالے سے یہ شعر ؎وہی صُورت تھی آئینہ، جس میں…دیکھ لیتا تھا مَیں جمال اپنا۔ اور وسعتِ اظہار میں بے اختیاری کی دلیل یہ شعر کہ؎ عشق نے اپنے سَر لیا عاصم…مجھ سے اُٹھتا نہ تھا وبال اپنا۔

عاصم کے یہاں عشق کا مضمون ہمہ جہت ہے۔ ناقدینِ شاعری کا کہنا ہے کہ عشق کے موضوع پر کہے گئے اشعار شاعر کو عہد کے اندر رکھتے ہیں یا باہر نکال پھینکتے ہیں۔ یہی مضمون ہے، جو فرسودگی میں جدید آمادگی کی طرف لے جاتا ہے، جہاں غالب نے کہا تھا کہ؎ عشق پر زور نہیں ،ہے یہ وہ آتش غالب…کہ لگائے نہ لگے اور بُجھائے نہ بنے۔ وہیں جدید عہد کے ایک اور نمایندہ شاعر، قابل اجمیری نے اس مضمون کو حیاتِ نو بخشی۔ وہ کہتے ہیں؎ہم نے دیے ہیں عشق کو تیور نئے نئے…اُن سے بھی ہوگئے ہیں گریزاں کبھی کبھی۔عاصم کے یہاں یہ مضمون دوسرے مضامین کی طرح اپنا انداز جدا رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہےکہ؎ جب بھی کتابِ عشق، اشاعت طلب ہوئی…بس عین حرفِ چند ہوا اور رہ گیا۔یاپھر یہ کہ؎محبت کو محبت کا یقین مَیں نے بتایا…محبت کو محبت کا گماں اُس نے کہا تھا۔یہی محبت اور عشق کے سفر کا پہلا پڑائو ہے کہ؎خواب، تعبیرِ خواب ہوگیا تھا… وہ مِرا ہم رکاب ہوگیا تھا…اس نے پی کر مجھے دیا تھا گلاس…آبِ سادہ شراب ہوگیا تھا، جب کہ اس کا اگلا پڑائو اپنا حوالہ خود رکھتا ہے۔ عاصم کا اظہاریہ، رومانی عناصر کو دھنک رنگ بنا دیتا ہے اور جمالیاتی تب و تاب کا آئینہ دار بھی۔ اس غزل کے تسلسل سے اردو شاعری کے ہم عہد ہونے میں فکری تسلسل کا بھی ادراک ہو سکتا ہے۔ عاصم کے اس انداز کے اشعار غزل کی آبرو کو نہ صرف برقرا رکھتے ہیں، بلکہ انہیں نکھارتے بھی ہیں۔ ذرا اِن اشعار کو دیکھیے؎جو کچھ ہوا، ہوا کہ محبت بلا کی تھی… اس وصل میں فراق کی شدّت بلا کی تھی…میرا وجود بھی کسی صحرا سے کم نہ تھا…اس کی سپردگی میں وحشت بلا کی تھی…اس نے کہا کہ ہم نے تمہیں سونپ دی حیا…اور میں بہک گیا کہ اجازت بلا کی تھی…کیا چاند، کیا چراغ، کس کو کہاں نصیب…مَیں جس میں جل بجھا ہوں وہ خلوت بلا کی تھی۔

غزل کی یہی روایت ہے۔ جسے نبھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اگر دبستانِ کراچی کو تسلیم کرلیا جائے، تو پُرانی نسل میں محشر بدایونی کے دوسرے رنگ میں اور اس سے قبل فانی کے مسلسل آہنگ میں اس دبستان کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یہاں فانی کا تذکرہ اس لیے آیا کہ تابش دہلوی نے اس فکر کو زندہ رکھا تھا۔ اس تناظر میں لیاقت علی عاصم کی شاعری کو دبستانِ کراچی کی نمایندہ اور عاصم کو اس کی آبرو کہا جاسکتا ہے۔ راقم کو یہاں بار بار خیال آ رہا ہے کہ یورپ میں جب نابغۂ روزگار یک جا ہو گئے تھے، تو بائرن، گیٹس، یولرج اور ورڈز ورتھ میں سے شیلے کو منفرد مقام حاصل تھا، جس نے ورڈز ورتھ کے نیچر سے اجتناب کے باوجود خود کو فطری شاعری یا فطرت کی شاعری سے وابستہ رکھا۔ اسی لیے شیلے کے لیے کہا گیا تھا کہ ’’شیلے کا تعلق انسانوں کے اس گروہ سے تھا، جنہوں نے جذبات اور ادراک کے مرکب سے انقلابی ذہن تیار کیا۔‘‘ لیاقت علی عاصم کسی چیختے، دھاڑتے، چنگھاڑتے انقلاب کے داعی تو نہیں، تاہم ان کی شاعری اپنے عہد کی حکایت کے ساتھ زمانے کی کم مائیگی کی شکایت بھی ہے اور یہی خاموش گفتگو ان کی حکایات بے ریا کا سرنامہ ہے۔ گویا کہہ رہےہوں کہ؎نہیں منّت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری…خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری۔اور پھر وہ اپنا رشتہ سمندر سے جوڑتے ہوئے اس خیال پر اکتفا کرتے ہیں کہ؎محبت اور یک طرفہ محبت…سمندر میں اکیلے ڈوبنا کیا…محبت ہی محبت کا صلہ ہے…تو پھر اس سے زیادہ مانگنا کیا۔

تازہ ترین