مسلمانانِ عالم کے روحانی مرکز مکہ مکرمہ میں ستاون مسلم ملکوں کی نمائندہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ کے زیرِ اہتمام گزشتہ روز چودھویں اسلامی سربراہی کانفرنس کے اختتام پر اعلانِ مکہ کے نام سے جاری ہونے والے اعلامیے میں فلسطین، کشمیر، برما، بوسنیا اور افغانستان کی صورتحال نیز مغرب میں اسلام کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم سمیت مسلم دنیا کو درپیش بیشتر اہم مسائل کا بخوبی احاطہ اور ان کے حل کے درست طریق کار کی نشان دہی کی گئی ہے۔ کانفرنس کا عنوان ’مستقبل کیلئے متحد‘ تھا جس سے واضح ہے کہ یہ اجتماع مسلم دنیا کو درپیش اہم چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اسلامی ملکوں کو قریب لانے کی خاطر منعقد کیا گیا تھا اور اعلانِ مکہ بظاہر اس کاوش کا ایک امید افزا حاصل ہے۔ مکہ سربراہی کانفرنس کے اعلامیے میں امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دئیے جانے کو قطعاً مسترد کر کے فلسطین اور القدس پر نہایت جرأت مندانہ اور بے لاگ موقف اختیار کیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق او آئی سی بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ تسلیم نہیں کرتی۔ دستاویز میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل شام کی مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں سے مکمل طور پر نکل جائے۔ او آئی سی نے رکن ملکوں پر زور دیا ہے کہ ایسے تمام ملکوں کا بائیکاٹ کیا جائے جنہوں نے اپنے سفارتخانے بیت المقدس منتقل کیے ہیں۔ کشمیر کے معاملے میں بھی مسلم سربراہ کانفرنس نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر مقبوضہ وادی میں جاری بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کیے جانے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینے پر زور دیا ہے۔ اعلانِ مکہ میں اسلامو فوبیا پر بھی بجا طور پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور تمام علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں سے 15مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف بین الاقوامی دن کے طور پر منائے جانے کی اپیل کی گئی ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی کانفرنس سے اپنے خطاب میں اسلامو فوبیا کے مسئلے اور مسلم دنیا کو اس سے پہنچنے والے نقصانات خصوصاً اس کے نتیجے میں فلسطین اور کشمیر میں اسرائیل اور بھارت کے جابرانہ تسلط سے آزادی کی سراسر جائز جدوجہد کو دہشت گردی قرار دئیے جانے کی نشان دہی کی تھی۔ اعلامیے میں او آئی سی کے تمام رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان کو درپیش مسائل کے حل میں اس کی مدد کریں۔ بوسنیا کے مسلمانوں کی بحالی کی ضرورت کا اظہار بھی کانفرنس کی جانب سے کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں میانمارکے مظلوم مسلمانوں کی مدد جاری رکھنے اور روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کی ملک واپسی کیلئے موثر کوششوں پر اتفاق، سری لنکا میں مسلمانوں اور مساجد پر دہشت گردانہ حملوں اور نیوزی لینڈ میں نمازیوں کے قتل عام کی مذمت کی گئی ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ اعلانِ مکہ میں مسلم امہ کے مسائل کا کس قدر جامعیت کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہے۔ تاہم ایران اور سعودی عرب کے درمیان مسلسل بڑھتے ہوئے فاصلوں اور شام و یمن میں جاری خوں ریزی کے خاتمے کے حوالے سے کوئی امید افزا صورتحال کانفرنس کے نتیجے میں رونما نہیں ہو سکی جو بہرصورت پوری مسلم دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ مسلمان کرہ ارض کی مجموعی آبادی کا کم و بیش پچیس فیصد ہیں، پیو ریسرچ سنٹر کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب اسی کروڑ سے زیادہ ہے جبکہ مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑے عالمی فورم کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہر قسم کے قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال اتنی بڑی عالمی برادری اگر اپنے اختلافات پر قابو پا کر، اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا ازالہ اپنے ملکوں کو اسلام کے نظام عدل و رحمت کا عملی نمونہ بنا کر، غیر مسلم دنیا تک اسلام کا پیغام امن و سلامتی پہنچا کر اور اپنے مشترکہ مسائل کے حل اور ترقی و خوشحالی کیلئے مشترکہ کاوشوں کا راستہ اپنا کر مستقبل کیلئے واقعی متحد ہو جائے تو اعلانِ مکہ ایک لفظی دستاویز سے آگے بڑھ کر فی الواقع ایک عملی حقیقت بن سکتا ہے۔