واشنگٹن: جیمز پولیتی
ٹرمپ انتظامیہ نے ایسے ممالک پر تادیبی ڈیوٹیز کی تجویز پیش کی ہے جو مصنوعی طور پر اپنی کرنسیوں کی قدر کم رکھتے ہیں،ایک بنیادی تجارتی پلیسی کا آلہ جو چین جیسے حریفوں کے ساتھ ساتھ امریکا کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جمعرات کی شام امریکی شعبہ تجارت نے مجوزہ قانون سازی کا نوٹس جاری کیا جو حکومت کو ان ممالک پر جرمانوں کی ضرب لگانے کی اجازت دیتی ہے جو ڈالر کی نسبت اپنی کرنسیوں کی قدر کم رکھتے ہین، جس کے نتیجے میں ان کی برآمدات پر سبسڈی ہو۔
امریکا کی سابق انتظامیہ تجارت اور کرنسیوں کے اختلاط سے محتاط رہی ہے لیکن کانگریس کی جانب سے فارن ایکسچینج کو تجارتی بحث کے طور پر شامل کرنے کیلیے سیاسی دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔
امریکی وزیر تجارت ولبر راس نے کہا کہ غیر ملکی قومیں اب مزید ماریکی کارکنوں اور کاروباروں کے مفادات کے خلاف کرنسی کی پالیسی کو استعمال کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔یہ مجوزہ قانون سازی صدر ٹرمپ کی صدارتی مہم کے ہمارے تجارتی شراکت داروں کی جانب سے غیر منصفانہ کرنسی کی مشقوں پر توجہ دینے کے وعدے کی جانب ایک قدم ہے۔
سالہا سال سے امریک قانون ساز چین، جاپان، جنوبی کوریا،تھائی لینڈ اور ویت نام پر مصنوعی طور پر اپنی کرنسیوں کی قدر کمر کرنے کا الزام لگاتے آرہے ہیں،تاہم وسیع نئے قوانین یورپ میں شامل سمیت دیگر ممالک کو دشواری میں ڈال سکتا ہے۔
اس طرح کی دفعات کے ساتھ ایک خدشہ ہمیشہ لاحق ہوتا ہے کہ اگر جوابی عمل کے ساتھ لاگو ہو تو، کرنسی کی دفعات فیڈرل ریزرو کو محدود یا اس کی آزادی کو کم کرسکتی ہیں۔دوسرا یہ کہ یہ عالمی تجارتی تنظیم میں قانونی چیلنجز کو دعوت دے سکتا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی کہ قدر کم لگانے کیلئے پیمانے کا کوئی متفقہ طریقہ کار نہیں۔
کسی بھی صورت میں ،بعض تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ امریکا کے اس طرح کے اقدام سے عالمی اقتصادی آرڈر انتہائی غری مستحکم ہوسکتا ہے اس وقت جبکہ یہ پہلے ہی تناؤ کا شکار ہے۔امریک وزارت خزانہ کے سابق سینئر اہلکار مارک سوبل نے کہا کہ کیا ایسا ہوتا تھا، یہ انتہائی اہم اور تباہ کن پیشرفت اور امریکا اور بین الاقوامی مالیاتی نظام کیلئے سیاہ داغ ہوگا۔
یہ اقدام اس نمونے کی پیروی کرتا ہے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے تجارتی معاہدوں کے اندر کرنسی کی قدر میں کمی سے تحفظ کیلئے اقدامات داخل کرنے کی کوشش کی ہے۔ گزشتہ سال کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ نافٹا میں اختلافات دور کرکے کرنسی کی شق شامل کرکے معاہدہ کیا، جبکہ امریکا اور کینیڈا تجارتی تنازعات کو ختم کرنے کیلئے ان کے لڑکھڑاتے مذاکرات کے دوران کرنسی اقدامات پر غور کررہے تھے۔
اعلان کا وقت چین کو انتباہ بھیجنے کیلئے منصوبہ نظر آرہا ہے کہ امریکا رینمنبی کی قدر مصونعی طریقہ سے گھٹا کر چین کی برآمدات پر ٹیرف میں اضافے کے اثرات کو ختم کرنے کے چین کے کسی اقدام کو برداشت نہیں کرے گا۔ تاہم ،یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہفتہ کے اختتام پر ہونے والے دورہ جاپان اور جون کے آخر میں جنوبی کوریا کے دورے میں تنقید کا باعث بن سکتا ہے۔
امریکا کی تجویز پر ردعمل دیتے ہوئے جاپان کے وزیر اقتصادیات تارو ااسو نے کہا کہ کم از کم وزارت اقتصادیات میں کوئی بھی ابھی تک اتنا فکرمند نہیں ہے۔
جاپان کے لیے اہم سوال یہ ہوگا کہ آیا امریکا مالیاتی سہولت کو شمار کرتا ہے،جس کے مداخلت کے طور پر اکثر منفی اثرات سے کرنسی کمزور ہوجاتی ہے۔ جاپان نے کچھ سال کیلئے ین میں فعال طورپر مداخلت نہیں کی ہے،لہذٰا اسے امریکا کے کسی ٹیرف سے بچنا چاہئے،لیکن اس کا انتہائی کم شرح سود ڈالر کے خلاف استحصال کی وجہ ہے۔
چین کیلئے،خزانہ کا محکمہ رینمنبی کے انتظام کا سالانہ جائزہ لیتا ہے لیکن ابھی تک اس نے رسمی طور پر باقاعدہ کرنسی کے معاملات کو خوش اسلوبی سے سنبھالنے والا کا اعلان نہیں کیا۔
چین کے سینٹرل بینک نے ملکی تجارت کیلئے روزانہ کی بنیاد پر ڈالر کے مقابلے میں ریفرنس کی شرح مقرر کی ہے،اس کے مقابلے میں رینمنبی کو محض 2 فیصد اضافے یا گرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ جون سے کرنسی کی قدر 8 فیصد گرچکی ہے،جو گزشتہ سال ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی درآمدات پر عائد کیے گئے ٹیرف کے زیادہ تر اثرات کو کم کررہا ہے،پیپلز بینک آف چائنا نے دسمبر 2016 میں اس کے پہلے آزمائش کردہ سطح کے بعد سے ڈالر کیلئے رینمنبی کو 7 فیصد سے نیچے نہیں جانے دیا ہے۔
جنوبی کوریا کی وزارت اقتصادیات نے اس پر کسی بھی تبصرے سے انکار کردیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی جنوبی کوریا میں حکام کے ملکی کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی کے حلواے سے خدشات کے اظہار کے ایک دن بعد سامنے آئی۔ کے بی انویسٹمنٹ اینڈ سیکیورٹیز میں فاریکس تجزیہ کار مون جیونگ ھی نے کہا کہ جنوبی کوریا کے مرکزی بینکاروں کی جانب سے کسی بھی قسم کی ممکنہ مداخلت بہت کم ہوسکتی ہے اور غیر ملکی کرنسی کی شرح کو حسب منشاء چلانے کی بجائے مارکیٹ کو مستحکم کارنا ہدف ہوگا۔
کرنسی کی پالیسی پر مبنی امریکا کی جانب سے تادیبی تجارتی اقدامات کا عائد کرنا قابل ذکر ہوگا کیونکہ عام طور پر امریکا کے تجارتی شراکت داروں کی جانب سے غیر منصفانہ سبسیڈیز کا مقابلہ کرنے کے لیے تلافی کیلئے ڈیوٹیز استعمال کی جاتی ہیں۔
ماضی میں ان تدابیر کا ستعمال کرنے والی اور مصنوعی طریقوں سے کرنسی کی قدر کم کرنے والے ممالک پر تنقید کرنے والی صنعتوں نے امریکا کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔
امریکن آئرن اینڈ اسٹیل انسٹیوٹیوٹ نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر خزانہ راس کا آج کا اعلان بڑے پیمانے پر نقصان کے مداوے کی مدد کیلئے ٹرمپ انتظامیہ جانب سے ایک اہم قدم ہے جوکم قدر والی کرنسی ہمارے قومی مینوفیکچرنگ شعبے بالخصوص اسٹیل کی صنعت کو نقصان پہنچارہی ہے۔
اضافی رپورٹنگ کی ہے ٹوکیو میں رابن ہورڈنگ،بیجنگ میں ٹام مچل اور سیؤل میں ایڈورڈ وائٹ نے۔