لندن (مرتضیٰ علی شاہ) ایک برٹش پاکستانی کمیونٹی گروپ نے پاکستان کے ساتھ سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو ملک بدر کرنے پر غور کرنے کی ایم آئی یو پر دستخط کرنے کے حوالے سے وزیر داخلہ ساجد جاوید کے ارادوں پر سوال اٹھایا ہے۔ کمیونٹی لیڈر شپ فائونڈیشن کے بیرسٹر عابد حسین نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ایک پٹیشن، جس پر4 ہزار افراد کے دستخط ہیں، پاکستان نژاد وزیرداخلہ کی بارٹر ڈیل کے خلاف احتجاج کے طور پر وزیراعظم تھریسا مے کے دفتر کے علاوہ کراس پارٹی پارلیمنٹرینز سمیت دیگر مخلتف افسران کوپیش کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ساجد جاوید نے پاکستانی حکومت کے ساتھ ایم او یو پر دستخط کر کے حقوق انسانی اور شفاف انصاف کے حوالے سے برطانیہ کے عزم کی خلاف ورزی ہے۔ ان کو واپس بھیجنا سیاسی ٹرائل، مزید جور و ستم اور انتقام کا نشانہ بنانے کے مترادف ہوگا، عابد حسین نے کہا کہ اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ وزیراعظم کے احتساب سے متعلق امور کے خصوصی معاون شہزاد اکبر سرکاری رقم اور اپنی حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سیاست کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایم او یو پر دستخط ہونے سے کئی ماہ پہلے ایک ٹی وی ٹاک شو میں شہزاد اکبر کے اس بیان کا حوالہ دیا، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اسحاق ڈار کے معاملے کے حوالے سے ہم ملک بدری پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ برطانیہ کے ساتھ ملک بدری کا کوئی معاہدہ نہیں ہے، تاہم دوطرفہ بنیاد پر ایسا کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ آپ کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ اس گیم میں اب تک ہم بالادست ہیں، ہم اب تک3 افراد کو برطانیہ کے حوالے کرچکے ہیں۔ اس کے بدلے میں ہم نے اسحاق ڈار اور چند دیگر افراد طلب کئے ہیں لیکن اسحاق ڈار ہماری اولین ترجیح ہیں۔ بیرسٹر عابد حسین نے کہا کہ اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان عدالتی میرٹ اور برطانیہ کے انصاف کے اعلیٰ معیار، شفاف کھیل اور حقوق انسانی سے گریز کرتے ہوئے دوطرفہ لین دین چاہتا ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ وزیر داخلہ نے حکومت پاکستان کی اس طرح کی تجویز کو قبول ہی کیوں کیا؟۔ وزیر داخلہ کو کھل کر بات کرنی اور زیادہ شفاف ہونا چاہئے اور حکومت پاکستان کی جانب سے فراہم ان معلومات کی تفصیلات شائع کرنی چاہئیں، جن کی بنیاد پر انھوں نے یہ کارروائی کی اور یہ بھی شائع کرنا چاہئے کہ انھوں نے اس حوالے سے کوئی قانونی مشورہ حاصل کیا تھا اور اس پر عمل کیا تھا۔ اس پس منظر میں وزیر داخلہ ساجد جاوید کی کارروائی برطانیہ کی سیاسی مقدمات سے خود کو الگ رکھنے کی پالیسی سے دور لے جانے کے حوالے سے انتہائی وحشت ناک اور قابل افسوس ہے، اس سے وزیر داخلہ کی کارروائیوں کی معروضیت، دلیل اور اس کے جواز کے حوالے سے بھی سوال اٹھتے ہیں، دیگر بہت سے پاکستانیوں کے خلاف ایسے بہت سے مقدمات ہیں، جن میں ملزمان پر قتل، انسانی سمگلنگ اور منشیات کی تجارت جیسے انتہائی سنگین الزامات عائد ہیں لیکن برطانیہ نے اس طرح کے ایم او یو پر دستخط نہیں کئے جبکہ اسحاق ڈار کے معاملے میں یہ جانتے ہوئے کہ یہ سیاسی نوعیت کا ہے اور اس میں1981سے2001 تک20 سال کے انکم ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرانے کے الزامات ہیں، اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ گزشتہ35 سال کے دوران کبھی بھی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انھوں نے کبھی انکم ٹیکس گوشوارہ داخل نہ کرایا ہو۔ انھوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی کارروائی جمہوری نہیں ہے۔