• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے آج آپ سے دل کی گہرائی سے باتیں کرنا ہیں حالانکہ آج کل گہری باتوں کا دور نہیں ہے۔ سب بڑی جلدی میں لگتے ہیں۔ حکمراں بھی، اپوزیشن بھی! ایک طرف انجانا خوف ہے، دوسری طرف انجانی توقعات…! گہرے غور و فکر کا یا تو وقت نہیں ہے یا صلاحیت ہی نہیں ہے۔

مجھے یاد پڑتا ہے محترمہ بینظیر بھٹو کا پہلا دور! ایک بینک کی عمارت میں وزیراعظم سیکرٹریٹ تھا۔ سید محب اللہ شاہ سینئر بیوروکریٹ کہنے لگے۔ ’’حکومت چلانا ایک سنجیدہ کام ہے۔‘‘ ان کے لہجے میں حسرت بھی تھی اور جس طرح سے امور مملکت چلائے جارہے تھے، اس پر ایک تبصرہ بھی! انہی دنوں میں وزیر داخلہ بیرسٹر اعتزاز احسن، نفیس صدیقی کے ہاں ایک ضیافت میں کابینہ سازی کا احوال بتاتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ بی بی کے حلف اٹھانے کے بعد جب کابینہ کی تشکیل کیلئے بیٹھے تو ہم سب خوشگوار تعجب میں تھے کہ ہم پاکستان کی وفاقی کابینہ تشکیل دے رہے ہیں۔

یہی حال اب پی ٹی آئی والوں کا ہے۔ باربار چٹکی کاٹتے ہیں، کہیں ہم خواب تو نہیں دیکھ رہے۔ 22؍کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کا ملک، انتہائی حساس جغرافیائی حیثیت! انتقامی مزاج رکھنے والے ہمسائے جس کے قریبی دوست اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باعث امریکا، روس، بھارت، یورپ سب کی نظر میں کھٹکنے والا، بے حساب معدنی ذخائر والا، 50؍فیصد جوان آبادی، ایک دوسرے سے مختلف مزاج رکھنے والی صوبائی وحدتیں، ایسے ملک کی حکومت چلانا بہت مشکل، بہت سنجیدہ! ایک طرف Selectedہونے کے طعنے، دوسری طرف اتنے بڑے ملک کی انتظامیہ بننے سے پہلے کوئی تربیت نہیں، کوئی ذہنی تیاری نہیں، پہلے سے کوئی متبادل کابینہ نہیں، اوپر سے آگئی تیز رفتار ٹیکنالوجی خاص طور پر ٹوئٹر…! اس نے تو جلد بازی کی انتہا کردی ہے۔ سیانے بہت پہلے سے کہتے آرہے ہیں جلدی کا کام شیطان کا!

یہ ٹیکنالوجی ترقی یافتہ قوموں نے ایجاد کی ہے۔ وہاں ٹوئٹ، ٹی وی وغیرہ اپنے وقت پر آئے ہیں …… فاصلے طے کرنے، بہت سے بنیادی کام کرلینے اور ہر شعبے میں ایک مددگار سسٹم بن جانے کے بعدجہاں جھوٹ بولا نہیں جاتا، جہاں فرائض پوری ایمانداری سے ادا کئے جاتے ہیں۔

پاکستان ویسے ہر شعبے میں کم ازکم تیس چالیس سال پیچھے ہے لیکن ٹی وی، موبائل فون، فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام میں ترقی یافتہ قوموں کے برابر بلکہ ان سے بھی آگے! مجھے یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ علم اور تربیت میں ہم 40؍سال پیچھے ہیں، ٹوئٹ میں آگے آگے! یہ جو درمیانی خلا ہے جسے ترقی یافتہ قومیں پر کرنے کے بعد اس تیز رفتار سوشل میڈیا کی طرف گئی ہیں، اس کے باوجود بھی وہاں حکومت ٹوئٹر کے ذریعے نہیں چلائی جاتی نہ ہی میڈیا صرف ٹوئٹر نشر کرتا ہے نہ ہی پرنٹ صرف ٹوئٹر سے ہیڈ لائن بناتا ہے۔ بنیادی کام نہ کرسکنے اور کوئی سسٹم نہ بنا سکنے اور تیز رفتار ٹریننگ کے درمیان میں جو خلا ہے، یہ سب سے خطرناک ہے۔ سارے بحران اس گیپ کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں لیکن یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ہاں کمانے والے اسی گیپ سے کما رہے ہیں۔

پہلے بھی ہم اپنے دماغ کو کم استعمال کرتے تھے، ہماری زبانیں، دماغ سے پہلے حرکت میں آجاتی تھیں لیکن اس وقت یہ تیز رفتار میڈیا نہیں تھا جو زبان سے نکلی کوٹھوں چڑھی کے محاورے میں جان ڈال دیتا ہے۔ ہمارے بزرگ کہتے رہے کہ پہلے تولو پھر بولو لیکن ہم پہلے بولتے رہے، دوسرے تولتے رہے۔ ٹوئٹر کسی حادثے کی، موسم میں اچانک تبدیلی کی اطلاع کیلئے یا خدانخواستہ کسی انتقال کی فوری آگہی کیلئے استعمال ہوتا ہے بعد میں کسی باقاعدہ بیان کے ذریعے تفصیلات دی جاتی ہیں۔ پرنٹ میں تو ایک بول کو تولنے کیلئے 24؍گھنٹے ہوتے ہیں لیکن الیکٹرونک میڈیا میں تو 24؍سیکنڈ بھی نہیں ہوتے۔ وقت کے مقابلے میں دوڑنے کی صلاحیت کیلئے ٹی وی کے رپورٹر کی کتنی بھرپور تربیت ہونی چاہئے، اس کے ذہن میں الفاظ کا کتنا ذخیرہ ہونا چاہئے۔ سوشل میڈیا کے دور میں امور مملکت چلانے والے حکمرانوں کی کتنی ٹریننگ ہونی چاہئے۔ کیا اتنی تربیت ہمارے رپورٹروں اور ہمارے حکمرانوں کی ہے؟

ٹوئٹ، فیس بک، انسٹاگرام پر کسی عبارت یا تصویر کو فوری چسپاں یا جاری کرنے میں کتنی قوت فیصلہ ہو، الفاظ کے انتخاب پر کتنا عبور ہو، کتنا طویل تجربہ اور ساتھ ساتھ تحمل، تدبر اور توازن!

24؍گھنٹے ٹوئٹ جاری ہورہے ہیں، حکومت بھی ٹوئٹر بدست ہے، اپوزیشن بھی، عدلیہ میں ٹھہرائو آگیا ہے۔ وہاں بھی ٹوئٹ اور ٹکرز چلنے لگ گئے تھے۔

وزیراعظم، وزراء، معاون خصوصی برائے اطلاعات سب ٹوئٹر پر ہتھ چھٹ ہیں۔ ٹوئٹر کا جواب سیکنڈوں میں ٹوئٹر سے ہی دیا جارہا ہے۔ صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔

یوں ہی بے ساختہ ٹوئٹ نہ کر

صورت حال کو سمجھ پہلے

بہت سے ٹوئٹ واپس بھی لینے پڑ جاتے ہیں \22؍کروڑ انسانوں کی قسمت کے فیصلے ٹوئٹر پر کئے جارہے ہیں، حساس دفاعی معاملات کی اطلاع بھی ٹوئٹر سے دی جاتی ہے۔ انگریزی میں Instant، ہندی میں ترنت، جگت بازی ہو یا کسی مباحثے میں تو فوری جواب مل جاتے تھے لیکن جہاں اربوں ڈالر کے معاہدے ہیں، منصوبے ہیں، مختلف شعبوں کے ترقیاتی معاملات ہیں دوسری قوموں سے مذاکرات ہیں، وہاں فوری تبصرے یا اطلاع کی حد تک تو ایک ٹوئٹ موزوں رہتا ہے لیکن بعد میں تفصیلات جاری کی جانی چاہئیں۔ اب کلچر ٹوئٹ بمقابلہ ٹوئٹ ہوگیا ہے۔ تفصیل اور گہرائی کا رواج نہیں رہا۔ ردعمل حکومت کی طرف سے بھی، اپوزیشن کی طرف سے بھی، عمل کسی طرف سے نہیں۔ میڈیا بھی غزل جواب آں غزل تک محدود ہوگیا ہے۔ اس طرح کی عجلت صرف ہنگامی معاملات تک تو درست لگتی ہے لیکن جس جواب کا انتظار کئی گھنٹے تک ہوسکتا ہے، اس کے ٹوئٹ کی کیا ضرورت ہے۔ زیادہ تر معاملات ایسے ہیں کہ ان میں جلد بازی قطعی درکار نہیں ہے۔ صبر، تحمل، بردباری سے معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے۔ ہواکے گھوڑے پر سوار ہونے کی بجائے اس کا تفصیل سے احاطہ کیا جائے تاکہ عوام کے جاننے کا حق پورا ہو۔ اس جلدی کو عوامی زبان میں ’’اتائولا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے ’’اتائولا‘‘ کی اصطلاح موجود ہے اور یہ محاورہ بھی ’’اتائولا سو بائولا‘‘ اس بائولے پن کا مظاہرہ ہم صبح سے شام تک دیکھ رہے ہیں۔ ’’اتائولوں‘‘ کی سرخیاں بھی بن رہی ہیں، ٹاک شوز بھی ہورہے ہیں۔ اردو میں بھی کہا گیا ’’زبان میں لگام نہیں‘‘ انگریزی میںHaste Make Waste ۔

حکمرانوں، سیاستدانوں اور میڈیا والوں سب کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس تیز بیانی سے ہم قوم میں کیا عادتیں ڈال رہے ہیں، ان کی زندگی میں کیسے رجحانات پیدا کررہے ہیں۔ وہ بھی کسی بات کی تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا پر حکومتی پارٹی کے گروپ بھی متحرک ہیں، اپوزیشن کے بھی اور ’’اداروں‘‘ کے بھی! اس تیز رفتار دوڑ میں ایسے ایسے جملے، باتیں، القابات، من گھڑت قصے سنائے جارہے ہیں جس سے پہلے سے تذبذب، بے یقینی، بدگمانی میں گھرے کروڑوں پاکستانی مزید عدم تحفظ کے احساس میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔

پاکستان اس وقت ہر قسم کے بحران سے دوچار ہے۔ اخلاقی، سماجی، سیاسی، معاشی، نفسیاتی! اس وقت ضرورت ہے تحمل، تدبر، توازن اور ٹھہرائو کی۔ پھل ہو، فصل یا کوئی کھانا۔ پکنے میں وقت لگتا ہے۔ اس وقت جلدی پکا سوسڑا کا محاورہ غالب ہے۔ ادھ پکا کھانا ہاضمے کا نظام بگاڑ رہا ہے۔ حکومتیں ٹوئٹر سے نہیں تدبر سے چلتی ہیں ’’کی پیڈ‘‘ سے ہاتھ اٹھا لیں، دماغ پہلے زبان بعد میں! پھر دیکھیں بلڈ پریشر کیسے معمول پر رہتا ہے۔

تازہ ترین