• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسرت راشدی

چھوٹی سی مچھیروں کی ایک بستی کراچی کو برطانیہ نے اس کی بندرگاہ کے سبب خصوصی اہمیت دی اور پھر مختصر ہی عرصے میں اس نے معاشی، معاشرتی، اقتصادی، صنعتی اور ثقافتی اعتبار سے اتنی ترقی حاصل کر لی کہ آج کراچی بین الاقوامی شہرت کا حامل شہر ہے۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک یہاں کئی بازار اور مارکیٹیں قائم ہوئیں لیکن ان میں جامع کلاتھ کو تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ اگرچہ نت نئے شاپنگ سینٹرز کے قیام نے اس کی رونقیں کچھ ماند کر دی ہیں لیکن آج بھی کراچی کے باسی شادی بیاہ اور عیدتہوار کے موقعوں پر خریداری کے لیے اسی بازار کا رخ کرتے ہیں اور اس کی اہم وجہ آج بھی دیگر بازاروں کی نسبت یہاں خواتین، بچوں سے متعلقہ،اشیائے ضروریہ کی انتہائی مناسب نرخوں پر دست یاب ہیں۔

اس بازار کی بنیاد 1948ء میں دوبھائیوں داروغہ سلطان اور داروغہ عبداللطیف نے رکھی۔ پلاٹ(ایک تین ہزار گز اور دوسرا اٹھائیس ہزار گز) ایک پارسی، ایڈل ڈی شاہ کی ملکیت تھے۔ دونوں بھائیوں نے اُن سے یہ پلاٹ پگڑی پر حاصل کیے اور یہاں 87دکانیں قائم کیں۔ ابتدا میں دکانیں بلاکس اور جست کی چادریں ڈال کر بنائی گئیں اور اس وقت اُن کا کرایہ 800 روپے تھا۔ رفتہ رفتہ یہ حدود اربعہ بڑھتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک بڑے بازار کی شکل اختیار کر لی۔اس مارکیٹ کی وجہ شہرت یہاں قائم،ایک دینی مدرسہ بھی تھا۔ جہاںبچوں کو دینی تعلیم دی جاتی تھی۔ بعد میں اس جگہ پر بھی دکانیں قائم ہو گئیں۔

دہلی میں جامع مسجد کے نیچے دکانیں اور اطراف میں ایک بڑا بازار قائم تھا۔ قیام پاکستان کے وقت لوگ ہجرت کر کے پاکستان آئے تو یہاں انہوں نے یہ بازار قائم کیااور اس کا نام بھی دہلی کی جامع مسجد سے منسوب کر دیا گیا‘ایم اے جناح روڈ اور رابنسن روڈ پر واقع یہ بازار 35 سے 37 بازاروں میں منقسم ہو گیا ہے اور ان کی الگ الگ یونینز اور صدور ہیں۔پہلے یہاں بازار قائم ہو جانے کے باوجود بھی لوگ ڈینسو ہال ہی تک آتے تھے، کیوں کہ عید گاہ سے اقبال سینٹر تک قبرستان تھا، پھر 1949ء کے بعد یہاں صحیح معنوں میں آبادی ہوئی اور قبرستان کو مسمار کر کے عمارتیں تعمیر کی گئیں۔‘‘

جامع کلاتھ کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا بازار ہے۔ ایم اے جناح روڈ پر واقع عالم شاہ بخاری کا مزار دراصل قیام پاکستان سے قبل ہی سے یہاں موجود ہے، تو یہاں آنے والے اکثر زائرین وہاں سے فارغ ہو کر بازار کا چکر بھی لگاتے ہیں1954ء میں یہاں رش کا یہ عالم تھا کہ اگر سکہ پھینکا جاتا تو وہ بھی زمین پر گرنے کی بجائے سروں پر گرتا۔‘‘ چلنے کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی کندھے سے کندھا ٹکراتا تھا۔‘‘اس بازار میں ہر طبقے اور علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگ خریداری کرنے آتے ہیں، البتہ اکثریت خواتین کی ہے۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں پارچہ جات، جیولری، میک اپ کا سامان، چوڑیاں، شادی بیاہ کے ملبوسات، برقعے اور بچوں کے ملبوسات دست یاب ہیں۔ بعض دکانیں کافی بڑی اور کشادہ ہیں تو کچھ دکانیں بہت چھوٹی ہیں۔ بازار میں داخل ہو کر اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ کیوں کہ یہاں دکان دار خریداروں کو متوجہ کرنے کے لیے کئی رشتوں سے پکارتے ہیں۔آئیے باجی، آئیے خالہ، آئیے آنٹی وغیرہ۔ کلاتھ مارکیٹ میں داخل ہوں تو بازار کا روایتی منظر نظر آتا ہے۔ ہینگرز پر لٹکے کپڑے، ڈمیوں پر سجے ملبوسات، نرخ پر بحث کرتے دکان دار اور خریدار۔اسی بازار میں ایک گلی،چوڑی گلی کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں نت نئے ڈیزائن کی چوڑیوں کے سیٹ فروخت ہوتے ہیں۔ گلی میں داخل ہوں تو چکاچوند روشنی میں چمکتی دمکتی خوب صورت چوڑیاں خریداروں کو خود اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں۔ یہاں زیادہ تر خواتین میچنگ چوڑیاں ہی خریدتی نظر آئیں گی۔ دلہنوں کے لیے خاص سیٹ دستیاب ہیں۔

رابنسن روڈ اور ایم اے جناح روڈ پر کچھ دکانیں کمبل، بیڈ شیٹس، تکیے، دریاں اور غالیچے فروخت کرنے والوں کی بھی ہیں۔ جدید تراش خراش کے فیشن ایبل برقعوں کی بھی متعدد دکانیں ہیں۔ عید گاہ کلاتھ مارکیٹ کے ایک بزرگ دکان دار، نے بتایا کہ ’’میں نے اپنی دکان دو ہزار روپے سے شروع کی تھی۔ اُس وقت لٹھا ایک روپے گز ملتا تھا۔ پہلے خریدار بہت تھے۔ اب تو بعض اوقات پورا پورا دن خالی بیٹھے رہتے ہیں۔عید گاہ کلاتھ مارکیٹ میں 138 دکانیں ہیں اور آج بھی دکان پگڑی پر ملتی ہے۔ کئی سال گزر جانے کے بعد بھی ملکیت نہیں ملتی۔ پہلے کام بہت تھا۔ اب تو صرف سیزن ہی میں کمائی ہوتی ہے۔ بازار کے فٹ پاتھ پر چھولے چاٹ، پکوڑے سموسے، فالودہ، برگر اور جوس بیچنے والوں کا قبضہ ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ جوتوں، چپلوں، ٹوپی ،موزوں اور اسی طرح کی دیگر اشیاء کے اسٹالز بھی فٹ پاتھ کی جگہ گھیرے ہوئے ہیں۔یہاں. صفائی کا فقدان ہے، ٹھیلے والوں کی وجہ سے بہت گندگی رہتی ہے۔ یوسی ناظم اور ٹائون ناظم کو بار بار کہنے پر کبھی کبھی صفائی ہو جاتی ہے لیکن روزانہ صفائی کا کوئی انتظام نہیں۔‘‘ مہنگائی، ملکی حالات اور لوڈ شیڈنگ کے باعث مارکیٹوں کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔پہلے پائیداری کو اہمیت دی جاتی تھی، اب جدت اور فیشن کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پہلے لوگ کسی بھی بازار سے خریداری کر لیتے تھے، اب بڑے بڑے شاپنگ مالز سے خریداری کر کے اُس کا ذکر اپنے حلقہ احباب میں ضرور کرتے ہیں۔‘‘

دن ہو یا رات جامع کلاتھ مارکیٹ کے دونوں طرف کی سڑکوں پر ٹریفک کا ادہام رہتا ہے۔ بسوں، کوچز، رکشوں اور ٹیکسیوں کے شور میں کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی، مگر دکان دار اس کے عادی ہو چکے ہیں۔خواتین یہاں دن میں خریداری کرنے آتی ہیں جب کہ رات میں قرب و جوار کے دفاتر میں کام کرنے والے حضرات اس بازار سے ضروریات زندگی خریدتے ہوئے گھر جاتے ہیں۔ٹریفک کی مناسبت سے سڑکیں چھوٹی ہیں اور پھر سڑک کے کنارے گاڑیاں پارک کر دی جاتی ہیں۔برنس روڈ سے سیدھے آئیں تو جامع کلاتھ کی مشہور فریم مارکیٹ اور دوپٹہ گلی کی ابتداء ہوتی ہے جوبرسوں سے قائم تھی لیکن تجاوزات کا خاتمہ کی مہم میں یہاں کی تقریباََ 250 دکانیں مسمار کر دیںگیئں۔سپریم کورٹ کے احکامات پر شہر میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ انسداد تجاوزات کی جانب سے دیگر شہری اداروں کے ہمراہ غیر قانونی تعمیرات اور مختلف اقسام کے تجاوزات کے خلاف یہ تیسرا بڑا آپریشن تھا، اس سے قبل ایمپریس مارکیٹ کے اطراف اور لنڈا بازار کی غیر قانونی دکانوں کو صاف کیا گیا تھا۔

تازہ ترین