• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 حبیب احمد

کراچی جہاں ماضی میں ہندو، عیسائی، یہودی، سکھ، پارسی اور مسلمانوں کی ملی جلی آبادی تھی اور تمام مذاہب کے لوگوں نے اپنی اپنی جھگی نما یا پھر مٹی کے گاروں کی مدد سے عبادت گاہیں قائم کر رکھی تھیں، اسی طرح مسلمانوں کی بھی ناپختہ عبادت گاہیں موجود تھیں۔ لیکن جب انگریزوں نے فروری 1839 میں کراچی پر قبضہ کیا تو تمام مذاہب کے لوگوں نے اپنی عبادت گاہیں چرچ، گردوارے، یہودی عبادت گاہیں، مندر، آتش کدے تعمیر کرلیے۔ لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو کیونکہ اس وقت کراچی کی کل آبادی 13 ہزار 8 سو 50 لوگوں پر مشتمل تھی اور مسلمان صرف 4 ہزار 8 سو 50 ہونے پر اقلیت میں تھے، انہوں نے بھی اپنی مساجد کی تعمیر کا کام شروع کردیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے گاڑی کھاتہ بندر روڈ پر 1857 میں باقاعدہ طور پر ’میمن مسجد‘ کے نام سے ایک مسجد تعمیر کی اور اس کے فوری بعد جونا مارکیٹ، کھجور بازار جبکہ دوسری کیماڑی میں پیر غائب شاہ کے مزار کے ساتھ تیسری مسجد بنائی گئی۔ اسی دوران 1874 میں کھڈا مارکیٹ میں ’چھوٹانی مسجد‘ کے نام سے پختہ مسجد کی تعمیر ہوئی۔ 1893 میں راجہ غضنفر روڈ صدر میں ایک اور میمن مسجد تعمیر کی گئی۔ اور اس کے بعد گویا مساجد کی تعمیر کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیاجو آج بھی پوری شان کے ساتھ کراچی کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔

مسجد قصابان

صدر میں عیسائی، پارسیوں اور ہندوؤں کی اکثریت تھی، لہٰذا انہوں نے سینٹ پیٹرک چرچ سمیت کئی چرچ تعمیر کر رکھے تھے، جبکہ پارسیوں کے لیے آتش کدے کے علاوہ گھروں میں ہندوؤں کے مندر موجود تھے۔ جہاں سے بجنے والے گھنٹوں، بھجن اور گیتوں کی آواز تو آتی تھی، مگر کہیں سےاللہ اکبر کی صدا بلند نہیں ہوتی تھی، جسے دیکھتے ہوئے یہاں کی مسلم آبادی ابتدائی طور پر چٹائی کی چھتوں سے مسجد قصابان کی بنیاد رکھی پھر یہاںسے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی۔ دور دراز سے مسلمان یہاں نماز کی ادائیگی کے لیے آنے لگے۔ 1313 ہجری بمطابق 1879 میں پتھروں سے پختہ مسجد کی تعمیر کا کام ترکی کی مساجد کے طرز پر کیا گیا۔ اس مسجد کو پہاڑی پتھروں سے بنایا گیا اور پتھروں کو تراش کر مینار بنائے گئے۔ اس مسجد کے پہلے باقاعدہ خطیب و پیش امام حضرت مولانا حافظ علم دین کو بنایا گیا، جو کہ نہ صرف مسجد کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے بلکہ 5 وقت کی نمازوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم بھی دیا کرتے تھے۔

انگریزوں کے شہر میں قبضے کے بعد کیونکہ صدر میں انگریز فوجیوں اور بڑے افسران کی رہائش تھی، نیز تجارت پیشہ ہندو اور پارسی بھی آباد تھے، جسے دیکھ کر اس وقت کراچی کی معروف سماجی شخصیت مولوی محمد مولدینا نے مسجد قصابان کی بالائی منزل تعمیر کروائی اور ایک مکمل دینی مدرسہ قائم کیا، جہاں مسلمان بچے، بچیوں اور نوجوانوں کو دینی تعلیم دی جاتی۔ اسی مسجد سے ملحق ایک مسافر خانہ بھی تعمیر کیا گیا، جہاں دور دراز سے آنے والے طلبا کو ہاسٹل کی سہولت میسر تھی، تو دوسری جانب مسافروں کے طعام و قیام کی سہولت بھی مہیا کی گئی۔ اب یہ مسافر خانہ موجود نہیں، اسے مسجد ہی میں شامل کرلیا گیا ہے۔

مسجد قصابان جو کہ قدامت کے اعتبار سے لگ بھگ 175 سال پرانی ہے۔ دوسری صدی میں داخل ہوجانے کے باوجود آج تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے اسے قدیم ورثہ قرار دیئے جانے کے باوجود اس کے پرانے در و دیوار اور پتھروں سے تراشیدہ مینار، گنبد، جن پر اب رنگ و روغن کیا جا چکا ہے، مگر اس کے باوجود وہ اپنی قدامت کی داستان بیان کررہی ہے۔

مسجد اندر سے بھی انتہائی شاندار ہے۔ اس کی کچھ دیواریں، چھجے اور دیواروں پر ٹنگے صدیوں پرانے گھڑیال اس کی قدامت کے گواہ ہیں۔ مسجد میں ایسے جید عالم دین پیش امام کے فرائض انجام دے چکے ہیں، جنہیں دین اسلام پر مکمل عبور تھا، یہی وجہ تھی کہ یہ مسجد کنٹونمنٹ کے علاقے، جہاں انگریز، پارسی، یہودیوں کی بڑی تعداد موجود تھی، لوگ دور دراز سے خطبہ سننے اور نمازوں کی ادائیگی کے لیے نا صرف آتے تھے، بلکہ اللہ کے اس گھر میں نماز کی ادائیگی کو اپنے لیے ایک فخر خیال کرتے تھے۔ اس مسجد کی بنیاد بھارت کے احمد آباد و دیگر علاوقوں سے آنے والی قریش برادری کے لوگوں نے رکھی تھی۔ یہ مسجد اب محکمہ اوقاف کے زیر نگرانی ہے، اس کے باوجود لوگ اس مسجد کی دیکھ بھال کرتے، اسے خوبصورت اور دیدہ زیب بنانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں، جس کے سبب اس مسجد کی شہرت آج بھی وہی ہے جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔

کراچی کی 130سالہ قدیم مسجد

یہ مسجد’’مسجدِ سفینہ ‘‘یا ’’کشتی والی مسجد‘‘کے نام سے جانی جاتی ہے، جبکہ اس کا اصل نام ’’کچھی جامعہ مسجد‘‘ ہے جو لیاری میں مرزا آدم خان روڈ پر دھوبی گھاٹ کے علاقے میں واقع ہے۔ یہ مسجد تقریباً 130 سال پُرانی ہے۔

اس کی تعمیرِ نو بحری جہاز کی طرز پر 2007 میں شروع کی گئی، جس میں تقریباً 5 سال کا عرصہ لگا۔ اس کی تعمیرِ نو اس علاقے میں مقیم کچھی میمن برادری کے کچھ افراد نے مل کر کی۔اس مسجد کی انفرادیت یہ ہے کہ اسے مکمل اندرونی اور بیرونی۔ طور پر ایک بحری جہاز کےطرز میں ڈھالا گیا ہے۔

کراچی کے قدیم ترین علاقے لیاری کی کشتی والی مسجد اپنے منفرد ڈیزائن کی وجہ سے خوبصورت مساجد میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس مسجد کو سب سے پہلے انگریز دور میں کراچی دھوبی گھاٹ کے علاقے میں رہنے والے کچھی برادری کے مزدوروں نے بنایا تھا جو کہ ڈیڑھ سو سال قبل ہندوستان کی ریاست “کچھ” سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔

نیو میمن مسجد

شہر قائد کے مختلف علاقوں میں موجود قدیم عمارتیں اور مساجد ایسی ہیں جوتاریخ کاحصہ بن چکی ہیں، جہاں سے آج بھی شہری قلبی اور روحانی سکون حاصل کرتے ہیں ان ہی مساجد میں سے ایک کراچی کے ایم اے جناح روڈپر واقع نیو میمن مسجد ہے۔

بولٹن مارکیٹ میں واقع نیو میمن مسجد کا شمار کراچی کی صف اول کی مساجد میں شامل ہوتا ہے اور یہاں ایک وقت میں دس ہزار تک نمازی آ سکتے ہیں

یہ مسجد قیام پاکستان کے دوسال بعد تعمیر کی گئی تھی۔اس کا سنگ بنیاد4 اگست 1949کو رکھاگیا،اس تاریخی مسجد میں پہلی اذان 15جولائی 1949میں دی گئی تھی۔

مسجد کے17820مربع گز احاطے میں دس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ دو میناروں کے درمیان 70فٹ اونچا گنبد اور وضو کے لئے بنائے گئے دوحوض اسلامی ثقافت کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔عام دنوں کے علاوہ بالخصوص رمضان المبارک میں دکانداروں اورروزے داروں کی بڑی تعداد میمن مسجد میں عبادات میں مشغول ہوکرقلبی اورروحانی سکون حاصل کرتے ہیں، رمضان کے دوران یہاں ہر روز کئی ہزارافراد کے لئے مفت افطاری کا انتظار کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین