• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل کی اینکر پرسن نے بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی پر پروگرام کے دوران بشریٰ انصاری کو لائن پر لیا اور ان سے پوچھا کہ شاہ رخ اور ان سے پیشتر بھارت کے دوسرے ٹاپ اسٹارز مسلمانوں کے ساتھ برتے جانے والے متعصبانہ رویے کے خلاف جو بیان دیتے آئے ہیں ، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اینکر پرسن نے بشریٰ انصاری سے یہ سوال اس لئے پوچھا تھا کہ یہ شکایت بشریٰ کی اپنی اداکار برادری کی طرف سے سامنے آئی تھی اور چونکہ ہمارے فنکار عموماً یہ بیان دیتے رہتے ہیں کہ فن کی سرحدیں نہیں ہوتیں اور فنکار اس حد بندی سے بے نیاز ہوتے ہیں لہٰذا بشریٰ سے یہ توقع بے جا نہیں تھی کہ وہ اس پر اظہارِ خیال کریں گی۔ انہو ں نے اظہارِ خیال کیا مگر اس اظہارِ خیال کا نچوڑ یہ تھا کہ ”تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو“۔ انہوں نے ہندو انتہاپسندی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اپنا سارا وقت پاکستان میں موجود انتہا پسند گروہ کی مذمت پر صرف کیا۔
باقی باتیں بعد میں ہوں گی پہلے میں یہ وضاحت کر لوں کہ نہ صرف یہ کہ میں بشریٰ انصاری کا بہت بڑا فین ہوں بلکہ کئی دوسرے حوالوں سے بھی انہیں اپنی بہنوں کی طرح عزیز رکھتا ہوں۔ وہ احمد بشیر ایسے دبنگ پاکستانی کی بیٹی اور صف اول کے ڈرامہ پروڈیوسر اقبال انصاری کی اہلیہ ہیں، سو ان سے یہی تعلق میرے اس خیر خواہانہ کالم کی بنیاد ہے۔ بہرحال ان کی گفتگو کے حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی ایک گمنام چہرہ کر رہا ہے جس کے پیچھے اللہ جانے کتنے چہرے چھپے ہوئے ہیں۔ یہ نہ سندھی ہے نہ بلوچی ہے نہ پٹھان ہے نہ پنجابی ہے۔ یہ چہرہ نہ سنی ہے نہ شیعہ ہے نہ دیوبندی ہے نہ بریلوی ہے اور نہ اہل حدیث ہے۔ یہ بلا تمیز رنگ و نسل و مذہب و ملت معصوم پاکستانی بچوں، عورتوں، بوڑھوں، مردوں کو بموں سے اڑاتا ہے۔ یہ چہرہ کسی مسجد، مندر، گردوارہ ، کلیسا کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھتا ۔ اس کا تعلق پاکستان کی کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔ یہ اسلام اور پاکستان کا دشمن ہے۔ ہماری سالمیت اور استحکام کا دشمن ہے اور ہمارے اندر وہ خوف بھی پیدا کر رہا ہے جو قوموں کو باہر کے علاوہ اندر سے بھی کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ خوف کسی بھی قوم کو دفاعی پوزیشن اور پھر پسپائی کی جانب لے جاتا ہے۔ اور بشریٰ انصاری سمیت ہم سب اس راستے پر گامزن ہو چکے ہیں۔
اور جہاں تک اس گروہ سے ہٹ کر مذہبی جنونیت کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ 90 فیصد پاکستانی مذہبی ضرور ہیں لیکن انتہائی روا دار ہیں، ہندوستان میں متعصب مذہبی جماعتیں برسر اقتدار آتی رہی ہیں جبکہ پاکستانی عوام نے آج تک کسی متعصب مذہبی جماعت تو کجا کسی آزاد خیال مذہبی جماعت کو بھی ووٹ نہیں دیئے۔ ہماری آج تک کی قیادت لبرل لوگوں کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ ہمارے ہاں توہین رسالت کا الزام (جو عموماً کسی ذاتی انتقام کے لئے ہوتا ہے) بھی زیادہ تر مسلمانوں ہی پر لگایا جاتا رہا ہے اور اس قانون کی زد میں بہت کم غیرمسلم آئے ہیں۔ ہم لوگ انڈین فلمیں دیکھتے ہیں، انڈین ڈرامے دیکھتے ہیں، جب کوئی انڈین پاکستان آتا ہے اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ ہمارا امیگریشن کا عملہ، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں ان پر دشمنوں کی طرح نظر نہیں رکھتیں۔ دہلی میں ہمارا سفارت خانہ انڈین ادیبوں ، دانشوروں اور فنکاروں کے لئے دیدہ و دل فرشِ راہ رکھتا ہے اور پوری عزت و احترام سے انہیں ویزا ایشو کرتا ہے اس کے برعکس پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک کس سوچ کا آئینہ دار ہوتا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے بشریٰ انصاری کسی دن انڈیا کے لئے ویزا اپلائی کر کے دیکھیں، اس کے حصول کے لئے جدوجہد کے دوران اگر انہیں دن کو تارے نظر نہ آئیں تو وہ بے شک بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے پاکستان کے بے چہرہ دہشت گردوں کی مذمت کرتی رہیں!
مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ بھارت میں متعصبانہ سلوک ان فنکاروں کے ساتھ ہو رہا ہے جو پوری دنیا میں بھارت کا ”سافٹ امیج“ متعارف کراتے ہیں مگر بالی ووڈ کے یہ صف اول کے مسلمان اداکار ہی ہندو انتہا پسندی کا نشانہ بنتے ہیں۔ عمران ہاشمی اور شبانہ اعظمی کا یہ احتجاج سامنے آ چکا ہے کہ بمبئی میں کوئی شخص انہیں فلیٹ فروخت کرنے پر تیار نہیں۔ اداکاری کے لیجنڈ دلیپ کمار کو بھی ساری عمر حیلے بہانوں سے تنگ کیا گیا اور ان پر پاکستان کی ایجنٹی کے الزام لگے، اب اسی الزام کے ہاتھوں شاہ رخ خان بھی پریشان نظر آتے ہیں حالانکہ وہ پیدائشی بھارتی ہیں، ان کی اہلیہ ہندو ہیں اور بچوں کے نام بھی ہندوانہ ہیں۔ انہوں نے گھر میں ایک مندر بھی تعمیر کر رکھا ہے تاکہ ان کے سیکولرازم پر کوئی حرف نہ آئے لیکن ”سیکولر“ ہندوستان میں اس کے باوجود ان کا جینا حرام کر دیا گیا ہے۔ اگر کسی کو ہندو انتہا پسندی کے حوالے سے کچھ تحفظات ہوں تو وہ بھارت کے وزیر داخلہ کا حالیہ بیان پڑھ لے، اس کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ بہت عرصہ قبل میں نے بھارت کے جریدہ ”بیسویں صدی“ میں ایک افسانہ نگار ذکی بی اے کا حب الوطنی سے لبریز افسانہ پڑھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ ایک انڈین لڑکی کی شادی ایک پاکستانی سے کر دی جاتی ہے اور اس کا شوہر ایک حادثے میں انتقال کر جاتا ہے تو سارا خاندان اسے روکتا رہ جاتا ہے لیکن وہ کہتی ہے ”انڈیا میری جان ہے، انڈیا میری آن ہے، میں واپس انڈیا جاؤں گی“ چنانچہ وہ سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر واپس اپنے وطن آجاتی ہے۔ اس افسانے کی اشاعت کے چند ماہ بعد بھارتی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ہندو انتہاپسندوں نے اسے مسلم کش فسادات میں ہلاک کر دیا۔ شاہ رخ خان کو ان لوگوں کا شکر گزار ہونا چاہئے جو اسے صرف دھمکیاں دیتے ہیں۔
آخر میں یہ کہ میں یہ کالم کبھی نہ لکھتا اگر بہت عرصے کے بعد پاک ہند تعلقات کی بہتری کی امید نہ پیدا ہوئی ہوتی۔ ہماری فوج ہماری سیاسی جماعتیں، ہمارے دانشور سبھی باہمی تعلقات کے فروغ پر یک زبان نظر آ رہے ہیں اور جو لوگ اس فضا کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کی مذمت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میری بہن بشریٰ انصاری بھی امن دشمنوں کے عزائم ناکام بنانے کی خواہش رکھتی ہیں، صرف لفظوں کے چناؤ میں کہیں گڑبڑ ہوئی ہے۔
تازہ ترین