• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی میں گیارہ جون کو وزیرمملکت جناب حماد اظہر نے نئے سال کا بجٹ پیش کیا، تو ماضی سے بہت مختلف منظر دیکھنے میں آیا۔ بجٹ تقریر کا نصف حصہ اپوزیشن نے بڑے سکون سے سنا مگر جونہی وزیر موصوف نے ٹیکسوں کا باب کھولا، اپوزیشن کی جماعتیں آتشِ زیرپا نظر آئیں۔ پھر دھینگا مشتی شروع ہو گئی اور اِس قدر شوروغل اُٹھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ وہ گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگا رہے تھے کہ آئی ایم ایف کا بجٹ نامنظور اور ’گو عمران نیازی گو‘۔ پیپلزپارٹی کی مرکزی رہنما ڈاکٹر نفیسہ شاہ ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ رہی تھیں کہ ہم نے بجٹ تقریر خاموشی سے سننے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن جب مقرر نے عوام پر مہنگائی کے بم چلانا شروع کیے، تو ہمارا صبر جواب دے گیا اور ہم احتجاج پر اُتر آئے جو ہمارا پارلیمانی حق تھا۔ محترمہ کی بات ایک حد تک درست معلوم ہوتی ہے، لیکن ہماری معیشت آج غیر معمولی مشکلات سے دوچار ہے۔ اِس مشکل وقت میں حکومت اور اپوزیشن کو میثاقِ جمہوریت پر اتفاق کرنا اور اپنی تمام تر توانائیاں معیشت کی بحالی پر صرف کرنا ہوں گی۔

پاکستان کے بدخواہ اِس معاشی بحران کو شدید سیاسی بحران میں تبدیل کر دینا اور خِطے کے جغرافیائی نقشے میں بڑی بڑی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر دنیا میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے اقوامِ متحدہ وجود میں آئی تھی جس کی تشکیل میں امریکہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے ہیڈ کوارٹرز کے لئے نیویارک میں زمین فراہم کی اور دوسری تمام سہولتوں کا اہتمام کیا۔ عالمی سلامتی کے لئے سلامتی کونسل کا ایک بااختیار ادارہ قائم کیا گیا اور معاشی استحکام کے لئے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک جیسے ادارے باہمی امداد کے اصولوں پر معرضِ وجود میں آئے۔ بدقسمتی سے بڑی بڑی طاقتیں دنیا میں اپنا اثرونفوذ قائم رکھنے اور تھانیداری جمانے کے لئے ان اداروں کو استعمال کرتی آئی ہیں۔ سلامتی کونسل جس نے اہلِ کشمیر کا حقِ خودارادیت تسلیم کیا اور اہلِ فلسطین کی ریاست کی متعدد قراردادیں منظور کیں، اُن کو غیر مؤثر بنانے میں امریکہ اور سوویت یونین نے شرمناک اور غیرانسانی کردار ادا کیا ہے۔ کیا دنیا نے یہ منظر نہیں دیکھا کہ امریکہ نے سلامتی کونسل کی منظوری لئے بغیر عراق پر فوج کشی کر دی تھی اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ اِس سپر پاور پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کے بجائے، مفاد پرست ممالک اس کے احکام بجا لاتے رہے، جبکہ حقیقت کے طور پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ عراق پر حملہ اِس بنیاد پر کیا گیا تھا کہ اس نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر لئے ہیں، مگر یہ الزام سراسر بےبنیاد ثابت ہوا۔ عراق پر حملے کے بعد پورا شرقِ اوسط شدید خانہ جنگی اور بدامنی کی لپیٹ میں آچکا ہے اور لاکھوں انسان قتل ہو چکے ہیں اور اِن سے کہیں زیادہ امن کی تلاش میں اپنے ملکوں سے ہجرت کر چکے ہیں۔

بڑی طاقتوں نے جس طرح سلامتی کونسل کو اپنے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے، اس کی بنیاد پر یہ خدشات ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کے ذریعے کمزور ممالک میں معاشی اور سیاسی بحران پیدا کیے جاتے ہیں۔ اُن کی حکومتوں کو ایسی پالیسیاں اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جن سے اُن کی معیشت اِس قدر کمزور ہو جائے کہ حکومتوں کو قرض ادا کرنے کے لئے اپنے قیمتی اثاثے فروخت کرنا پڑیں اور عوام پر ٹیکسوں کا اِس قدر بوجھ ڈال دیا جائے کہ وہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے۔ بیشتر پاکستانی آئی ایم ایف کے مشتبہ اور تباہ کن کردار کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ اس کی مشاورت سے نئے مالی سال کا بجٹ تیار ہوا ہے، اس میں فوجی اخراجات میں کٹوتی کا اہتمام کیا گیا ہے، حالانکہ پاکستان کی مسلح افواج کو گوناگوں داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بیرونی حکومتوں اور عناصر کی امداد سے پاکستان میں دہشت گردی دوبارہ سر اُٹھا رہی ہے اور فاٹا اور بلوچستان میں حالات جس درجے تشویشناک ہیں، وہ اِس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہماری مسلح افواج کے لئے وسائل میں کمی نہ آنے پائے۔ یہ امر قابلِ تحسین ہے کہ ہماری فوجی قیادت نے ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے اپنے محدود وسائل میں دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کا عزم کیا ہے۔ اُنہیں عوام کی مکمل تائید حاصل ہے جو یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں جاںفشانی، ذمہ داری اور بالغ نظری سے فرائض سرانجام دیتا رہے گا۔

گزشتہ آٹھ دس ماہ جس غیریقینی صورتحال میں گزرے ہیں، ان میں حکومت کی کارکردگی پر مسلسل سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ اس وقت اہم ترین ضرورت باہمی اتفاقِ رائے پیدا کرنے اور مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے رات کے ایک بجے جو تقریر کی ہے، اس نے معاملہ فہمی اور باہمی تعاون کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اُنہوں نے جو زبان استعمال کی ہے، وہ ان کے منصب کے شایانِ شان ہرگز نہ تھی۔ آئی ایم ایف کی معاونت سے بجٹ کا اعلان کیا جاچکا ہے، مگر حکومت کے اندر اس پر عملدرآمد کی صلاحیت کس قدر ہے، اس کا اندازہ پہلی سہ ماہی میں ہو جائے گا۔ ہر ذی شعور محسوس کرتا ہے کہ عوام کی زندگی پہلے کے مقابلے میں اجیرن ہو چکی ہے اور معاشی سرگرمیاں سمٹتی جا رہی ہیں۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور ایف بی آر کے چیئرمین جناب شبر زیدی حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے بڑی محنت سے کام لیں گے اور اپنے تجربات کی روشنی میں قومی معیشت کو مضبوط بنیادیں فراہم کریں گے۔ ورلڈ بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں تخمینہ لگایا ہے کہ پاکستانی آٹھ ہزار ارب روپے ٹیکس ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، اِس لئے شعلہ بیانی سے کام لینے کے بجائے عوام کو ریلیف مہیا کرنے کی سرتوڑ کوشش کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین