آٹھ مارچ خواتین کا عالمی دن تھا، جو پاکستان میں بھی منایا گیا، واکس ہوئیں، ریلیاں نکالی گئیں، جلسے ہوئے، زوردار تقریریں ہوئیں، نعرے بلند کئے گئے اخبارات نے مضامین شائع کئے۔ جامعہ کراچی میں دوسرا بینظیر یادگاری لیکچر ہوا، لڑکیوں کے اسکول اور کالجوں میں ٹیبلوز پیش کئے گئے۔ ٹی وی پر مباحثے ہوئے، عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور ان پر ظلم و تشدد کی فلم دکھائی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ ان کے سلب شدہ حقوق کی ادائیگی کی جائے اور ان سے برابری اور انسانیت کا سلوک کیا جائے، پہلے انسان تو سمجھ لیا جائے۔
پاکستان کی آبادی مسلم اکثریت پر مشتمل ہے اور اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے دوسرے مذاہب کے مقابلے میں سب سے زیادہ حقوق دیئے ہیں اور پاکستان ہی وہ ملک ہے جہاں اس کو اس کے آئینی، تعلیمی اور سماجی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ہم یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے کہ فلاں دوسرے ملک میں حالات ہمارے یہاں سے بدتر ہیں۔ سب سے پہلے آئینی حق کو دیکھئے کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پاکستان میں خواتین کی تعداد مردوں سے زائد یا برابر ہے۔ تعدادکا ٹھیک اندازہ تو مردم شماری سے ہوتا ہےمگر ہمارے ہاں گزشتہ اٹھارہ سال سے مردم شماری ہی نہیں ہوئی اور اب بھی تذبذب ہے۔ وفاقی محکمہ شماریات نے 2014ء میں مردوں کی تعداد 97.16 اور خواتین کی تعداد 90.86 ملین بتائی تھی، یعنی ملک میں 6.30 ملین خواتین مردوں سے کم ہیں۔ انتخابی کمیشن نے حالیہ انتخاب میں مرد ووٹروں کی تعداد 4.77 ملین اور خواتین ووٹروں کی تعداد 3.63 ملین بتائی ہے، یعنی یہاں بھی 1.12 ملین کا فرق ہے۔ ایک بات نوٹ کرنا ضروری ہے کہ جملہ سارک ممالک میں خواتین مردوں سے کم ہیں۔ ماہرین میں یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ آیا یہ فرق فطری ہے یا سماجی۔ پاکستان میں اکثر انتخابی حلقے ایسے ہیں جہاں یا تو خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی یا ان پر سختی کی جاتی ہے کہ وہ پولنگ اسٹیشن ہی کا رخ نہیں کرسکتیں۔ یہ ان کو آئینی حقوق سے محروم کرنا ہے، جہاں تک گھریلو زندگی کا تعلق ہے، ہمارے ہاںاکثر دیہات میں خواتین خوف کی زندگی بسر کرتی ہیں۔ کم عمر بچیوں کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ان کے ماں باپ خاندان کی جائیداد بچانے کے لئے کب قرآن مجید سے شادی کردیں یا روپے کے لالچ میں سات آٹھ سال کی بچی کو 70, 60 سالہ بوڑھے کے ہاتھ فروخت کردیں یا بدلے میں کسی کمسن لڑکے سے عقد کردیں۔ کاری کا الزام لگا کر کنواری شادی شدہ، حاملہ عورت کو کلہاڑیوں، چھریوں، ہتھوڑوں سے تڑپا تڑپا کر مارنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ وہ عورت ایک لحاظ سے خوش نصیب ہوسکتی ہے جس کا خاتمہ ایک ہی گولی سے کردیا جائے۔ چونکہ اسے چھریوں اور کلہاڑیوں کے وار برداشت نہیں کرنے پڑتے۔
عام طور پر گھریلو زندگی بھی بڑی تلخ ہوتی ہے، آنے والی بہو کو شوہر، ساس اور نندوں کی خدمت کے ساتھ طعنے بھی سہنے پڑتے ہیں۔ کچھ ہی ایسے گھرانے ہوں گے جہاں گالم گلوچ یا مارپیٹ نہیں ہوتی۔اکثرخواتین خاموشی سے مار کھاتی ہیں۔ طلاق اس لئے نہیں لیتیں کہ بچوں کا مستقبل تباہ ہوجائے گا۔ پھر طلاق شدہ خاتون کو معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور تنہا ایک عورت کا زندگی گزارنا بڑا مشکل ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال اس خاتون کی ہے جس کو اس کے شوہر نے شادی کے چھ سال بعد پانچ سالہ لڑکے کے ساتھ گھر سے نکال دیا۔ وہ رپورٹ کے لئے تھانے گئی، یہ بات اس کے ماں باپ کو ناگوار گزری اور انہوں نے اپنے گھر کے دروازے اس کے لئے بند کردئیے، اس وقت وہ لاہور کے ایدھی ہوم میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ آنے والے چند سالوں میں عورت کسی طرح بھی سو فیصد تعلیم یا فتہ نہیں ہوسکتی۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے لحاظ سے ان کی تعلیم کے بارے میں ایک اٹلس مرتب کیا ہے کہ عالمی سطح پر چھ سے 17 سال کی عمر کی 63 ملین بچیاں تعلیم سے محروم ہیں اور پاکستان میں ایسی بچیوں کی تعداد تقریباً 16 ملین ہے۔ ان کے مقابلے میں آٹھ ملین لڑکے اسکول سے باہر ہیں۔ اس کو ان الفاظ میں بھی ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں چھ سے گیارہ سال کی عمر کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی ناخواندہ ہے۔ اگر اس کو کسی طرح خواندہ بنایا جاسکتا ہے تو وہ تعلیم بالغان ہے۔ اس کے لئے کم ازکم پانچ لاکھ اساتذہ (تین لاکھ مرد اور 2 لاکھ خواتین) درکار ہوں گے۔ کیا ہمارے بلدیاتی ادارے ان کا انتظام کرسکیں گے؟
گو حصول تعلیم سے طبقہ نسواں کو پورے حقوق نہ مل سکیں گےمگر کم از کم ان کو اپنے حقوق کا اندازہ تو ہوجائے گا اور چند نڈر خواتین اگلا قدم بھی اٹھاسکیں گی۔ پنجاب کا حالیہ بل جو ابھی قانون نہیں بنا، اس کو مرد کی مونچھ نیچے ہونے اور زن مریدی کے طعنے دیئے جارہے ہیں۔ حالانکہ قانون بن جانے سے کون سی قیامت آجائے گی۔ جہیز کا قانون، شادی میں کھانے کا قانون، کم سن بچیوں کا بوڑھے افراد سے عقد، وٹے سٹے کی شادی ان میں سے کس قانون پر سو فیصد عمل ہوا ہے، جس سے اس مجوزہ قانون سے مردوں کی استقامت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔