• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’آپ کو کچا بل چاہئے کہ پکا‘‘ ہوٹل میں یہ فقرہ سنتے ہوئے برسوں بیت گئے۔ چلو یہ تو بات بہت دور تک جاتی ہے۔ میرا ایک ڈاکٹر بڑا بے دید ہے۔ یعنی باقی ڈاکٹر تو میرا لحاظ کرتے ہیں مگر اس کا پی اے پہلے ڈھائی ہزار مانگتا ہے۔ پھر فہرست میں جو کہ چوالیس واں نمبر ہوتا ہے، آپ کا نام لکھتا ہے، دو گھنٹے بعد باری آتی ہے پھر پندرہ دن بعد آنے کا کہتا ہے پھر وہی نقشہ، وہی پیسے، وہی انتظار ہر دفعہ کبھی بھی رسید نہیں ملتی ہے یہی حال تمام شام کو بیٹھنے والے ڈاکٹروں کا ہے۔ اس میں دانت کے ڈاکٹر شامل نہیں۔ وہ تو آپ کے بنا چاہے بھی آپ کا دانت نکال کر فی دانت ہزاروں روپے لیتے ہیں۔ رسید پھر نہیں۔ بلیو ایریا اسلام آباد ہو کہ کوئی مارکیٹ نیچے کپڑے اور کھانے اور اوپر لائن سے لگے ڈاکٹروں کے بورڈ، شبر زیدی صاحب آپ ان کو کیا پوچھیں گے کہ وہ خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ یہ پڑھے لکھے ڈاکٹر تو ہیں ورنہ ہر قصبے، ہر تحصیل ہرگائوں چھوڑیں خود اسلام آباد کی پہاڑیوں پر کسی نہ کسی بابے کا ڈرامہ چل رہا ہوتا ہے۔ یعنی بڑے ڈاکٹر سے لیکر چھوٹے حکیم اور زائچہ بنانے والے روز کے لاکھوں بناتے، تبھی تو آپ کو اسلام آباد ہی میں ہر گلی محلے میں نت نئے انداز کے ہوٹل اور ڈھابے ملیں گے۔ ان کی کمائی بالکل ایسے ہے جیسے سارے پولیس والے، ریڑھی پہ دال چاول بیچنے والے سے مفت کھانا کھاتے ہیں۔ جیسے بے چارے موٹر سائیکل والے اور رکشہ والے عید، تہوار کے علاوہ یعنی زبردستی پولیس سے رہائی پانے کو ان کی جیب گرم کرتے ہیں۔

ارے ابھی تو بڑے’’ بے بیوٹی‘‘ پارلرز بھی ہر محلے گلی میں کھلے ہوئے ہیں۔ بہت مہربانی کریں تو شادی کا پیکیج ایک لاکھ میں دیتے ہیں۔ علاوہ کبھی نہ کسی نے رسید مانگی اور نہ انہوں نے رسید دی جو بڑے نام والے پارلرز ہیں۔ وہاں تو صرف بال کاٹنے کے ہزاروں اور دلہن کا میک اَپ لاکھو ں میں، کپڑے بھی لاکھوں میں، پھر معزز خاتون جن کا پارلر دنیا بھر میں ان کی خصوصیت کی گواہی دیتا ہے۔ ان سے تو باقاعدہ وقت لیکر ملنا اور دگنی فیس دینا پڑتی ہے۔

بہت اچھا لگتا ہے کہ بے شمار خواتین، گھر پر درزی بٹھا کر، سو دو سو جوڑے کپڑے سلوا کر، لندن، امریکہ فروخت کرنے جاتی ہیں۔ خوب پیسے کماتی ہیں۔ کوئی اعتراض نہیں، مگر سرکار کو تو کوئی ٹیکس نہیں ملتا۔ سارا مسئلہ یہ ہے کہ چاہے کسی نے ٹیوشن پڑھانا ہو، چاہے اکیڈمی کھول کر شام کو بچوں کو پڑھانا ہو۔ کوئی بھی تو ٹیکس نہیں دیتا۔ بے چارے ریڑھی والوں پر سب کا زور چلتا ہے۔ کارپوریشن ہو کہ کوئی اور ان کی ریڑھی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کتابوں کی دکانیں کم اور کھانے کے مراکز سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ کوئی بھی باقاعدہ ٹیکس دیتا نہیں بلکہ ٹیکس افسر کو مفت کا کھانا کھلا کر ٹال دیتا ہے۔ یہ باتیں سب کو معلوم ہیں مگر باقاعدہ ٹیکس دینے والوں کی فہرست میں کوئی بھی نام نہیں ہے۔

بھٹو صاحب کے زمانے سے لیکر آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے بھی زرعی ٹیکس لگانے میں آئیں بائیں شائیں کی۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں، سارے ممبران میں سے دوتہائی کیونکہ سردار اور زمیندار ہوتے ہیں علاوہ ازیں ہمارے ملک میں سیکڑوں مزارات ہیں۔ ان کی آمدنی کہاں جاتی ہے۔ کیوں یہ اعلان نہیں کیا جاتا کہ تعلیمی ادارے اس آمدنی سے چلائے جائیں گے۔

اب باقی باتیں لکھتے ہوئے مجھے ہنسی آرہی ہے۔ 1961میں لوکل گورنمنٹ میں دیہی خواتین کو ہنر سکھانے اور ان کو باشعور بنانے کے لئے میری ملازمت ہوئی۔ تبھی یہ کہا گیا کہ عورتوں کو کچن گارڈن بنانا سکھائیں۔ عورتوں کو بکریاں پال کر آمدنی بڑھانا سکھائیں۔ مقامی مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق ٹوکریاں، تھیلے بنائیں، کپڑے سینا سیکھیں اور گھر میں بیٹھ کر ہی محلے بھر کے کپڑے سی لیا کریں۔ بھینسیں پالیں اور ان کا دودھ شوہر شہر میں بیچنے جائیں۔ اب بھی یعنی60سال گزرنے کے بعد جبکہ مریخ پر بھی سبزیاں اُگانے کا پروگرام سامنے آگیا ہے۔ ہم پھر 60سال پرانے طریقے عورتوں کو سکھانے کی مضحکہ خیز باتیں کر رہے ہیں۔ وہ بے چارے نہیں جانتے کہ دیہات کی عورت نے تعلیم حاصل کی ہو کہ نہیں بہت ہوشیار اور باشعور ہو چکی ہے کسی کے بھی انقلاب کی اُسے ضرورت نہیں ہے۔ صرف ضرورت ہے تو اس چھوٹے سے سرمائے کی جس سے وہ پکی چھت، پکی نالیاں اور کوئی کاروبار شروع کرسکے۔ آپ دیکھیں نا، تھرپارکر کی عورتیں زینب مارکیٹ تک پہنچ گئی ہیں مگر آج بھی میری کسان عورت چاول کی پنیری سخت دھوپ میں کمر ٹیڑھی کر کے لگاتی ہے۔ گندم چھڑنے والی مشینیں تو گندم بوریوں میں بند کرتی ہیںمگر بچے ہوئے دانے سمیٹنے کا کام، اس غریب عورت کو کرنا ہے کہ گھر کے لئے یہی دانے کام آئیں گے۔ ہمارے دیہی کارندے جن میں سوشل آرگنائزر، پٹواری اور تحصیل دار شامل ہیں ان کی زیرو کارکردگی عیاں ہے۔ ضرورت ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اپنے ہی علاقے میں تعلیم دینے، صحت کے مسائل حل کرنے اور برآمدات کیلئے چھوٹی صنعتوں کے لئے قرضے اور تربیت دی جائے۔ یوں شہر کی طرف منتقل ہونے کا رجحان کم ہو۔ باقاعدہ جانوروں کے باڑے، پکے گھر اور نالیاں مع باتھ روم قرضوں کے ذریعے بنوائی جائیں۔ آپ کہیں گے یہ کام تو بہت پہلے ہونا چاہئے تھے، میں بھی تو ساٹھ برس سے یہی کہہ رہی ہوں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین