عالمِ اسلام اس وقت جن مسائل اور مصائب کا شکار ہے اس کیفیت سے نکلنے کیلئے مسلم علماء مفکرین، قائدین اور حکمران اپنے طور پر وقفہ وقفہ سے کوششیں کرتے رہتے ہیں اور ان کوششوں کے مثبت نتائج بھی ایک محدود سطح پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ امسال رمضان المبارک کی آمد کیساتھ ہی مکۃ المکرمہ سے رابطہ عالمِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ کی طرف سے دعوت موصول ہوئی کہ رابطہ عالمِ اسلامی نے اسلام کے پیغام ’’امن و اعتدال‘‘ پر ایک کانفرنس مکۃ المکرمہ میں رکھی ہے جس میں شرکت کیلئے آپ کو دعوت دی جاتی ہے۔ بیت اللہ کے طواف اور رسول اکرمﷺ کے روزہ اطہر پر حاضری کے شوق کیساتھ سعودی عرب روانہ ہوا۔ رابطہ عالمِ اسلامی کے تحت بلائی گئی کانفرنس میں دنیا بھر سے 1200سے زائد مندوبین نے شریک ہونا تھا اور مکۃ المکرمہ چارٹر کے نام سے ایک دستاویز جاری کی جانا تھی جس کی بنیاد اسلام کے پیغام امن و سلامتی و اعتدال کو عام کرنا اور اسلام کے نام پر لگائی جانیوالی تہمتوں کا خاتمہ ہے۔ اس وقت نہ صرف رابطہ عالم اسلامی دنیا بلکہ یورپ، امریکہ، برطانیہ میں بھی بین المذاہب مکالمہ کیلئے کوشاں ہے اور رابطہ عالم اسلامی کی ان کوششوں کی ہر سطح پر تحسین ہو رہی ہے، رابطہ عالم اسلامی جو مسلمان دنیا کی منظم ترین واحد عالمی تنظیم ہے جس کا مرکزی دفتر مکۃ المکرمہ میں ہے اور پوری دنیا میں اسلامی مراکز مدارس کی ایک کثیر تعداد رابطہ عالمِ اسلامی کیساتھ مربوط ہے۔
رابطہ عالمِ اسلامی کے تحت مکۃ المکرمہ میں ہونے والی کانفرنس کا افتتاح گورنر مکۃ المکرمہ امیر خالد الفیصل نے کیا جس میں انہوں نے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ شاہ سلمان نے اپنے پیغام میں اسلام کے پیغام امن و سلامتی و اعتدال کو بیان کرتے ہوئے واضح طور پر انتہاء پسندی، دہشت گردی کی ہر قسم کی نفی کی اور کہا کہ اسلام کا انتہاء پسندی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے، مسلم علماء پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام کے حقیقی پیغام کو پوری دنیا تک پہنچائیں اور اسلام کے نام پر لگائی جانے والی تہمتوں کا خاتمہ کریں۔ رابطہ عالم اسلامی کے تحت ہونے والی کانفرنس میں مسلم ممالک میں ہونیوالی بیرونی مداخلتوں کی مذمت کی گئی۔ مسلم امہ کی وحدت اور اتحاد کی اہمیت کو نہ صرف بیان کیا گیا بلکہ اسلامو فوبیا کی بھرپور مذمت کی گئی اور ہر قسم کی دہشت گردی اور انتہاء پسندی سے برأت کا اعلان کیا گیا۔ رابطہ عالمِ اسلامی کے کانفرنس کے بعد کانفرنس کے اہم شرکاء کی خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں انہوں نے ایک بار پھر اسلام کے پیغام امن و سلامتی و اعتدال کو بیان کرتے ہوئے ہر قسم کی دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی مذمت کی۔ کانفرنس کے مندوبین کی طرف سے چارٹر آف مکۃ المکرمہ خادم الحرمین الشریفین کی خدمت میں پیش کیا گیا، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کا یہ اعزاز ہے کہ اس کا سربراہ خادم الحرمین الشریفین کہلانے پر فخر کرتا ہے، ہم حرمین شریفین کے خدام ہیں اور یہی ہمارا فخر ہے۔
رابطہ عالمِ اسلامی کی کانفرنس کے بعد تین دن میں تین کانفرنسوں کا اہتمام کیا گیا بلا شبہ سعودی عرب کی وزارت داخلہ، سلامتی کے اداروں اور شاہی پروٹوکول جسے مراسم ملکی کہتے ہیں، کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے ایسے وقت میں جب کہ تیس لاکھ سے زائد عمرہ زائرین سعودی عرب کی سر زمین پر موجود تھے، مکمل امن و امان کیساتھ ان کانفرنسوں کا انعقاد ممکن بنایا۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کی دعوت پر ولی عہد امیر محمد بن سلمان کی زیر نگرانی عرب اسلامی سربراہوں کی آمد اس بات کا اظہار تھا کہ امت مسلمہ اپنے مقدسات کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کر سکتی، مکۃ المکرمہ اور سعودی عرب کے دیگر شہروں پر ہونیوالے حملے کسی صورت قابل قبول نہیں، اسی طرح ستائیسویں شب قصر صفا میں جو کہ بیت اللہ کے پڑوس میں ہے، اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس منعقد کی گئی جسکا افتتاح خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز نے کیا، اس کانفرنس میں اعزازی طور پر راقم الحروف کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی جو میرے اور میری جماعت کیلئے اعزاز کی بات ہے۔ خادم الحرمین الشریفین اپنی تقریر کا آغاز مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے فلسطینیوں کی مکمل حمایت کرتے ہوئے واضح اور دو ٹوک اعلان کیا کہ فلسطینی ریاست جس کا دارالخلافہ القدس شریف ہو اسکے علاوہ کوئی حل قبول نہیں ہے۔ کانفرنس میں دیگر سربراہان کی طرح پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی خطاب کیا لیکن انکے خطاب کی انفرادیت رسول اکرمﷺ کی توہین کرنیوالوں کیخلاف قانون سازی کا مطالبہ تھا جو ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے، عمران خان نے فلسطینی اور کشمیری مظلوموں کا بھی ذکر کیا اور ان کی جدوجہد کی تائید کی۔ عمران خان کی تقریر کے وقت راقم الحروف یہ سوچ رہا تھا کہ ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کیلئے آواز بلند کرنے پر دنیا میں کوئی عمران خان کی تحسین کرے نہ کرے لیکن روز قیامت عمران خان کے نامہ اعمال میں یہ ضرور روشنی کا سبب بنے گی۔ عمران خان کی تقریر میں سعودی عرب بالخصوص مکۃ المکرمہ پر حملوں کی مذمت نہ ہونا ایک ایسا سوال ہے جو عرب اور اسلامی دنیا میں اٹھایا جا رہا ہے جس پر وزارت خارجہ کو جواب دینا چاہئے اور اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہئے، پاکستان کا ہمیشہ سے مؤقف واضح ہے کہ سعودی عرب بالخصوص حرمین شریفین کے امن و سلامتی اور دفاع کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں اور سعودی عرب کی سلامتی، استحکام اور امن کے ساتھ کسی کو بھی نہیں کھیلنے دیا جائے گا۔