اسلام آباد (رانا مسعود حسین /نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ کے لارجر بنچ نے سابق آرمی چیف، جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کی اپیل خارج کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت یا سنگین غداری کیس کی سماعت کیلئے قائم خصوصی عدالت کسی قانونی بنیاد پر ملزم کا نام ای سی ایل پر برقرار رکھنا چاہے تو سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گا اور وہ پرویز مشرف کی نقل و حرکت محدود کر سکتے ہیں ،حکومت مشرف کے بیرون ملک جانے کا فیصلہ خود کرے۔ اگر پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دینی تو حکومت قانونی حکم جاری کرے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ای سی ایل میں نام ڈالنا نہ ڈالنا وفاقی حکومت یا خصوصی عدالت کا کام ہے، سارے کام سپریم کورٹ کے کندھے پر چڑھ کرنہ کروائے جائیں،بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت خود سے کچھ نہیں کرنا چاہتی اورعدالتی شیلٹر لینا چاہتی ہے،حکومت اگر پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے سے روکنا چاہتی ہے تو اس حوالہ سے وہ اپنے اختیاارات خود استعمال کرے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اس حوالے سے وفاقی حکومت اپنے طور پرکچھ نہیں کرنا چاہتی ،اگر کوئی آدمی 10لاکھ روپے قرض واپس نہ کرے تو اسے توبیرون ملک جانے سے روک دیا جاتا ہے اور جس نے آئین توڑا ہے اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق شش و پنچ کا شکار ہے۔ جبکہپرویز مشرف کے وکیل موکل اس وقت وہ بیمار بھی ہیں، ٹانگ میں درد ہے، علاج نہ ہوا تو فالج کا اندیشہ ہے ،انہیں علاج معالجہ کے لئے بیرون ملک جانا ضروری ہے۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس اقبال حمید الرحمن اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے بدھ کے روز سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل اور پرویز مشرف کی متفرق درخواست کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ اور پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم پیش ہوئے۔ فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اصول انضمام( Principal Of Merger) کے تحت وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک عبوری حکم کی روشنی میں ان کے موکل کا نام ای سی ایل پر ڈالا تھا ،لیکن بعد میں جب حتمی فیصلہ آیا تو اس میں اس عبوری حکم کا ذکر نہیں تھا ، اس لئے وہ حکم خو د بخود کالعدم ہوگیا تھا ،اس لئے ان کے موکل کانام اس عدالتی فیصلہ کی آڑ میں ای سی ایل پر رکھا جانا خلاف قانون ہے ،ان کا حق ہے کہ وہ جہاں مرضی آئیں جائیں ، جبکہ اس وقت وہ بیمار بھی ہیں اور ان کی طبیعت مزید خراب ہوگئی ہے،علاج نہ ہوا تو فالج کا اندیشہ ہے ،انہیں علاج معالجہ کے لئے بیرون ملک جانے سے روکنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، اس حوالےسے انہوں نے متعدد عدالتی نظائر بھی پیش کیں۔ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کا نام 8 اپریل 2013ء کو سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کی روشنی میں ای سی ایل میں ڈالا تھا اوراس وقت خصوصی عدالت میں ان کا ٹرائل بھی عدالتی حکم پر ہی ہورہاہے،جب تک سپریم کورٹ کافیصلہ موجود ہے اور فاضل عدالت اسے ختم یااس میں ترمیم نہیں کرتی ،ملزم کا نام ای سی ایل سے نہیں ہٹایا جا سکتا ہے ، جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہاکہ حکومت خود کچھ کرنے کے بجائے اس معاملے میں عدالتی حکم کی آڑ میں ہمارے کندھوں پر سب کچھ ڈالنا چاہتی ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اگر یہ سپریم کورٹ کا عبوری آرڈر نہ ہوتا تو اس حوالے سے اٹارنی جنرل کا کیا موقف ہوتا ؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل ایکٹ 2010کے رول 2سیکشن 2F,کے تحت ڈالا ہے اور ملزم پرویز مشرف و دیگر کے خلاف ایف آئی اے کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم انکوائری کررہی تھی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پارلیمنٹ میں توحکومت سابق صدرکیخلاف جاری اس ٹرائل کا کریڈٹ لیتی ہے لیکن عدالت میں موقف اپنایاگیا ہے کہ حکومت نے جو کچھ کیا۔ عدالتی حکم کی روشنی میں کیاہے، حکومت سمیت کسی نے سپریم کورٹ کے 8اپریل 2013کے عبوری حکم کو چیلنج نہیں کیا ہے، عبوری حکم کے تین پہلو ہوتے ہیں اول ʼبرقرار ہے، دوئم ضم ہوجائے، سوئم حتمی فیصلہ آنے پرازخود ختم ہوجائے۔جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اگر کوئی شخص آئین شکنی کامرتکب ہوا ہے تو حکومت کو اس بارے میںواضح موقف اختیار کرنا چاہئے، یہاں تویہ صورتحال ہے کہ دس لاکھ روپے کا نادہندہ تو حکومت کی مرضی کے خلاف باہر نہیں جا سکتا لیکن جس شخص نے آئین توڑا ہے تو اس کے بارے حکومت کا کوئی واضح موقف ہی نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے حوالے سے ملزم کی درخواست کو مسترد کرنے کے لئے عدالت میں ان کی جانب سے پیش کئے گئے میڈیکل سرٹیفکیٹس ہی کافی ہیں، لیکن ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ پرکیا اعتراضات ہیں، عدالت صرف سندھ ہائی کورٹ کیخلاف وفاق کی اپیل کا فیصلہ کرے گی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا،اگر حکومت سندھ ہائیکورٹ کے فیصلہ کے تحت ملزم کا نام ای سی ایل سے نکالتی ہے تو یہ توہین عدالت ہوگی، کیونکہ جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جا سکتا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک عبوری حکم کے تحت ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی ہدایت کی تھی لیکن جب مقدمہ ختم ہوا تووہ عبوری آرڈر بھی ختم ہوگیا اور سپریم کورٹ نے حتمی فیصلے میں عبوری حکم کو تحفظ نہیں دیا تھا ،ا س طرح ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم موجود ہی نہیں ہے۔جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ جب ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈا لنے کی ہدایت کی گئی تھی اس وقت غداری کیس شروع ہی نہیں ہو ا تھا، بعد میںپرویز مشرف کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق حکومت کی جانب سے عدالت میں بیان حلفی جمع کرانے کے بعد سپریم کورٹ میں زیر سماعت معاملہ ختم ہوگیا تھا، جب حکومت نے ایک شخص پر غداری کے الزام میں خود کارروائی کا آغاز کردیا ہے تو اسے اس امرکو بھی واضح کرنا چاہیے کہ ملزم سے تفتیش کیلئے کیااس کا ملک میں رہنا ضروری ہے،یا نہیں؟ اگر ملزم کا نام ای سی ایل سے ہٹ گیا تو وہ ملک سے باہر جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک ملزم کو عدالت ضمانت پر رہا کرتی ہے اور بعد میں وہ پیش نہ ہو تو ملزم اور اس کے ضمانتی کو نوٹس جاری ہوتا ہے جبکہ ملزم کے پیش ہونے پر نوٹس والپس لے لیا جاتا ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ حکومت کم از کم اپنی پوزیشن تو واضح کرے کہ وہ ملزم کا نام ای سی ایل میںرکھنا چاہتی ہے یا نہیں ؟ کسی کا نام ای سی ایل میں ڈالنا انتظامی ا ختیار ہے ، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلہ کی جو تشریح کرے گی وہ حکومت کو قبول ہوگی، تاہم ہماری سمجھ کے مطابق ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی فیصلہ ہے جو بدستورموثر ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا جب کوئی کیس سپریم کورٹ آتا ہے تو اس میں بے شمار عبوری آرڈر جاری ہوتے ہیں لیکن کیس ختم ہونے پرتمام عبوری آرڈر بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ خصوصی عدالت نے بھی ملزم کے وارنٹ جاری کئے تھے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جب ملزم ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش ہوئے اور ان پر فرد جرم عائد ہوئی تو وارنٹ گرفتاری واپس لے لی گئے تھے ، اور بعد میں ٹرائل کورٹ نے ملزم کی نقل وحرکت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے ، انہوںنے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک عبوری آرڈر کو ہی ان پر پابندی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے، جس پر جسٹس میاںثاقب نثار نے کہا کہ وہ غیر موثر آرڈر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم کے خلاف تفتیش کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے،کس کو گرفتار اورکیسے تفتیش کرنی ہے؟ یہ فیصلہ حکومت کرتی ہے، عدالت نہیں کرتی۔ فاضل ججز نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا کسی کیس میں حتمی فیصلہ آنے کے بعد وہ عبوری حکم بھی برقرار رہ سکتا ہے، جس کا ذکر اس حتمی فیصلہ میں نہ ہو ؟ تو انہوں نے کہا کہ کچھ عبوری فیصلے ایسے بھی ہوتے ہیں جوکہ حتمی فیصلہ کے بعد بھی قائم رہتے ہیں، جس پر جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ فرض کریںکہ ایک مقدمہ میں فریق اول کیخلاف درخواست پر عدالت اس کی جائیداد پر تعمیرات پر عبوری طور پر حکم امتناع جاری کردیتی ہے اور بعد میں فیصلہ اسی فریق اول ہی کے حق میں آجاتا ہے تو کیا اس صورت میں بھی وہ عبوری حکم برقرار رہے گا؟ اور فریق دوئم اس عبوری حکم کو اپنے حق میں استعمال کر سکے گا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف اختیار کیا کہ کہ اگر فاضل اٹارنی جنرل کی اس دلیل کو مان لیا جائے کہ بعض عبوری فیصلے حتمی فیصلہ آنے کے بعد بھی قائم رہتے ہیں تو اس طرح تو عدالتوں میں غیر ضروری مقدمہ بازی کا ایک نیا راستہ کھل جائے گا۔ بعد ازاں فاضل عدالت نے وکیل صفائی کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی اپیل خارج کردی اور سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ، جس کے روشنی میں پرویز مشرف کسی بھی ملک میں جانے کیلئے آزاد ہیں ،تاہم فاضل عدالت نے قرار دیا کہ اگر وفاقی حکومت یا سنگین غداری کیس کی سماعت کے لئے قائم خصوصی عدالت کسی قانونی بنیاد پر ملزم کا نام ای سی ایل پر برقرار رکھنا چاہے تو سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس کے راستے میں رکاو ٹ کا باعث نہیں بنے گا۔ فاضل عدالت نے اس کیس میں فریق بننے اور پرویز مشرف کے خلاف لال مسجد آپریشن سمیت مختلف مقدمات کے حوالےسے سینئر وکلاء حامد خان، توفیق آصف، طارق اسد اور کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی درخواستیں بھی مختلف وجوہات کی بناء پر خارج کر دیں۔