وفاقی وزیر نج کاری جام محمد یوسف نے کہا ہے کہ حکومت یا تو نج کاری کمیشن کو اختیارات دے ورنہ اس کو ختم کیا جائے۔ اتصالات سمیت متعدد خریدار نج کاری کمیشن کے اربوں ڈالر کے نادہندہ ہیں۔ وزارت نج کاری ایک بے اختیار وزارت ہے جس کے اندر کوئی کام نہیں ہو رہا جبکہ نج کاری کمیشن بھی مکمل طور پربے اختیارہے۔ صرف اتصالات ہی نہیں بلکہ دوسری کئی خریدار کمپنیاں بھی اربوں ڈالرز کی نادہندہ ہیں جنہوں نے پاکستانی ادارے نج کاری کے دوران خریدے لیکن بحیثیت وزیر میں کسی نادہندہ کاکچھ نہیں بگاڑ سکتا۔پاکستان میں نج کاری کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اپنی اقتصادی پالیسی اور عوام سے روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی کے وعدے کی تکمیل کے لئے کیا تھا اور پہلی مرتبہ ملک کی متعدد بڑی بڑی صنعتوں اور مالیاتی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ متعدد تعلیمی ادارے بھی حکومتی تحویل میںآ گئے۔بلاشبہ اس سے عوام کو بڑا حوصلہ ملا اوروعدے کی تکمیل کے حوالے سے حکومت پر عوام کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا۔ نج کاری کے تحت حکومت نے جن اداروں کو اپنی تحویل میں لیا ان میں بیروزگار افراد کی بھرتی، ملازمین کے مشاہروں میں اضافہ ان کی بے حد حوصلہ افزائی کا باعث بنا، خاص طورپر تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے مشاہروں میں اضافے نے ان کی محرومیوں اورمایوسیوں کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ممالک نے جہاں حکومت کی اس پالیسی کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے ہدف ِ تنقید بنایا وہاں سوشلسٹ ممالک نے اس اقدام کی بے حد تعریف کی کیونکہ اس پالیسی سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ دولت کی مساویانہ تقسیم کو ناممکن بنا کر چند خاندانوں میں دولت کے ارتکاز کو روکا جاسکے گا۔ اس حوالے سے قرآن حکیم کا یہ ارشاد بھی خصوصی طور پر توجہ طلب ہے کہ ”دیکھنا کہیں ایسا نہ ہو کہ دولت تمہارے چند خاندانوں میں جمع ہوکر رہ جائے“ اس حوالے سے اگر اس اقدام کا تجزیہ کیا جائے تو یہ قرآن حکیم اور اسلامی تعلیمات کا محور و مرکزدکھائی دیتا ہے چنانچہ خلیفہ دوم حضرت عمر نے جہاں نظام حکومت کے استحکام کے لئے بے شمار ٹھوس اور موثر اقدامات کئے وہاں خاص طور پر نظام جاگیرداری کوروکنے کے لئے انہوں نے مفتوحہ ممالک کی اراضی اسلامی لشکر میں شامل افراد میں تقسیم کرنے سے نہ صرف انکارکردیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اگرزندگی نے مزید ایک سال کی مہلت دی تو میں ہر شہری سے فاضل دولت واپس لے لوں گا۔ یہ اسلامی معاشرے میں دولت کی غیرمساویانہ تقسیم اور دولت کے ارتکاز کو روکنے کے لئے ایک نہایت موثر اور نتیجہ خیز اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔بھٹو مرحوم کے دورمیں اس پالیسی پرموثر عملدآمد نے، غربت و افلاس کا گراف کم کرنے اور روزگار کے مواقع میں اضافہ کرکرنے میں بھی ایک موثر کردار ادا کیا اور حکومت اورعوام کے درمیان اعتماد کے رشتوں کو بھی استحکام ملا۔بھٹو مرحوم کی طرف سے یہ صرف ایک انتخابی وعدے کی ہی تکمیل نہ تھی بلکہ ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے، عوام کو درپیش مسائل حل کرنے اور حکومت پر عوام کے اعتماد کو استحکام بخشنے کی بھی ایک موثر کوشش تھی۔ اگرچہ صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کے علاوہ جاگیردار طبقے نے بھی اس کی مخالفت کی لیکن وہ حکومتی پالیسی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ انہوں نے سرمایہ کاری روک لی اور بعض سرمایہ کاروں نے بیرونی ممالک کارخ کیا لیکن اگر بھٹومرحوم کے بعد بھی اس پالیسی کے موثر نفاذ کو یقینی بنایا جاتا تو صورتحا ل بدل سکتی تھی۔ خود بھٹو مرحوم نے بھی بعض ایسے ادارے اصل مالکان کو واپس کردیئے جواس پالیسی اور عوامی مفاد کے زمرے میں نہ آتے تھے لیکن ان کے بعد ضیاء الحق نے اس پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے اورسرمایہ دار طبقے کا تعاون حاصل کرنے کیلئے نج کاری کے عمل کو ناکام بنانے کے لئے سرکاری تحویل میں لئے گئے صنعتی و تجارتی اور تعلیمی اداروں کی واپسی کا عمل تیز تر کردیا جس سے عوام کو زبردست مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد نج کاری کا یہ عمل بالکل روک دیا گیا۔ نج کاری کمیشن تو آج بھی برقرار ہے لیکن جیسا کہ وزیر نج کاری نے کہا ہے کہ نہ یہ کمیشن اور نہ ہی ان کی وزارت کوئی اختیار کھتی ہے اور جن کمپنیوں نے پاکستانی ادارے نج کاری کے تحت خریدے تھے وہ بھی نادہندگان میں شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے ملک و قوم کو مالی نقصان کاسامناکرنا پڑتا ہے ۔ ضیاء الحق مرحوم سے لے کر آج تک کسی بھی حکومت نے نج کاری کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مزید اداروں کو قومی تحویل میں لینے، دولت کا ارتکاز روکنے اور اسکی مساویانہ تقسیم کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کی حوصلہ افزائی نے ایک آزاد اور خودمختار نظریاتی ریاست کے قیام کے بنیادی اغراض ومقاصد کو بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ غربت و افلاس کا گراف دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ بیروزگاری اورغربت سے تنگ آئے ہوئے افراد بیوی بچوں سمیت خودکشی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ عوام کے مسائل اورمشکلات میں ہونے والے اضافے نے ان سے زندہ رہنے کاحوصلہ بھی چھین لیا ہے۔ صرف گیس و بجلی بحران اور گرانی کے طوفان نے حکومت کی ناکامی پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے اوراسکے تمام وعدے نقش بر آب بن کر رہ گئے ہیں۔