کراچی (ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ پرویز مشرف اگر باہر چلے گئے تب بھی ہمارا گھروندہ نہیں بچے گا، جب تک تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کیلئے عوام کے علاوہ کسی اور کو آواز نہ دینے کا فیصلہ نہیں کرتیں اس وقت تک جمہوریت خطرے میں رہے گی،سوشل میڈیا نے پاکستانی معاشرے کو بے نقاب کردیا ہے، شہریوں کے آئینی حقوق کیلئے ملک میں جمہوریت کا تسلسل ضروری ہے،جمہوری استحکام میں دراڑیں کنٹینر نے ڈالیں، خواتین ارکان اسمبلی کو بھی فنڈز ملنے چاہئیں۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی اور جمعیت علمائے اسلام کی رہنما آسیہ ناصربھی شریک تھیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد پرویز مشرف کے معاملہ پر ن لیگ کی حکومت کا دوغلا پن سامنے آگیا ہے، عمران خان نے طاہر القاری کو کوئی دھوکا نہیں دیا، عمران خان نے طاہر القادری پر واضح کردیا تھا کہ تحریک انصاف کسی ماورائے آئین قدم کا حصہ نہیں بنے گی، مولانا فضل الرحمٰن تحفظ خواتین بل کیخلاف تحریک چلانے کی دھمکی پر عملدرآمد نہیں کریں گے، وہ 27مارچ سے پہلے کوئی راستہ نکال لیں گے،جلال پور میں نظریاتی سیاست کا جنازہ نکل گیا ہے،این اے 153ملتان میں ن لیگ نے اس شخص کو ٹکٹ دیا جو اسے گالیاں دیتا تھا۔آسیہ ناصر نے کہا کہ تحفظ خواتین بل پر مولانا فضل الرحمٰن کا موقف درست ہے، یہ بل کسی طور بھی عورتوں کے حق میں نہیں ہے، اسمبلیوں میں بھی خواتین ارکان کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔خرم دستگیر خان نےکہا کہ سوشل میڈیا نے پاکستان کے معاشرے کو بے نقاب کردیا ہے، جہالت کی وجہ سے عدم برداشت پھیلنے کی بات غلط ہے، جب مجرموں پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ پہلے دوسرے مجرم کو پکڑا جائے، یہ توجیہات اب بند کرنا پڑیں گی، پرویز مشرف کے وکلاء نے بھی یہی توجیہ دی تھی کہ پرویز مشرف کے ساتھ جو دیگر لوگ تھے پہلے انہیں پکڑا جائے، پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کی وجہ سے سپریم کورٹ جیسے دوسرے اداروں کے پاس ایسا اسپیس آرہا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ نہیں پرویز مشرف ہی ذمہ دار ہے اور اسی کو ہم نے پکڑنا ہے، یہ بہت گہرا معاملہ ہے کہ پاکستان میں جو سول ملٹری تعلقات ہیں، طاقتور وہ ہیں ہمیں اس کو قبول کرنا چاہئے، شہریوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کیلئے ملک میں جمہوریت کا تسلسل ضروری ہے، عدم برداشت یا نفرت کے پیچھے یہی محرک ہے کہ آپ اپنے ساتھی شہری کے حقوق کو پامال کرنے کی کوئی نہ کوئی توجیہ بنارہے ہیں، ہم اپنی نفرت اور عدم برداشت کومختلف قسم کے چوغے پہناتے ہیں۔ اس طرح نہیں ہوسکتا ہے، ہمیں ایک دوسرے کو قبول کرنا ہوگا، جمہوریت میں تمام شہری برابر ہیں۔انہوں نے کہا کہ2013ء میں ایک منتخب حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہونا پاکستان کی تاریخ کا اچھوتا واقعہ تھا جس کے بعد ہم سمجھ رہے تھے کہ جمہوریت مستحکم ہوگئی ہے، جمہوری استحکام میں دراڑیں کنٹینر نے ڈالیں، اس وقت پارلیمنٹ اور مقننہ کا تقدس پامال کیا گیا، ہم نے بڑی مشکل سے تنکا تنکا جوڑ کر گھروندہ بنایا تھا، ہماری کوشش تھی کہ جمہوریت مستحکم ہوجائے لیکن اس کو جب بریک کیا گیا تو اس کا نقصان ہوا، ہم نے جو کچھ کہا اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوئے، آنے والی جمہوری حکومتوں میں وہ مضبوطی آجائے گی کہ وہ اس قسم کے اقدامات کرسکیں گے۔ خرم دستگیر خان نے کہا کہ پرویز مشرف اگر باہر چلے گئے تو بھی ہمارا گھروندہ نہیں بچے گا، جب تک تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کیلئے عوام کے علاوہ کسی اور کو آواز نہ دینے کا فیصلہ نہیں کرتے اس وقت تک جمہوریت خطرے میں رہے گی، پاکستان میں سات منتخب حکومتیں ہیں، صوبے پہلے کے مقابلے میں کئی گنا خودمختار ہیں، ہر ایک سے پکڑ ہوگی۔ خرم دستگیر نے کہا کہ تحفظ خواتین بل پنجاب کی منتخب مقننہ نے منظور کیا ہے، بل کی خرابیاں سامنے آئیں گی تو وہی صوبائی اسمبلی اس میں ترمیم بھی کردے گی، تحفظ خواتین بل پراحتجاج کرنے والے صوبائی خودمختاری کا خیال رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین ارکان اسمبلی کو بھی فنڈز ملنے چاہئیں، این اے 101 میں تحریک انصاف نے جس شخص کو ٹکٹ دیا وہ کون سی تبدیلی کے سرخیل ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کو ادراک ہے کہ حلقوں کی سیاست میں زیادہ فوکس سیٹ جیتنے پر ہوتا ہے، دہشتگردوں کا مقابلہ نواز شریف کے ساتھ مل کر پوری پارلیمان کررہی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بحیثیت قوم ہمارے عمومی رویوں میں بھی انتہاپسندی آچکی ہے جس کا عملاً مظاہرہ بھی ہورہا ہے، بازار میں اگر ٹریفک جام ہوجائے تو لوگ مشتعل ہوجاتے ہیں، اگر کوئی حادثہ ہوجائے تو لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں، ایسے ہی ایک واقعہ میں سیالکوٹ میں لوگوں نے چور کو مار مار کر ہلاک کردیا تھا، بہت سے عوامل انتہاپسندی کو ہوا دے رہے ہیں، تعلیم کی کمی، معاشی مایوسی، قانون پر عملدرآمد میں کمزوری اور سویلین اداروں کی ناکامی معاشرے میں عدم برداشت کی بڑی وجوہات ہیں، ہمارے سویلین ادارے بتدریج کمزور ہوتے چلے گئے، نیشنل ایکشن پلان میں ایک رول فوج کا تھا جو وہ ادا کررہی ہے، ایک رول سویلین اداروں کا ہے اب وہ کس حد تک پورا کیاجارہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، دہشتگرد ایک نظریہ پھیلارہے ہیں جس کا ہمارے پاس جوابی بیانیہ ہونا چاہئے لیکن اس کا فقدان ہے، ہمارا معاشرہ پچھلے دس سالوں سے حالت جنگ میں ہے جس کا اثر بھی عوام کی نفسیات پر پڑ رہا ہے، معاشرے میں خطرناک تبدیلی آرہی ہے جس کا تدارک ضروری ہے، اگر ہمیں دہشتگردی کیخلاف کامیابی حاصل کرنی ہے تو انتہاپسندی ختم کرنا ہوگی، فرقہ واریت بھی انتہاپسندی کا ایک مظاہرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ خرم دستگیر کی گفتگو سے یہ اچھا پہلو سامنے آیا کہ انہوں نے آئین کی نفی کرنے والی شخصیت کو شناخت کرلیا ہے، اسی شخصیت کے بارے میں ان کی جماعت نے الیکشن سے پہلے بڑا ٹھوس موقف لیا تھا اور الیکشن کے فوراً بعد بھی وزیراعظم نے ٹھوس موقف لیا تھا کہ جو آئین شکن ہیں ان کو ہم نہیں چھوڑیں گے، اب عدالت نے بھی فیصلہ دیدیا ہے، ن لیگ حکومت نے پرویز مشرف کیخلاف بظاہر مضبوط موقف اختیار کیا لیکن عدالتی فیصلے کے بعد حکومتی دوغلا پن سامنے آگیا ہے، عوام کو ایک آئینہ دکھایاجارہا تھا اور ایک موقف لیاجارہا تھا لیکن درپردہ جو موقف لیا جارہا تھا وہ سب کے سامنے ہے، اس پر حکومت ایکسپوز ہورہی ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پرویز مشرف کا ٹرائل حکومت نے شروع کیا، حکومت آتی اور کہتی کہ ہم نے معاف کیا ، ہم ایک نیا آغاز کررہے ہیں، ہم جمہوریت کوا یک نئی جِلا دینا چاہتے ہیں، پارلیمانی جمہوریت ہی آگے بڑھنے کا بہتر راستہ ہے، کوئی ماورائے آئین مداخلت ملک، جمہوریت اور معاشرے کے مفاد میں نہیں ہے، کچھ حلقے صدارتی جمہوریت کی بات اس لئے کررہے ہیں کہ اس وقت جو پارلیمانی جمہوریت ہے وہ ڈیلیور نہیں کرپارہی ہے، وہ ان حلقوں کا مایوسی کا اظہار ہے، ملک میں دہشتگردی سے معصوم جانیں ضائع ہورہی ہیں لیکن حکومت کی ترجیحات صحیح نہیں ہیں، حکومت کی ترجیح میٹرو اور اورنج ٹرین ہے، حکومت کی ترجیح دہشتگردی کو لپیٹ میں لینا ہونا چاہئے تھی، جس کیلئے پولیس کی تربیت اور آلات کی فراہمی ضروری تھی، حکومت کو مدرسہ اصلاحات کرنی چاہئے تھیں لیکن یہ ترجیحات نہیں رہیں۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عمران خان نے طاہر القاری کو کوئی دھوکا نہیں دیا، عمران خان نے طاہر القادری سے ملاقات میں واضح کردیا تھا کہ تحریک انصاف کا احتجاج انتخابات میں دھاندلی کیخلاف ہے اور ہم کسی ماورائے آئین قدم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت قانون سازی کرتے ہوئے عجلت نہ کرے بلکہ مشاورت سے کام کرے، تحفظ خواتین بل پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وزیراعظم نواز شریف سے بھی مشاورت نہیں کی، مولانا فضل الرحمن تحفظ خواتین بل کیخلاف تحریک چلانے کی دھمکی پر عملدرآمد نہیں کریں گے، مولانا جہاندیدہ سیاستدان ہیں وہ 27مارچ سے پہلے کوئی راستہ نکال لیں گے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ جلال پور میں نظریاتی سیاست کا جنازہ نکل گیا ہے،این اے 153ملتان میں ن لیگ نے اپنے رہنما کے بجائے اس شخص کو ٹکٹ دیا ہے جو مسلم لیگ ن کو گالیاں دیتا تھا اور اسی نے ن لیگ کے ایم این اے کو عدالت میں پٹیشن کر کے نااہل کرایا تھا، اس حلقے میں پوری سرکاری مشینری لگی ہوئی ہے، مسلم لیگ ن اگر ایک سیٹ نہیں بھی جیتتی تو اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن کوئی نظریہ ہوتا ہے، کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے، مسلم لیگ کو صرف اسمبلی کی نشست چاہئے اگر عزت سادات جاتی ہے تو جائے، پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے جارہے ہیں۔ آسیہ ناصر نے کہا کہ ہمار ے معاشرے میں عدم برداشت بڑھتی جارہی ہے، ہم ایک دوسرے کو سننے کو تیار نہیں یہ رویہ خطرناک ہے، شاہد آفریدی کیخلاف جو کلمات کہے گئے وہ واپس لینے چاہئیں،ہمیں کرکٹ کو انڈیا پاکستان کی جنگ بنانے کے بجائے کھیل رہنے دینا چاہئے، پاکستان اور انڈیا کی جنگ ہو تو اس کیلئے ہماری فوج کافی ہے ہمیں کھیل کو اس میں انوالو نہیں کرنا چاہئے، ہمارے معاشرے میں یہ بہت خطرناک رویہ پنپ رہا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئین اور قانون سب کیلئے برابر ہے اور اس پر برابری سے ہی عملدرآمد ہونا چاہئے، نیشنل ایکشن پلان کا ہماری جماعت نے اسی لئے بائیکاٹ کیا تھا کہ ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ نیشنل ایکشن پلان میں بھی آپ صرف ایک مکتبہ فکر کو نشانہ بنارہے ہیں، ہم یہ کہہ رہے تھے کہ آپریشن بلاتفریق سب کیلئے ہونا چاہئے، اس طرح ان نظریات کو تقویت ملے گی جو یہ کہتے ہیں کہ یہاں پر برابری نہیں ہے یا یہ نظام ٹھیک نہیں ہے، نظام سب کیلئے برابر ہوناچاہئے، اب تک ہم یہی دیکھتے آئے ہیں کہ پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کو برابری کے حقوق نہیں دیئے جاتے ہیں۔ آسیہ ناصر کا کہنا تھا کہ تحفظ خواتین بل پر مولانا فضل الرحمن کے ریمارکس کے بعد پورے ملک میں واویلا مچ گیا ہے، تحفظ خواتین بل پر مولانا فضل الرحمن کا موقف درست ہے، بحیثیت ایک عورت اور غیرمسلم ہونے میں سمجھتی ہوں کہ یہ بل کسی طور بھی عورتوں کے حق میں نہیں ہے، رویوں میں تبدیلی لائے بغیر صرف قانون سازی کے ذریعے عورتوں کو حقوق نہیں دیئے جاسکتے ہیں، تحفظ خواتین بل میں عجلت کی ضرورت نہیں تھی، ملک کو دہشتگردی سمیت دیگر سنگین مسائل کا سامنا ہے، تحفظ خواتین بل میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا ہے، پوری دنیا میں کہیں ایسا قانون نہیں ہے کہ ایک شخص کو تحفظ دیا جائے اور دوسرے کی تذلیل شروع کردی جائے، تحفظ خواتین بل پر مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جاتا یا مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کیا جاتا تو شاید بہتری ہوجاتی بجائے اس طرح کا انتشار پھیلتا۔۔ آسیہ ناصر نے کہا کہ اسمبلیوں میں بھی خواتین ارکان کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں، پچھلے تین سال سے خواتین ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے جارہے ہیں، پارلیمنٹ کا کورم پورا کرنے والی خواتین کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔