اسلام آباد(رپورٹ : عثمان منظور) سپریم کورٹ نے سابق آمر پرویز مشرف کو درپیش انتہائی غداری کے مقدمے میں قانونی حکم جاری کرکے وفاقی حکومت کو آزادی دی ہے کہ وہ انہیں بیرون ملک جانے سے روک دے تاہم پرویز مشرف کے وکیل کا مؤقف ہے کہ سابق صدر کی نقل و حرکت روکنے کیلئے وفاقی حکومت کے پاس کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ کیونکہ سول یا کرمنل کیس ایک ملزم کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کی کبھی وجہ نہیں بنتا۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کانام ای سی ایل سے نکالنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے فیصلے میں خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ’’حکم وفاق پاکستان یا خصوصی عدالت کو مدعاعلیہ پرویزمشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل۔6 کے تحت کارروائی سے نہیں روکتا ۔ واضح رہے کہ کسی ملزم کی حراست یا نقل و حرکت پر پابندی حکومت ریگولیٹ کرتی ہے۔ لیکن پرویز مشرف کے کیس میں حکومت اس کے لئے سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر انحصار کرتی رہی ہے۔ جس کی اصل کیس نمٹائے جانے کے بعد کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پرویز مشرف کے وکیل فیصل چوہدری نے کہاکہ سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ ازخود مؤثر ہے اور جب تک حکومت نقل و حرکت پر پابندی کا قانونی حکم جاری نہیں کرتی پرویز مشرف کسی بھی وقت پاکستان چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سابق صدر کے ایک بار ملک چھوڑنے کے بعد واپس نہ آنے کا مفروضہ قرین قیاس نہیں کہاجا سکتا کیونکہ ایسے لوگوں پر لاگو ہونے والے قوانین موجود ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف کو محض مفروضے پر بیرون ملک جانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ تاہم اس حوالے سے ابھی وفاقی حکومت کا رویہ دیکھنا ہو گا۔ فیصل چوہدری کے خیال میں وفاقی حکومت کا سپریم کورٹ میں کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے عدالت عظمیٰ نے عدالت عالیہ سندھ کے فیصلے کو برقرار رکھا جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں بھی وفاقی حکومت کا کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے سپریم کورٹ کے عبوری حکم کی آڑ لی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا جانا چاہئے۔ تاہم حتمی فیصلے میں تمام عبوری احکامات ضم کر دیئے گئے لیکن سپریم کورٹ نے یہ نہیں لکھا کہ ملزم کو ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ فیصل چوہدری نے کہاکہ پرویز مشرف کانام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ اپنے ذمہ لینے کے بجائے حکومت نے اسے سپریم کورٹ کے عبور ی حکم پر ڈال دیا ہے۔