• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما لیکس سے شروع ہونے والا احتسابی عمل، جو بمطابق آئین و قانون جاری و ساری رہتا، غیر معمولی مطلوب نتائج ساتھ ساتھ دے رہا ہے۔ اس کے آئندہ اہداف کا تعین بھی خود بخود ہوتا جا رہا ہے۔ یوں کہ اس کا دائرہ بڑھایا جائے، یہ بڑھ رہا ہے۔ روایتی سیاست دانوں اور عوامی خواہش کے مطابق دیگر ریاستی اداروں تک پہنچ گیا ہے۔ اس میں فلاں فلاں ترجیحاً شامل ہونے چاہئیں۔ اب تو آغاز ہی ان ہی سے ہوا اور ماضی قریب کے دو آخری سابق حکمران اس کی زد میں آ چکے۔ اس کا اعتبار عوام پر قائم ہونا بے حد ضروری ہے۔ یہ قائم ہو چکا، آج کی حکمراں جماعت کے عہدوں پر فائز وزراء بھی نہیں بچ پا رہے اور اس سے آگے کے رہنما بھی میڈیا میں زیر بحث جیسے آج بڑے بڑے ہیوی ویٹ کئی ماہ نہیں دو تین سال سے میڈیا میں بطور ملزم خبروں میں رہنے کے بعد آج پابند سلاسل بھی ہیں اور تفتیش کے لئے حکومتی تحویل میں بھی کچھ خبروں کے مطابق ہوا چاہتے ہیں۔ عدالتوں اور تفتیشی اداروں نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں بے پناہ احتیاط اور رعایت سے کام لیتے (اور اسی رویے کو جاری رکھتے ہوئے) زیر عتاب ملزم سیاست دانوں کے اس بیانیے کو مکمل بے اثر کر دیا ہے کہ ’’یہ سیاسی انتقام ہے‘‘۔ احتسابی عمل کا سب سے قوی پہلو یہ ہے کہ اس میں موجودہ حکومت خصوصاً احتساب کے علمبردار وزیراعظم عمران خان کا کوئی عمل دخل نہیں اور ان کے اپنے معتمد، وزرا اور رشتے دار تک اس کی زد میں آ چکے ہیں اور فراہمیٔ انصاف کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ دونوں سابق حکمران جن مقدمات سے احتسابی عمل میں آئے، وہ موجودہ حکومت نے ان پر قائم کئے نہ مشرف حکومت (بلکہ اس نے تو انہیں این آر او سے نواز کر ان کا اقتدار اور سیاست بحال کی) نے بلکہ یہ ہر دو کے اپنے اپنے اقتدار میں ایک دوسرے کے خلاف قائم ہوئے یا بذریعہ پاناما لیکس کہ نیب کے لئے جو مسیحا ثابت ہوا۔ اسی آسمانی نزول نے نیب کو نئی زندگی عطا کی۔ اس میں نہ عمران خاں کہیں آتا ہے، نہ خلائی یا کوئی اور مخلوق۔ عدلیہ کا اعتبار پہلے ہی قائم ہو گیا تھا جب جاری احتسابی عمل کے سب سے بڑے متاثر سابق وزیراعظم نواز شریف نے بطور اپوزیشن قائد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی عدلیہ کی حکم عدولی پر اُن کے اقتدار کی علیحدگی کی بڑھ چڑھ کر تائید کی۔ خود پی پی نے قابلِ تحسین حد تک عدالتی فیصلے کو دل و جان سے قبول کیا، جس سے ملک میں آئین و قانون کی شدت سے مطلوب بالادستی کا عمل شروع ہو گیا۔ خود (ن) لیگ نے پاناما لیکس کے تناظر میں شروع ہونے والے قانونی عمل کے پہلے عدالتی فیصلے پر شادیانے بجائے۔ ان کے اس ردعمل نے ملک میں بالائی عدلیہ کے اعتبار کا درجہ یکدم بڑھا دیا کیونکہ احتساب کے پُرزور حامیوں نے بھی اسے پورے احترام سے قبول کیا، تاہم جب نون لیگی رہنمائوں نے مزید اور قانونی عمل کی تکمیل کو ناپسند کیا اور اس پر سیخ پا ہوتے گئے، یہاں تک کے فراہمیٔ انصاف کی عدالتی کارروائی کے دوران ہی، اپنی عدالتیں لگا کر فاضل جج صاحبان کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا تو عوام کی نگاہ سے گر گئے اور گلی محلے میں یہ سوال اٹھا کہ انہی عدالتوں نے جب مطلب کا فیصلہ دیا تھا تو سب سے زیادہ عدالتی فیصلے پر اعتماد نون لیگی رہنمائوں کا تھا، سو عدلیہ کے خلاف پارلیمان یا سپریم کورٹ سے پیشی بھگت کر باہر لگائی جانے والی دھمکی آمیز سیاسی عدالتیں (ن) لیگ کو سیاسی اور قانونی اعتبار سے الٹی پڑیں اور واضح طور پر رائے عامہ اس کے خلاف ہوئی۔

اس پس منظر اور اسی کی روشنی میں جاری احتسابی عمل کا تجزیہ اس لئے ناگزیر ہو گیا ہے کہ جاری احتساب جتنی بڑی قوت ضرورت بن چکا ہے، اس کی زد میں آنے والے اسٹیٹس کو کے گرے ہوئے طاقتور ستونوں کا ملبہ اس میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ جیسا کہ دو روایتی اور زیر عتاب سیاسی خاندانوں سے نکلی جواں سال قیادت احتسابی عمل کو ڈگمگانے کے حربوں کی تیاری سے اپنی سیاست کا آغاز کر رہی ہے یعنی احتسابی عمل کو مشکوک بنانا اور اسے سیاسی رنگ دینا، یہ منصوبہ جب مکمل ناکام ہو گیا تو بجٹ منظور نہ کرنے کی کوشش اور پارلیمان سے باہر سڑک پر تحریک چلانے کا اعلان ہو رہا ہے۔

یہاں یہ واضح رہنا چاہئے کہ جاری احتسابی عمل فقط ’’احتساب برائے احتساب نہیں‘‘ کہ منتخب حکمرانوں نے اپنے حلف سے بے وفائی کرتے ہوئے ملکی معیشت اور اداروں کو جو برباد کیا اس پر انہیں سزا ملے یا لوٹی دولت واپس آئے، جو کچھ خبر نہیں کہ ریکوری ہو گی بھی کہ نہیں اور ہو گی تو کب اور کتنی؟ ملک و قوم کو تو اس ریکوری کی فوری ضرورت ہے۔ احتسابی عمل کا جاری و ساری رہنا اس لئے بھی ضروری کہ یہ چلتا رہے گا تو قومی اداروں کا تشخص مکمل شفاف نہ بھی ہوا تو یہ برباد ادارے کم از کم معمول کے مطابق بحال تو ہوں گے اور ان میں بدترین جمہوریت والے عشرے کا معمول شروع ہوگا۔ پھر یہ احتسابی عمل ہی ہے جس نے ملک میں میگا کرپشن اسکینڈلز کو بہرحال بریک لگا دی ہے۔ ترقیاتی بجٹ جو مختص کیا گیا ہے، وہ اب اس بری طرح لوٹا نہیں جائے گا، نہ ادارے نکمے حواریوں کے سپرد ہوکر اللے تللوں سے مزید برباد کئے جائیں گے، بلکہ یہ عمل رک چکا ہے، البتہ وزیراعظم عمران خان پھر بھی سرکاری خزانے کے تحفظ اور کرپشن کی معمولی گنجائش کو روکنے کے لئے بھی مانیٹرنگ کا سسٹم قائم کرنے پر توجہ دیں۔ 1947ء سے احتساب شروع کرنے کی دلیل بھی انتہا کی بودی اور جاری احتسابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی تجویز ہے۔ یہ سابقہ حکومتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے سے پچھلی حکومتوں کا احتساب کرتیں جیساکہ آج ارتقا کے نتیجے، پاناما لیکس اور موجودہ حکومت کے ایجنڈے سے یہ ممکن ہوا تو عشروں پہلے کی حکومتوں کا رونا رو کر آج کے خیر کو اس شر سے ڈسٹرب نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں فلاں حکمران کا کیوں نہیں؟ ہاں یہ تیاری ہونی چاہئے کہ موجودہ حکومت بھی پچھلی دو حکومتوں کی ڈگر پر چلتی ہے یا چل رہی ہے تو اس کے تدارک کے لئے بہترین آپشن اپوزیشن ہوگی، لیکن موجودہ حکومت تو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اس پوزیشن میں نہیں، وہ خود زیر عتاب ہے اور اپوزیشن اپنی نئی قیادت کو قومی لیڈر بنانے کی ترغیب دے کر انہیں اپنے تحفظ کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ اللہ اِن پر رحم فرمائے۔

تازہ ترین