• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ دنوں میں ایک وفاقی وزیر اور سینئر ٹی وی اینکر کے مابین ٹوئٹر پر جاری لفظی جنگ ہاتھا پائی تک جاپہنچی،اس افسوسناک واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ دلیل کا جواب دلیل ہوناچاہیے، ہمیں کسی صورت صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور کسی دوسرے انسان پر ہاتھ اٹھانا کمزوری کی علامت ہے۔یہاں میں یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا شمار پاکستان کے ان چند سیاستدانوں میں کیاجا سکتا ہے جو پارلیمان کے ساتھ صحافت کے بھی نزدیک ہیں،سب جانتے ہیں کہ میں نے پاکستانی معاشرے کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنی سیاسی جدوجہد کا محور پارلیمان کو بناتے ہوئے کبھی میڈیا سے اپنا قریبی ناطہ نہیں توڑا، یہی وجہ ہے کہ میں ایک عرصے سے اپنی تمام تر سیاسی و سماجی مصروفیات کے باوجود باقاعدگی سے کالم نگاری، ٹی وی ٹاک شوز اور پریس کانفرنس کیلئے وقت نکالتا ہوں۔میں گزشتہ ماہ تین مئی کو عالمی پریس فریڈم ڈے کے موقع پرایک عالمی کانفرنس میں شرکت کیلئے آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو میں مدعو تھا جہاں بین الثقافتی مکالمہ کو پروا ن چڑھانے کیلئے میڈیا کے بہتر استعمال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ صحافت کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود اس کرہ ارض پر زندگی کی تاریخ،صدیوں سے انسان کی خواہش رہی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی بات سمجھ سکے اور اپنا موقف سمجھا سکے، انسانی تہذیب و تمدن میں صحافت جیسے مقدس فریضے کا آغاز تب ہوا جب انسان نے اپنے خیالات کو اشاروں، رنگوں،روشنیوں اور تصاویر کی صورت میں دوسروں تک پہنچانے کی کوششیں شروع کیں، بعد ازاں، مختلف زبانوں، بولیوں، رسم الخط اور حروف تہجی کی ایجاد، کاغذ کی تیاری اور پرنٹنگ پریس کے قیام نے صحافت کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔لغوی اعتبار سے لفظ صحافت عربی زبان کے لفظ صحیفہ سے اخذ کیا گیا ہے، صحیفہ مخلوق خدا کی راہنمائی کیلئے نازل کردہ آسمانی کتابوں کو کہتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ قران پاک، بھگوت گیتا، بائیبل مقدس وغیرہ یہ سب مذہبی کتابیں اپنے ماننے والوں کوحق و سچائی، خداترسی، عدل و انصاف اور انسانیت کا درس دیتی ہیں، اس حوالے سے صحافت میری نظر میں پیشے کی نسبت ایک ایسا مقدس فریضہ ہے جس پر عمل پیرا ہر شخص اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود کی خاطر عوام کو حقائق سے روشناس کراتا ہے۔ بلاشبہ میڈیا کا طویل سفر بے پناہ دشواریوں اور قربانیوں سے لبریز ہے، اخبارات سے ریڈیو، پھر ٹیلی وژن اور اس کے بعدانٹرنیٹ، اسمارٹ فون کی آمدنے صحافت کو نت نئے انداز سے روشناس کرایااور آج ہر شخص نہ صرف خبر کی جانکاری چاہتا ہے بلکہ سوشل میڈیا کے توسط سے اپنی من پسند خبروں کی ترسیل و تشہیر میں حصہ بھی ڈالنا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کسی نامور شخصیت کا ٹوئیٹ پیغام یاکوئی گمنام وائرل ویڈیو کلپ یکساں طور پر روایتی میڈیا کیلئے بریکنگ نیوز کا باعث بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ترقی یافتہ ممالک کی نمایاں پہچان صحافت کا آزاد ہونا ہے، وہاں کے صحافی بناء خوف و خطر حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرتے ہیں، پاناما پیپرز اسکینڈل ہمارے سامنے کی بات ہے کہ کیسے تحقیقاقی صحافت کرنے والوں نے دنیا کے مختلف ممالک کے حکومتی ایوانوں پر لرزہ طاری کردیا۔ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ حق و سچائی کی ازل سے جاری جنگ میں صحافی کمیونٹی نے بہت سے قربانیاں بھی پیش کی ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو صحافیوں کیلئے ایک خطرناک ترین ملک سمجھا جاتا ہے جہاں بہت سے صحافی اپنے پیشہ ورانہ امور کی تکمیل کے دوران زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،میں ان تمام ہموطن صحافیوں کی سچ کی کھوج میں بہادری و جواں مردی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ آخری فتح ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے، دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور کے اچھے انسانوں نے قلم کی طاقت سے اپنے دلائل کو دنیا سے منوایا، وہ خود تواس فانی دنیا سے چلے گئے لیکن آج بھی انکے تحریر کردہ نظریات زندہ ہیں، کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج سے ہزاروں سال پہلے حق و سچائی کی خاطر زہر کا پیالہ پینے والے سقراط کا نام زندہ ہے جبکہ اسے موت کے گھاٹ اتارنے والے تاریخ کے اندھیرے میں گْم ہوچکے ہیں؟۔میں میڈیا کمیونٹی کو یہ تلقین کرنا بھی انصاف کا تقاضا سمجھتا ہوں کہ ملک بھر میں ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ دینے کیلئے خود احتسابی کا طریقہ کار وضع کیا جائے، ہمیں اپنی صفوں سے صحافت جیسے مقدس پیشہ کی بدنامی کا باعث بننے والی کالی بھیڑوں کوازخود نکال باہر کرنا چاہیے، بطور صحافی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مذہبی طور پر بھی ہمیں برائی کی تشہیر اور غیرمصدقہ اطلاعات نشر کرنے کی سختی سے ممانعت ہے، ہمیں قومی یکجہتی‘ ملکی سالمیت اور نظریاتی اساس کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت محتاط انداز اختیار کرنا چاہیے، ففتھ جنریشن وار فیئر کے اس فتنہ انگیز دور میں حب الوطنی اورقومی مفاد پر مبنی مثبت صحافت کے ذریعے ان سماج دشمن عناصر کو شکست دی جانی ضروری ہے جو فیک نیوز کے ذریعے عوام کے درمیان مایوسی پھیلاکر اور قومی سلامتی کے اداروں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کوصحافت پر کسی قسم کا دباؤنہیں ڈالنا چاہیے اور نہ ہی میڈیا کو حکومت کو بلیک میل کرنا زیب دیتا ہے،ضرور ی ہے کہ میڈیاکو پاکستانی معاشرے کی بہتری کیلئے تعمیری کردار کرنے کی آزادی میسر ہو اور اس حوالے سے حکومت کو میڈیا کی تعمیری تنقید کو خوشدلی سے برداشت کرنا چاہے۔ اگر ہم پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں دیکھنا

چاہتے ہیں تو ہم سب کو آزاد اور ذمہ دارانہ صحافت کا فروغ یقینی بنانا ہوگا،اگر آمریت کے دور میں پرویز مشرف صحافت کو آزادی دیتے ہوئے نجی ٹی وی چینلز کے اجراء کی اجازت دے سکتا ہے تومیں آج جمہوری دور میں صحافیوں کو ہراساں کرناجمہوریت کے ساتھ ناانصافی تصور کرتا ہوں۔ اس حوالے سے میری تجویز ہے کہ پیمرا کو موصول شکایات کے جائزے کیلئے نامور صحافیوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے لیکن ٹی وی چینلز کی بندش اور صحافیوں پر تشدد کا غیر آئینی طریقہ کار کسی صورت پروان نہیں چڑھنا چاہیے۔میں آج پاکستان کی تمام میڈیا کمیونٹی کو یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ آزادی صحافت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور آزادی صحافت کی اس جدوجہد میں وہ مجھے ہمیشہ اپنے شانہ بشانہ پائیں گے۔ 

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین