• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برٹش راج میں کراچی کی دو سڑکوں کے نام تاج برطانیہ کی ملکہ سے منسوب تھے ’’کوئنز روڈ ‘‘اور ’’وکٹوریہ روڈ‘‘ ،کوئنز روڈ ‘‘کی حیثیت ایک چوڑی شاہراہ کی سی تھی،مگر وکٹوریہ روڈ ایلفی جیسے فیشن ایبل علاقے سے متصل ہونے کی بنا پر حیثیت کا حامل تھا، جس زمانے میں کراچی دارالخلافہ تھا۔ وزیر اعظم ہائوس اسی سڑک پر تھا جو بعد میں قصر ناز کہلایا ،قصر ناز اندرون سندھ سے کراچی آنے والے اسمبلی ممبرز کے لئے گیسٹ ہاوس کا درجہ رکھتاتھا، ا ب یہ ایوان صدر کا درجہ پا چکا ہے ۔اس لئےکہ صدر پاکستان کراچی کے ہیں اور کراچی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس سڑک پر ہولی ٹرینیٹی چرچ کی بغلی دیوار سے ملحق چھوٹی سی سڑک وکٹوریہ روڈ کو ایلفی سے ملاتی ہے، اس سنگم کے وکٹوریہ روڈ والے کونے پر چوک میں ،جہاں آج ایک یادگار بنی ہوئی ہے ،اسی جگہ پر میوزیکل فائونٹین تھا، جس کے اطراف میں آج کل ہولی ٹرینٹی چرچ ،گورنر ہائوس اور زینب مارکیٹ ہیں،یہ میوزیکل فائونٹین 1959میں تعمیر ہوا،جو اس تزئین و آرائش کا حصہ تھا، امریکی صدر آئزن ہاور کے دورہ پاکستان کے موقع پر کی گئی تھی انہیں ا سی راہ سے گزر کر ایوان صدر پہنچنا تھا جو اب گورنر ہائوس، کہلاتا ہے۔ آئزن ہاور تو آئے اور چلے گئے، مگر کراچی کے عوام کو آنکھوں کی ایک ایسی ٹھنڈک میسر کر گئے جو عرصہ دراز تک ان کا دل لبھاتی رہی۔ یہ فوارہ ایسی جگہ نصب تھا ،جہاں چار راستے کھلتے تھے۔ یہاں جب سہ پہر کو ٹھنڈی ہوا چلنی شروع ہوتی تو ہر کوئی اس سے سکون محسوس کرتا تھا، برٹش،کراچی اور کراچی کی الہڑ ادا پر تو فریفتہ تھے وہ ٹھنڈی معطر ہوا اور پھوار اڑاتا سر بکیھرتاجھرنا، عوام الناس کی دسترس میں آیا تو یہ جگہ گوشہ راحت و فرحت قرار پائی۔

اس چوک کی اس دلکشی کے سبب چرچ کی بغلی دیوار کےساتھ ،گلی نما سڑک نےکنج نماسڑک نے کنج تفرج کا درجہ پا لیا، دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ٹوپسی کے نام سے ٹھنڈے مشروبات کی دکان آراستہ ہو گئی،گاڑی میں بیٹھے آرڈر دیجئے۔ اور گاڑی میںبیٹھے بیٹھے کولڈ ڈرنک ،آئسکریم ور فالودے کا لطف ا ٹھایئے،چھوٹاسا کراچی تھا، اس قطعے پر گداگروں کا تو سوال ہی نہیں تھا بس ایک بلوچ بابا، جو ہارمونیم بجاتے یا ایک بانسری والا آتا تھا،مگر وہ لوگ کبھی سر پر سوار نہیںہوتے تھے کسی نے بلا کر کچھ دے دیا، تو ٹھیک ورنہ وہ کبھی خود سے بھیک نہیں مانگتے تھے۔ کچھ لوگ اس جگہ سے مزید لطف اندوز ہونے کے لئے تانگے پر بھی آتے تھے۔ مگر دوسرے دن کی فکر لئے جلد جانے کی بات کرتے تھے۔ رات کی بھیگی فضا، ،ٹھنڈی ہوا اور ترنم کے تڑکے کےساتھ پھوار اڑاتاجھرنا، ہارمونیم بجاتے بلوچ بابا کی بکھیری ہوئی راگ، راگ بھوپالی پر بنے گانوں کی دھنیں اور بانسری والے کی سریلی دھنوں کے دلفریب نغموں کی ہوا کے دوش پر رقصاں بنے ماحول کی کیا بات کریں۔ آج ،اس طرح کے ماحول کا اور اس شائستہ انتظام کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، جب وہ کراچی میں نہ رہا تو وہ کراچی والے کیسے ملیں گے۔

شب ہائے عیش کا وہ زمانہ کدھر گیا

وہ خواب کیا ہوا وہ فسانہ کدھر گیا

وہ پیکر وفا تھے سراپا خلوص تھے

وہ لوگ کیا ہوئے وہ زمانہ کدھر گیا

سگریٹ کے ایک برانڈ کی تشہیر سے مرصع اس فوارے کی سر شام اڑتی پھوار، دھنیں ،پھوٹتی خوش گوار فضا کی ترتیب، سب خواب و خیال ہوئے ،آب وراگ کے اس آہنگ سے پہلے راگ رخصت ہوا اور پھر آب ،ایک بے زبان مجسمہ رہ گیا تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا، بعد ازاں اسلامی فن تعمیرات سے مستعار ایک یادگار بنائی گئی، جس کے پاس فوارہ لگایا گیا تھا، جس کی برکھا نے کچھ دنوں تک دھوم مچائی ،مگر جلد ہی چراغوں میں روشنی نہ رہی، افتتاح کے چند روز تک سٹی گورنمنٹ نے ایک گارڈ بھی متعین کئے رکھا، اب قارئین یہ سوچیں گے کہ فوارے کے پاس گارڈ کاکیا کام ،تو یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس دور میں ٹارگٹ کلنگ شروع ہو گئی تھی، کراچی، روشنیوں کا شہر نہیں رہا تھا،فوارہ سلامت تھا، تو کیا ہوا فوارہ دیکھنے والے تو سلامت نہیں تھے۔

ابر بہار اب کے بھی برسا پرے پرے

گلشن اجاڑ اجاڑ ہیں، صحرا ہرے ہرے

( لکھنے والے نے نام نہیں لکھا)

تازہ ترین