کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ نواز شریف کا موازنہ دوسرے قیدیوں سے نہیں کیا جاسکتا وہ تین دفعہ وزیراعظم رہے ہیں ،وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا کہ برطانیہ کے وزیر خارجہ کے انٹرویو کوسیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا گیا۔ ایم او یو اسحاق ڈار کے حوالے سے ہوا اس کا پورا ڈاکیومنٹ شیئر نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ پرائیوٹ ہے اور ایک انفرادی شخصیت کے حوالے سے ہے ۔ برطانیہ کو ہم نے شواہد دیئے ہیں جس پر وہ مطمئن ہوئے ہیں اس کے بعد انہوں نے ایم او یو سائن کیا ہے،میزبان شہزاد اقبال نے کہا کہ ملک کی سیاست میں ایک بار پھر میثاق معیشت کا شور ہے حکومت اور اپوزیشن بظاہر اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ملک میں معاشی استحکام کے لئے میثاق معیشت ضروری ہے ۔احسن اقبال نے کہا کہ میثاق معیشت کی پیشکش قائدحزب اختلاف نے حکومت کو پیش کی تھی اور اس وقت حکومت نے غرور کے ساتھ اس آفر کو رد کر دیا تھا،اگر آپ نے میثاق معیشت کرنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سب کا تعاون چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ملک میں تعاون کی فضا ہویہ نہیں ہوسکتا کہ آپ یہ کہیں کہ میثاق معیشت کی بات اس لئے ہو رہی ہے کہ این آر او لیا جائے ۔ میں لعنت بھیجتا ہوں اس پر جو عمران خان سے این آر او مانگے یا این آر او کی توقع رکھے ۔ یہ صرف اپنی سیاست چمکا رہے ہیں،احسن اقبال نے کہا کہ جو شہباز شریف اور مریم نواز نے بات کی ہے دونوں نے سچ کہا ہے اور میں متفق ہوں وہ اس طرح سے کہ اس وقت سب مل کر ہی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں لیکن کیا یہ لوگ اس قابل ہیں جو سب کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں اور شہباز شریف اور نواز شریف کی رائے مختلف نہیں ہیں۔ اسپیکر ایک سادہ انسان ہیں وہ کوشش کر رہے ہیں لیکن میثاق معیشت جس ماحول میں ہوگا وہ نظر نہیں آرہا۔بننے والے کمیشن میں سیکرٹری پلاننگ کا نام نہیں ہے پاکستان کے جتنے قرضے ہوتے ہیں پاکستان کی ایکسٹرنل وینڈو کون ہے سیکرٹری ای اے ڈی ان کا نام بھی نہیں نظر آتا جو دو سب سے زیادہ متعلقہ محکمے ہیں ان کے سیکرٹری نہیں ہیں اب اس میں کون ہیں آئی بی آنٹیلیجنس بیورو نیب ہے ایف آئی اہے، آئی ایس آئی ہے ملٹری انٹیلی جنس ہے ضروری ہے کہ اس کو ہیڈ جج آف سپریم کورت کرے تاکہ لوگوں کو احساس ہو کہ انصاف کے مطابق کام کرے گا۔کمیشن کا ابھی ہم جائزہ لے رہے ہیں انصاف کے حوالے سے جو بھی چیز بنے گی ہم ایک ایک پیسہ جو ہمارے ہاتھوں خرچ ہوا ہے اس کے جوابدہ ہیں لیکن یہ ناانصافی ہے کہ ہمارے دور کے قرضوں کا حساب لیا جائے لیکن انہوں نے جو دس مہینے میں قرضہ لیا ہے اس کا کوئی حساب نہ ہو۔ میثاق معیشت اچھی چیز ہے لیکن مطلوبہ تقاضوں کو پورا ہونا چاہیے۔نواز شریف کا موازنہ دوسرے قیدیوں سے نہیں کیا جاسکتا وہ تین دفعہ وزیراعظم رہے ہیں ۔ اُن کی صحت کو دیکھتے ہوئے ہمیں امید ہے ان قانون ذرائع سے ہم اُن کے لئے ریلیف لینے کے لئے کامیاب ہوجائیں گے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا کہ برطانیہ کے وزیر خارجہ کے انٹرویو کوسیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا گیا۔ ایم او یو اسحاق ڈار کے حوالے سے ہوا اس کا پورا ڈاکیومنٹ شیئر نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ پرائیوٹ ہے اور ایک انفرادی شخصیت کے حوالے سے ہے ۔ برطانیہ کو ہم نے شواہد دیئے ہیں جس پر وہ مطمئن ہوئے ہیں اس کے بعد انہوں نے ایم او یو سائن کیا ہے ورنہ اس وقت برطانیہ میں ہزاروں حوالگی کی درخواستیں پینڈنگ میں پڑی ہوئی ہیں۔یہ کیس تحریک انصاف نے پیش نہیں کیا یہ کیس پاناماکے فیصلہ کے نتیجے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریفر کیا وہاں یہ مقدمہ چل رہا ہے اس کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے ۔ اسحاق ڈار کو جب مجسٹریٹ کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ اپنا موقف بھی دے سکتے ہیں اگر اُن کے پاس دلائل ہیں کہ یہ کیس سیاسی بنیادوں پر ہے تو انہیں کترانے کی یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان آج تک تین لوگوں کو برطانیہ کے حوالے کر چکا ہے،لوگوں کی درخواست جب آتی ہے تو معائنہ کیا جاتا ہے اگر وہ متفق ہوتے ہیں تو اس کے بعد وہ شخص مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوتا ہے مجسٹریٹ کے سامنے حوالگی کا کیس چلتا ہے جب مجسٹریٹ مطمئن ہوتا ہے کہ اس کیس میں ایسے شواہد ہیں اگر اس کا مقدمہ چلے تو اس کو سزا ہوسکتی ہے۔ قانون پراسیس باقی ہے میں نے یہ نہیں کہا کہ اسحاق ڈار کل ہی آجائیں گے۔ اسحاق ڈار کا مقدمہ جب مجسٹریٹ کے سامنے جائے گا تو وہ مقدمہ حکومت پاکستان نہیں لڑے گی وہ مقدمہ کراؤن پروسیکیوشن سروس لڑے گی برطانیہ کا ہوم ڈیپارٹمنٹ لڑے گا کہ ہم ان کو حوالے کر رہے ہیں ہمارے پاس یہ شواہد ہیں ہم نے تحقیقات کر لیں ہیں انہیں پاکستان کے حوالے کر دینا چاہیے اور اسحاق ڈار کے وکلاء بتائیں کہ ایسا کیوں نہ کریں ۔