کراچی (جنگ نیوز) پاکستان اور برطانیہ کے درمیان سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی حوالگی کیلئے مفاہمت کی یادداشت طے پاگئی اور اس ایم او یو کی کاپی جیو نیوز نے حاصل کرلی ہے۔ اس مفاہمتی یادداشت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ملزمان کی حوالگی کیلئے general Request نہیں بلکہ خصوصی طور پر اسحاق ڈار کی حوالگی کی درخواست کی گئی ہے۔ اس ایم او یو کے مطابق پاکستان نے باقاعدہ اسحاق ڈار کا نام لے کر برطانیہ سے ان کی حوالگی کی درخواست کی ہے اور ان دستاویزات پر پاکستان اور برطانوی حکام دونوں کے دستخط موجود ہیں۔ اس ایم او یو میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ اسحاق ڈار کی حوالگی کن بنیادوں پر ہوسکتی ہے اور کن وجوہات پر یہ درخواست مسترد کی جاسکتی ہے۔ ایم او یو کی دستاویزات کے مطابق اسحاق ڈار کی حوالگی اسی وقت ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک میں ان پر عائد الزامات کو جرم تصور کیا جاتا ہو اور اس کی سزا کم سے کم12ماہ ہو۔ مفاہمت کی یادداشت میں یہ بھی درج ہے کہ اسحاق ڈار کی حوالگی اسی صورت ممکن ہے جب شفاف ٹرائل کا حق بھی یقینی بنایا جائے۔ اگر نسل، مذہب، جنس یا سیاسی خیالات کی وجہ سے حوالگی مطلوب ہو تو حوالگی نہیں ہوگی۔ اگر ملزم کے انسانی حقوق متاثر ہونے کا اندیشہ ہو تو بھی حوالگی ممکن نہیں ہوسکے گی۔ دستاویزات کے مطابق حوالگی کیلئے ملزم کی ذہنی اور جسمانی حالت بہتر ہونا بھی ضروری ہے ورنہ انکی حوالگی ناانصافی تصور کی جائے گی۔ ایم او یو میں یہ بھی درج ہے کہ اگر ملزم کے خلاف فیصلہ ملزم کی غیرموجودگی میں ہوا ہے تو ان کی حوالگی نہیں ہوگی۔ مگر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ملزم جانتے بوجھتے عدالتوں سے غیرحاضر تو نہیں رہا؟۔ اگر ملزم کو پاکستان میں سزائے موت دیئے جانے کا امکان ہو تو بھی حوالگی ناممکن ہوگی اور پاکستان کو یہ تحریری یقین دہانی کرانا ہوگی کہ ملزم کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔ مفاہمتی یادداشت کے مطابق پاکستان کو حوالگی کیلئے برطانوی وزارت داخلہ کو اسحاق ڈار کے خلاف کیسز کی مکمل تفصیلات دینا ہوں گی۔ اسحاق ڈار کے خلاف کیسز میں کونسا قانون لاگو ہوتا ہے اور اس جرم کی سزا کیا ہے یہ تفصیلات بھی برطانیہ کو دینا ضروری ہیں۔ دستاویزات میں ایک اہم بات یہ بھی درج ہے کہ اسحاق ڈار کا صرف اسی کیس میں ٹرائل ہوسکے گا جن کیسز میں ان کی حوالگی کی درخواست کی گئی ہو۔ اس کے علاوہ دوسرے کیسز میں ان کا ٹرائل نہیں کیا جاسکے گا۔ واضح رہے کہ پانچ روز پہلے وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں یہ دعوی کیا تھا کہ اسحاق ڈار کی پاکستان واپسی کیلئے برطانیہ سے ایم او یو طے پاگیا ہے اور اسحاق ڈار کی واپسی بس جلد ہی ہوجائے گی۔ مگر اس حوالے سے کنفیوژن اس وقت پیدا ہوئی جب برطانوی وزیرخارجہ JEREMY HUNT نے پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان سیاسی بنیادوں پر ملزمان کی حوالگی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا۔ برطانوی سیکریٹری خارجہ کے اس بیان کو اسحاق ڈار کی حوالگی سے جوڑا گیا جس سے یہ تاثر ابھرا کہ شاید پاکستان اور برطانیہ کے درمیان اسحاق ڈار کی حوالگی سے متعلق کوئی ایم او یو طے نہیں پایا اور اسی بیان کو بنیاد بناکر اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کو ان کے معاملے پر منہ کی کھانا پڑی ہے۔علاوہ ازیں جیو پر تجزیہ کرتے ہوئے سینئرتجزیہ کار شہزاد اقبال نے کہا ہے کہ پچھلے دنوں وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے آکر پریس کانفرنس میں یہ بتایا ہے کہ اسحق ڈار کے حوالے سے ہمارا ایم او یو برطانیہ کے ساتھ سائن ہوچکا ہے اور جلد اسحاق ڈار وہ پاکستان میں ہونگے اب ہمارے پاس ایم او یو کی کاپی موجود ہے۔ جس میں باقاعدہ پہلے صفحے پر لکھا ہوا ہے کہ یوکے او پاکستان کے درمیان ایک ایم او یو سائن ہوا ہے اسحاق ڈار کی حوالگی کے حوالے سے آخری صفحے پر پاکستان اور یو کے حکام کے دستخط بھی موجود ہیں۔ یہاں پر دیکھنا ضروری ہے کہ پاکستان کی برطانیہ کے ساتھ کوئی extradition نہیں ہے اسی لئے اگر کسی شخص کو پاکستان واپس بلانا ہو تو اس میں کیس ٹو کیس کی بنیاد پر دیکھنا ہوتا ہے فی الحال یو کے اور پاکستان کے درمیان اسحاق ڈار کو لے کر یہ ایم او یو سائن ہوا ہے اس کے آگے قانون پراسیس ہوگا کیوں کہ پہلے بھی برطانیہ نے پاکستان سے بائیس سوالات مانگے تھے بائیس سوالات دیئے تھے جسکے جوابات مانگے تھے پاکستان نے ان سوالات کے جوابات دیئے اسکے بعد یہ ایم او یو سائن ہوا ہے اور اب مزید کچھ سوالات مانگے گئے ہیں اس کے بعد برطانیہ کا ہوم آفیس اگر ان سوالات سے مطمئن ہوگا تو وہ آگے جا کر کیس کو پروسیڈ کریگا اور آخری فیصلہ اُن کی حوالگی کا وہ برطانیہ کے کورٹ کرینگے کیونکہ اس میں ایک اہم معاملہ یہ بھی آئے گا کہ کیا یہ کوئی سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے کیس ہیں یا یہ کیس میرٹ کرتا ہے کہ اسحاق ڈار کی حوالگی کی جائے وہ قانون پراسیس آگے چلے گا لیکن یہ بات بڑی اہم ہے جس کا ذکر شہزاد اکبر نے کیا تھا کہ ایم او یو سائن ہوچکا ہے اور یہ باقاعدہ خاص طور پر اسحاق ڈار کیلئے ہے کسی اور شخص کیلئے نہیں ہے اس میں تفصیلات دی گئی ہیں کہ کن کن جرائم کے انڈر ان کو پاکستان بلایا جاسکتا ہے کیا ایسی شرائط ہیں کن بنیاد پر ان کو نہیں بلایا جاسکتا طریقہ کار کیا ہوگا درخواست بھیجنے کا کس کو ریکوسٹ بھیجی جائے گی کیس کے فیکٹ کیا ہوں گے وہ کس طریقے سے بھجوائے جائیں گے یہ ساری تفصیلات دینی ہونگی اسکے بعد پراسیس آگے بڑھے گا۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ سے یہ خصوصی سوال ہوا تھا کہ کیا پاکستان اور برطانیہ کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ ہے جو politically motivated کیسز کو ڈیل کرتا ہو اسکا جواب دیا گیا تھا کہ ایسا کوئی معاہدہ ہے نا ہوسکتا ہے جس پر سیاسی بنیاد پر بنائے ہوئے کیسز کی extradition ہوسکے جس پر سیاسی کیسز ہوں وہ سوال اسحاق ڈار کے حوالے سے نہیں تھا ۔ اب تک جو ایم او یو آیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ پاکستان کی سائیڈ سمجھتی ہے کہ یہ کوئی سیاست کی بنیاد پر کیس بنایا ہوا نہیں ہے اور ہوم آفیس برطانیہ نے بھی اس پر دستخط کیے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ انکی بھی انڈرسٹنڈنگ ہے کہ یہ سیاسی کیس نہیں ہے لیکن اس کا حتمی فیصلہ وہاں کے کورٹس کریں گے۔ یہاں سے جب کیس کی تفصیلات بھیجی جائیں گی تو اس میں اسحاق ڈار کا بھی بڑا اہم رول ہوگا حال ہی میں اسحاق ڈار نے ایک انٹرویو دیا ہے اور کہا ہے جب یہ معاملہ آئے گا تو میں بھی اپنی تفصیلات سامنے رکھوں گا جو جوابات پاکستان میں دیئے ہیں یہاں پر بھی دوں گا وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے ان پر جو کیسز بنائے گئے ہیں وہ سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ہیں اگر اسحاق ڈار یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ ان کے اوپر کوئی جھوٹا مقدمہ ہے تو پھر ظاہر سی بات ہے وہاں کی عدالتیں اس پر غور کریں گی۔