سابق صدرِ مملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے 21جون کو قومی اسمبلی سے خطاب کیا، انہیں اسپیکر جناب اسد قیصر کے قانونی اختیارات کے تحت پروڈکشن آرڈر کی بنیاد پر جیل سے پارلیمنٹ میں لایا گیا تھا۔ آصف علی زرداری نے حسبِ روایت اور حسبِ کردار بصیرت، برداشت، صلح جوئی اور جرأت کے متوازن عناصر سے مرکب تقریر کی، اربابِ اقتدار کو طاقت کے مقام پر موجود ہونے کے باعث جو اَنجانے اور اَن دیکھے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں، اُن سے آگاہ کیا، ملکی معیشت کے حساس موضوع پر مل بیٹھنے کے سلسلے میں اپنی طرف سے ملکی تعاون کا یقین دلایا، جمہوری تسلسل میں رخنہ پڑنے کے اندیشوں کے سبب کسی اور کی گنجائش پیدا ہونے کے نقصانات پر بھی خبردار کیا۔ آپ کہہ سکتے ہیں یہ ایک قوی مدبر کا خطاب تھا جسے ملک و قوم کے لئے حقائق کی زبان کے استعمال کا غیر معمولی ادراک حاصل ہے۔
آصف علی زرداری نے عمران حکومت کی جانب سے ’’لوٹ کھسوٹ‘‘ اور کرپشن کے انسداد کے نام پر ملک کے عوام و خواص میں جس اقتصادی خوف کی فصل بوئی جا رہی ہے، اس پر بھی متنبہ کیا اور کہا ’’اب تو 5لاکھ کا چیک کاٹنے پر بھی ڈرایا جا رہا ہے‘‘ الفاظ میں فرق ہو سکتا ہے تاہم اُن کی بات کا مفہوم یہی تھا۔ سابق صدر کی تقریر کے حوالے سے تاثرات اور متوقع نتائج کے انبساط سے پہلے ایک بار پھر آصف علی زرداری کی بھاری بھرکم شخصیت کے بارے میں گفتگو آگے بڑھاتے ہیں جس سے آپ کو ان کی ذات اور سیاست کے سلسلے میں مزید تجزیاتی مواد دستیاب ہو سکتا ہے۔
ایک کالم نگار ہیں، شمع جونیجو، انہوں نے ایک بار لکھا تھا کہ انہیں 2011میں یونیورسٹی آف لندن میں قانون اور تاریخ کے نامور پروفیسر شان برٹین نے آصف زرداری کے متعلق کہا تھا۔ ’’آج سے ایک سو سال بعد جب میں، تم اور یہ پوری نسل مر چکی ہو گی، اس وقت برطانیہ کی اعلیٰ یونیورسٹیاں اس شخص کی پولیٹیکل ٹیکٹکس پڑھا رہی ہوں گی کہ کس طرح بے نظیر بھٹو کے ساتھ شادی سے لے کر ان کے قتل تک متنازع ہونے کے باوجود یہ شخص کامیابی کے ساتھ نہ صرف ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ بنا، اپنی پارٹی کی حکومت قائم کی اور اب ملک کا صدر بھی ہے، کس طرح مفاہمت کے نام پر اس نے بدترین دشمنوں کو چپ کرایا اور کس طرح ہر حکومت ختم ہونے کے بعد اس طرح سیاست کھیلے گا کہ تمہارے ملک کے وہی لوگ اور میڈیا جو دن رات اس پر تنقید کرتے ہیں اور اس کی حکومت ختم ہونے کی شرطیں لگا رہے ہیں اس کو اور اس کی سیاست کو یاد کریں گے‘‘۔ شمع جونیجو کا کہنا ہے۔ ’’اس کے بعد میرا ان کے ساتھ ایک بہت لمبا مکالمہ تاریخ بن چکا ہے لیکن اس پوری کج بخشی کا لب لباب یہ تھا کہ تاریخ جب ہی بنتی ہے جب حال کے اوراق پر وقت کی گرد ہر قسم کی محبت یا تعصب کے پیمانے کو دھندلا دیتی ہے اور صدر زرداری وہ آدمی ہیں جن کے بارے میں کبھی بھی ایک غیر جانبدارانہ تبصرہ شاید ہماری زندگی میں نہ آ سکے گا‘‘۔
چنانچہ آپ دیکھ لیں، قومی اسمبلی میں 21جون کو آصف علی زرداری کے خطاب میں ملک و قوم کا درد محسوس کرنے کے بجائے ناقدین نے ’’چالاکیاں‘‘ تلاش کرنے کی کوشش کی، آصف زرداری جیل سے بچنے کے لئے اپنا لہجہ بدل چکے ہیں حالانکہ اسی تقریر میں انہوں نے کہا ’’میں تیرہ سال جیل کاٹ چکا ہوں مگر ملکوں اور قوموں میں افراد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، اصل منزل آپ کا وطن ہوتا ہے، جب بی بی شہید ہوئی اور سندھ میں بعض لوگوں نے ’’پاکستان نہ کھپے‘‘ کا بے برکت نعرہ لگایا، میں نے ببانگ دہل ایک بار سے زیادہ اعلان کیا ’’پاکستان کھپے، پاکستان کھپے‘‘۔
طرزِ فکر کا ایک رخ یہ ہے، دوسرا رخ بھی دیکھتے چلیں۔
وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ ملک میں مزید پھانسی گھاٹ اور جیلوں کی ضرورت ہے تاکہ 35سالوں سے لوٹنے والوں کا حساب ہو سکے۔ میرا بس چلتا تو 5ہزار افراد کو لٹکا دیتا۔ حزبِ اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں نے ملک کے ساتھ جو کیا اس کے بعد تو یہ ہاتھ ملانے کے قابل بھی نہیں، انہیں عوام کے سامنے منہ پر کپڑا ڈال کر آنا چاہئے۔ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ 35سال سے اس ملک میں دو جماعتوں کی حکمرانی تھی جو باریاں لگا رہی تھیں، ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے رہیں اور حکمرانی کرتے رہیں۔ انہوں نے ملک کی معیشت کو تباہ کر دیا۔ نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل میں آرمی چیف کو شامل کرنا بہت اچھا ہے۔ عمران خان نے انہیں کمیٹی میں شامل کر کے بتا دیا کہ وہ ہمارے ملازم نہیں۔ نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل سے کسی دوسری کمپنی کو فرق نہیں پڑے گا۔ چاہتا ہوں کہ قانون ایسا ہو کہ جزا اور سزا کا فیصلہ فوری ہو جائے۔ حزبِ اختلاف کے پاس باہر نکلنے کے لئے عوامی طاقت موجود نہیں۔ یہ کل جماعتی کانفرنس کے بعد بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکیں گے۔
فیصل واوڈا صاحب کی بعض باتیں درست بھی ہیں، مثلاً ان کا یہ کہنا حقیقت سے قریب تر ہے کہ ’’آرمی چیف ہمارے ملازم نہیں‘‘، ظاہر ہے یہ ایک آئینی سوچ ہے، آرمی چیف تو دراصل آئینِ پاکستان کے پابند ہیں، اسی طرح ان کا یہ اندازہ کہ حزبِ اختلاف کے پاس باہر نکلنے کے لئے عوامی طاقت موجود نہیں۔ کچھ ایسی بعید از قیاس پیش گوئی نہیں کی جا سکتی، کافی حد تک حزبِ اختلاف عوامی طاقت کو اکٹھا کرنے کے معاملے میں بے حد مشکلات میں گھری ہوئی ہے، مگر فیصل صاحب کا ’’5000پھانسیوں والا طرزِ فکر حد سے کہیں بڑھ کر زیادتی ہے۔ یہ ملک و قوم کے ساتھ بھلائی والا راستہ نہیں اور یہ جو انہوں نے گزشتہ 35برس ’’ن‘‘ لیگ اور پیپلز پارٹی کے کھاتے میں ڈال دیئے، یہ بھی سو فیصد غلط ہے۔ 2019میں سے 35نکال دیں، دورانیہ بنتا ہے 1984تا 2019سو ان 35برسوں میں ’’ن‘‘ لیگ اور پی پی کے ساتھ ساتھ ضیاء الحق کے چار سال اور مشرف صاحب کے گیارہ برس بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیں۔ آصف علی زرداری کی سیاسی جدوجہد اور تحمل و تدبر ایک عالم پر آشکار ہے، چنانچہ تلخیاں بڑھانے اور ’’پھانسیوں‘‘ جیسے بدقسمت الفاظ استعمال کرنے کے بجائے ہمیں جمہوری تسلسل کے تقاضے نبھاتے ہوئے اپنے تمام اختلافات امن اور مکالمے کی بنیادوں پر قومی پارلیمنٹ ہی میں طے کرنا چاہئیں۔