• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنگاپور سے سرمایہ کاروں کا وفد شپنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لئے ایک دفعہ پھر پاکستان میں موجود تھا لیکن اس دفعہ ان کے لئے حالات پہلے سے بہت مختلف تھے۔ چند ماہ قبل وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد کچھ غلط فہمیوں اور رابطوں کے فقدان کے بعد یہ وفد شپنگ کے وفاقی وزیر سے ملے بغیر واپس روانہ ہو گیا تھا لیکن پھر جب معاملات میڈیا پر آئے تو وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ علی حیدر زیدی نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی سنگا پور میں سرمایہ کاروں سے رابطہ کیا بلکہ ان کی ٹیم نے بھی دلچسپی لیتے ہوئے سرمایہ کاروں کو دوبارہ پاکستان آنے کی دعوت دی، ساتھ ہی ان سے سرمایہ کاری کا پلان بھی طلب کیا اور ایک بار پھر سنگاپور اور جاپان کا سرمایہ کاری کا وفد پاکستان میں موجود تھا، مقررہ وقت پر وفد پورٹ اینڈ شپنگ کے دفتر پہنچا جہاں پہلے ہی کچھ غیر ملکی سرمایہ کار وفاقی وزیر سے ملاقات کے لئے موجود تھے جس کے بعد علی حیدر زیدی نے خود باہر آکر سنگاپور سے آنے والے سرمایہ کاروں کا استقبال کیا، ان کے ساتھ سیکریٹری میری ٹائم افیئر بھی موجود تھے، سرمایہ کار گروپ کے سربراہ نے وفاقی وزیر کو منصوبے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے پاس مجموعی طور پر دس سے بارہ بحری جہاز اور آئل ٹینکرز ہیں جبکہ ان کی کمپنی سنگاپور میں اس سے زیادہ جہاز آپریٹ کررہی ہے جبکہ بنگلہ دیش کی قومی شپنگ کمپنی کے جہاز بھی وہ آپریٹ کررہے ہیں تاہم اب وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی پرچم تلے بھی نجی شعبے میں شپنگ کمپنی آنا چاہئے تاکہ شپنگ سیکٹر مضبوط ہو، اس وقت پاکستان سالانہ پانچ ارب ڈالر غیر ملکی جہازوں کو فریڈ کی مد میں ادا کرتا ہے جبکہ قومی شپنگ کمپنی پاکستان کی مجموعی تجارت کا صرف پانچ فیصد ہی ہینڈل کر پاتی ہے یعنی پچانوے فیصد تجارت غیر ملکی جہازوں کے ذریعے ہوتی ہے، لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ ابتدائی طور پر دس بحری جہازوں کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کا آغاز کریں جس کی مالیت پانچ سو ملین ڈالر کے لگ بھگ ہو سکتی ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس سرمایہ کاری کو دس جہازوں سے بڑھا کر اگلے پانچ سالوں میں پچاس جہازوں تک بڑھایا جائے گا اور سرمایہ کاری کی حد کو دو ارب ڈالر تک کردیا جائے گا، سرمایہ کار گروپ کے سربراہ کے مطابق سی پیک کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان میں بحری تجارت میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا، لہٰذا وقت کی ضرورت یہی ہے کہ پاکستان شپنگ کے شعبے میں اپنی استعداد بڑھائے، اِس وقت پاکستان میں شپنگ کا شعبہ زوال کا شکار ہے اور پاکستانی میرین انجینئرز تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی ملازمتوں سے محروم رہتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ غیر ملکی جہازوں پر پاکستانیوں کو اب کم ترجیح دی جانے لگی ہے لہٰذا قومی شپنگ کمپنی میں اپنے لوگوں کو ملازمتیں ملیں گی تو میرین اکیڈمیز میں بھی بہتری آئے گی، اس موقع پر وفاقی وزیر نے سنگاپور سے آنے والی سرمایہ کاری کو نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ ہر طرح کا تعاون فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اس منصوبے کو جلد ہی شروع کرنے کی یقین دہانی کرائی ساتھ ہی وفاقی وزیر علی زیدی نے ان مشکلات کا بھی ذکر کیا جس کا سامنا موجودہ حکومت کو کرنا پڑرہا ہے، نئے منصوبے شروع کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تاہم اب حکومت نے ان تمام مسائل پر قابو پالیا ہے اور عوام کو اب اچھی خبریں ملنا شروع ہو جائیں گی، وفاقی وزیر نے بتایا کہ دنیا بھر سے غیر ملکی سرمایہ کار اب پاکستان کا رخ کررہے ہیں اور حکومت کی کوشش ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ذریعے پاکستان میں زیادہ سے زیادہ ملازمتیں پیدا ہوں جس کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ساتھ ہی ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دے رہے ہیں تاکہ وہ بھی اب پاکستان میں ایماندار قیادت کے سائے تلے سرمایہ کاری کریں اور پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کریں۔

انفرادی کوششیں اپنی جگہ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے لئے ایک فول پروف نظام کی ضرورت ہے جس کے بعد میڈیا کو سرمایہ کاروں پر زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت نہ پڑے، بورڈ آف انویسٹمنٹ کو طاقت ور اور بااختیار بنایا جائے، وزیراعظم براہ راست اس ادارے کی مانیٹرنگ کریں، ذہین فرد کو اس کا سربراہ لگائیں، چاروں صوبوں کے نمائندوں کو اس ادارے کا حصہ بنائیں، حقیقت تو یہ ہے کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو کئی اہم وعدے پاکستانی عوام سے کئے گئے ان میں ایک وعدہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے وفاق کی سطح پر ون ونڈو آپریشن کے لئے دفتر کا قیام بھی شامل تھا جو وقت کی اہم ضرورت بھی ہے تاہم غیر ملکی سرمایہ کار اس وعدے پر عملدرآمد کے انتظار میں ہیں اس وقت غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے بورڈ آف انوسٹمنٹ جیسا ادارہ موجود ہے جو تاحال کسی سربراہ کی تلاش میں ہے تاکہ یکسوئی اور حکومتی ڈائریکشن کے تحت پالیسی بناکر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کیا جاسکے، حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر سے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہ رہے ہیں لیکن ون ونڈو آپریشن نہ ہونے کے سبب انہیں شدید مسائل کا سامنا ہے، خاص طور پر جب سرمایہ کاری میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کا عمل دخل ہو تو غیر ملکی سرمایہ کار کے لئے شدید مسائل پیدا ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے بہت بڑے سرمایہ کار کے لئے یہ مسائل اتنے زیادہ نہ ہوں لیکن ایک درمیانے درجے کے سرمایہ کار کو جب روزانہ ہی درجنوں دفاتر کے چکر لگانا پڑیں تو سر مایہ کار ہمت ہار جاتے ہیں اور سرمایہ کاری کا منصوبہ بھی ترک کر دیتے ہیں۔ یقیناً وزیراعظم غیر ملکی سرمایہ کاروں کے مسائل سے آگاہ ہیں جب ہی انہوں نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے ون ونڈو آپریشن فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اب حکومت کے قیام کے دس ماہ بعد اس پر عمل درآمد ہو جانا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین