• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کالم ایک، موضوع کئی، آج دل کی مان کر ہر موضوع کا آغاز استادِگرامی حسن نثار کے قول سے، ملاحظہ کریں۔

استاد کا کہنا’’میں سیاستدانوں کی اتنی عزت کرسکتا ہوں، جتنی وہ ایک دوسرے کی کرتے ہیں‘‘۔بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، سب کا سب کچھ آپکے سامنے، اتنی عزتیں کر رہے ایک دوسرے کی، گھر کی خواتین تک غیر محفوظ، پارلیمنٹ، ٹی اسکرینیں، بیان بازیاں، پریس کانفرنسیں، مایوسی ہی مایوسی، باقی چھوڑیں، ملکی مسائل، عوامی مصائب کیا، خود ساختہ رہنماؤں کے موضوع، ایجنڈے کیا، لایعنی شُرلیاں، بے معنی درفطنیاں، ساس بہو والے طعنے، اللہ کی شان، وقت یہ آگیا، بلاول، مریم اینڈ کمپنی عمران خان کو’ سلیکٹڈ وزیراعظم ‘کا طعنہ دے رہی، سلیکشن کی پیداوار سلیکشن کے طعنے دے رہی، بلاول کے نانا اسکندر مرزا، ایوب کی سلیکشن، مریم کے والد جنرل جیلانی، ضیاء الحق کی سلیکشن، بلاول کی پارٹی چیئرمینی سلیکشن، مریم کوابھی چند دن پہلے چچا شہباز نے لندن سے نائب صدر بنایا، ملکی اقتدار سے پارٹی سربراہوں تک بلاول کے نانا سے والد تک، مریم کے والد سے حمزہ تک سب سلیکشن کے مزے لُٹ رہے، کبھی غور کیا، یہ سب انقلابی، مزاحمتی، سب اچھے وقتوں کے پنچھی، چوریاں کھانے والے مجنوں، ڈیلوں، ڈھیلوں کے کھلاڑی، ذراسا مشکل وقت آئے، سب غائب، کیا یادآگیا، جب آلِ شریف سرور پیلس میں بیٹھ کر اسٹیل ملیں لگا، بھانت بھانت کے کاروبار فرمارہی تھی، تب جاوید ہاشمی آنکھوں پر پٹیاں بندھوائے، ہاتھوں میں زنجیریں پہنے، پہروں تفتیش بھگت رہا تھا، 10دن تک سورج کی روشنی نہ دیکھ سکنا، ننگے، گیلے فرش پر سونا، اڈیالہ جیل کے سیل میں مہینوں مکمل تنہائی، سب بھگت کر جسمانی طورختم ہوچکے جاوید ہاشمی کو صلہ کیا ملا، بریگیڈئیر نیاز مرحوم کے ذریعے مشرف سے معاہدہ فرماکر شریف برادران واپس آئے اورہاشمی کھڈے لائن، بلکہ دکھی ہاشمی نے جب تحریک انصاف جوائن کی تو آج چچا جانی کی جڑیں کاٹتی مریم نواز نے ٹویٹ فرمایا ’’ہاشمی احسا ن فراموش، بے کا ر آدمی، بیمار آدمی‘‘، وہ جو آل شریف کیلئے مفلوج ہوا، مرتے مرتے بچا وہ احسان فراموش، کاش کوئی بولتا، کاش کوئی یہی کہہ دیتا، مریم صاحبہ احسان فراموش آپ یا جاوید ہاشمی، بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہورہاتھا لفظ سلیکٹڈ کا، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کا اسمبلی میں عمران خان کو سلیکٹڈ کہنے پر پابندی لگانا، شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری، اتنا بھی کیا نازک مزاج ہونا، پھر لفظ سلیکٹڈ کے خالق بلاول خود مان چکے ’’میرے نانا ذوالفقار بھٹو کو اسکندرمرزا، ایوب نے میرٹ پر سلیکٹ کیا‘‘، ہیں جی، ہاں جی، ڈکٹیٹر برامگر نانا کو سلیکٹ کرے تو ڈکٹیٹر کا میرٹ اچھا، اب مریم نواز سے یہ سننا باقی رہ گیا کہ میرے ابو کو ضیاء نے میرٹ پر سلیکٹ کیا۔

حسن نثار صاحب کہیں ’’پہلے جمہوریت کے ساتھ میثاقِ جمہوریت نے ہاتھ کیا، اب کہیں معیشت کیساتھ میثاقِ معیشت ہاتھ نہ کرجائے‘‘۔ ویسے تو معیشت ہے کہاں، جس سے ہاتھ ہو، لیکن چونکہ یہاں سب کچھ باتوں باتوں میں ہورہا، لہٰذا باتوں کی حد تک بات کریں تو میثاقِ معیشت کے ساتھ پہلے دن ہی ہاتھ ہوگیا، مریم نواز نے چچا جانی کے میثاقِ معیشت کو مذاقِ معیشت فرما کر میثاقی کشتی میں اپنے قد سے بڑا سوراخ فرمادیا، اب رسمی صدر شہباز شریف ہتھ مَل رہے، شہبا ز شریف نے بھی کیا قسمت پائی، عمر بھر پرفارمنس دکھا دکھا، بھائی جان کی تابعداری فرما فرما، اب بھتیجی کے رحم وکرم پر، کبھی سوچا اپنے ہاں کوئی میثاقِ جمہوریت کیوں کامیاب نہیں ہوا، اس لئے میثاقِ جمہوریت کرنے والے خود جمہوریت پسند نہیں، میثاقِ معیشت ’خدا کا خوف‘ معیشت کا سوا ستیاناس کرنے والوں سے میثاقِ معیشت، یہ تو وہی ہوا’ بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں‘،باقی رہ گئی مریم نواز، دو اہداف، آزاد نواز شریف اور اقتدار، انہیں ان دونوں اہداف کیلئے پارٹی سربراہی اپنے پاس رکھنی، تبھی تو چند دن پہلے 70منٹی پریس کانفرنس میں بقول حسن نثار مریم بے چاری نے بے دھیانی میں اچھے خاصے چچا جانی کو چاچا خواہ مخواہ بنا دیا، استاد کے لفظ بے دھیانی پر اعتراض، سب کچھ بڑے دھیان سے کیا مریم نواز نے۔

حسن نثار کہتے ہیں ’’جیسے آج تک کسی نے دیمک کے دانت، سانپ کے پاؤں اور چیونٹی کی ناک نہیں دیکھی، اسی طرح آج تک کسی نے کرپٹ کی کرپشن نہیں دیکھی‘‘۔گو کہ یہاں چار دہائیوں سے ملک وقوم کولوٹ لوٹ کر بڈھے ہوچکے بھی فرمارہے، ہم معصوم، ہم بے گناہ، گو کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک جہاں زرداری صاحب کا بھی دفاع کرنے والے موجود، جہاں سپریم کورٹ کے نااہل، کرپشن پر جیل جا چکے نوا ز شریف کی لیڈری کے گن گانے والے بھی پائے جائیں، باقی چھوڑیں، یہ مخول ملاحظہ ہو، یہ تووہ ملک جہاں انقلابی بیانیے کی وارث مریم نواز، بڑے بڑے جغادری مریم نواز سے انقلاب کشید رہے، لیکن حسن نثار صاحب سے بصدِادب اپنے پاکستان میں ایسے صاحب نظر بھی جنہیں دیمک کے دانت، سانپ کے پاؤں، چیونٹی کی ناک سمیت سب کچھ نظر آجائے مگر آنکھوں کے سامنے ہوئی کرپشن نظر نہ آئے۔

حسن نثار صاحب کا کہنا ’’خالی برتن شور بہت مچاتے ہیں، خالی تھیلے کبھی سیدھے کھڑے نہیں ہوسکتے‘‘۔بلاشبہ چاروں طرف یہی ہورہا، پتا ککھ نہیں، زبانیں آؤٹ آف کنٹرول، پانچویں فیل ملکی بجٹ کے تخمینے بتا، سمجھا رہے، اپنی دس بارہ فٹ کریانہ کی دکان چل نہیں رہی، ٹرمپ کو مشورے دیئے جارہے، گونگوں کو زبانیں لگی ہوئیں بلکہ زبانیں بندوں کو نہیں بندے زبانوں کو لگے ہوئے۔

حسن نثار صاحب فرمائیں ’’اپوزیشن کہتی ہے حکومت تنقید برداشت کرے اور یہ نہیں جانتی کہ تنقید اورگالی میں فرق ہوتاہے‘‘۔ استاد کے اس قول کا انگریزی ترجمہ کرواکربلاول کو پیش کریں اور اسے مزید آسان اردو میں مریم نواز تک پہنچائیں، امید ہے افاقہ ہوگا۔

حسن نثار کا کہنا ’’مجھے کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن اپنے کرکٹرز سے بے پناہ ہمدردی جو ایک میچ جیت کر’شاہین‘ اور دوسرا میچ ہارکر’ کوے‘ بن جائیں۔ ایک بار حضورؐ سے پوچھا گیا ’’دین کیا ہے‘‘ فرمایا ’’دین اعتدال، میانہ روی‘‘، اس کے بعد اور کیاکہوں، جب محبتیں، نفرتیں آؤٹ آ ف کنٹرول ہوجائیں توکبھی شاہین کبھی کوے، یہی ہوتا ہے۔

تازہ ترین