• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

براق کا ذکر حدیث شریف میں بھی آیا ہے۔ تیز رفتاری کی علامت یہ اڑنے والا وہ گھوڑا ہے جو حضور اکرمﷺ کو کچھ لمحوں میں ساتویں آسمان پر خالق سے ملانے لے گیا تھا۔ اس علامت کو مدِنظر رکھتے ہوئے جب مراکو میں افریقہ اور مسلم ممالک کی پہلی تیز رفتار ٹرین کے منصوبے کی بنیاد رکھی گئی تو ٹرین کی برق رفتاری کو دیکھتے ہوئے اسے البراق کا نام دیا گیا۔ البراق کا افتتاح کچھ ماہ قبل مراکش کے شاہ محمد ششم اور فرانسیسی صدر ایمویل میکرون نے کیا تھا جس کی رفتار 350کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ ٹرین پہلے مرحلے میں مراکش کے دو اہم صنعتی و تجارتی شہروں کاسا بلانکا اور تنجیر کو ملاتی ہے مگر بعد ازاں البراق کو مراکش شہر سے بھی جوڑا جائے گا۔ ٹرین میں 500سے زائد مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جس کی تکمیل پر 8ارب ڈالر کے اخراجات آئے ہیں۔میں اس وقت البراق پر رباط شہر سے تنجیر کی جانب سفر کر رہا ہوں جو 325کلومیٹر کی رفتار سے رواں دواں ہے، ٹرین کی کھڑکی سے گزرنے والے منظر اتنی تیزی سے گزر رہے ہیں کہ ان پر نظر رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ میرے ساتھ اس سفر میں اسٹیل مل کے سابق چیئرمین اور سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم کے صاحبزادے کامران قیوم بھی سفر کر رہے ہیں جو بزنس کے سلسلے میں مراکو آئے ہوئے ہیں۔ رباط اور تنجیر کا فاصلہ 250کلو میٹر ہے جو البراق ٹرین کی تیز رفتاری کے باعث 50فیصد کم ہوکر صرف 2گھنٹے 10منٹ رہ گیا ہے۔ اتنی تیز رفتاری کےباوجود بھی یہ ٹرین اتنے ہموار طریقے سے دوڑ رہی ہے کہ بالکل یہ احساس نہیں ہو رہا کہ آپ کسی ٹرین میں سفر کر رہے ہیں۔ ٹرین میں ہر وہ سہولت موجود ہے جو فضائی سفر کے دوران مہیا ہوتی ہے۔ میں جاپان کی بلٹ ٹرین، فرانس کی ٹی جی وی اور یورپ کی یورو اسٹار میں بھی سفر کر چکا ہوں مگر ان کے مقابلے میں اس ٹرین کو میں نے زیادہ ہموار اور آرام دہ پایا۔

البراق ٹرین چلا کر مراکو کا شمار نہ صرف افریقہ بلکہ مسلم ممالک کے سرفہرست ملک میں ہونے لگا ہے جو یقیناً اس کیلئے ایک اعزاز کی بات ہے۔ البراق میں دورانِ سفر پاکستان ریلوے کا موازنہ مراکو کی قومی ریلوے سے کر رہا ہوں جس نے ریلوے کے نظام میں بہت تیزی سے جدید ترقی کی ہے اور مراکو کے ریلوے نظام کو اکیسویں صدی سے منسلک کر دیا ہے۔ سفر کے دوران مجھے پاکستان میں ہونے والے ٹرین حادثے کی اطلاع انٹرنیٹ پر پڑھنے کو ملی جس میں کراچی سے لاہور جانے والی جناح ایکسپریس حیدرآباد میں کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں ڈرائیور اور اس کے 2اسسٹنٹ سمیت 3افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے۔

یہ پہلا حادثہ نہیں بلکہ جب سے وزیر ریلوے نے وزارت سنبھالی ہے، 40سے زائد ٹرین حادثات رونما ہو چکے ہیں جس میں درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ وزیر ریلوے اپنی وزارت پر توجہ دینے کے بجائے اپنا زیادہ تر وقت ٹی وی چینلز پر سیاسی بحث و مباحثے پر صرف کر رہے ہیں۔ اگر یہ واقعات کسی ترقی یافتہ ملک میں پیش آتے تو وہاں وزیر ریلوے شاید مستعفی ہو جاتا۔ جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں کچھ عرصہ قبل جاپان میں ایک ٹرین پٹری سے اترنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وزیر ریلوے اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے مگر شاید پاکستان میں اس کی طرح کی کوئی روایت نہیں اور حیدر آباد ٹرین حادثے کے بعد وزیر ریلوے یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو گئے کہ حادثہ انسانی غلطی تھی جس کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

حالیہ دنوں میں بڑھتے ہوئے ٹرین حادثات کی طرف جب کسی صحافی نے وزیر ریلوے کی توجہ مبذول کرائی اور ترقی یافتہ ممالک کی طرح حادثے کی ذمہ داری قبول کرنے کی مثال دی تو ان کا کہنا تھا کہ ٹرین میں تو نہیں چلا رہا تھا۔ وزیر ریلوے کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ پاکستان ریلوے منافع میں جا رہی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور ریلوے خسارے میں جارہی ہے اور 8مہینوں میں ریلوے کو 29ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے جو سالانہ 43ارب روپے بنتے ہیں۔ ریلوے کے حوالے سے حالیہ دنوں میں ایک اور خبر بھی سننے کو ملی ہے کہ ٹرین ڈرائیورز کی قلت ہونے کے باعث پرانے ریٹائرڈ ڈرائیورز کی خدمات حاصل کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے جو یقیناً خطرے سے خالی نہ ہوگا۔

آزادی کے بعد پاکستان میں ہماری ریلوے ٹریک کی مجموعی لمبائی میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے اور پاکستان ریلوے میں کوئی نئے روٹس یا ٹریک کا اضافہ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح پاکستان میں چلنے والی ٹرین کی رفتار اوسطاً 110کلو میٹر فی گھنٹہ رفتار سے زیادہ نہیں جبکہ دنیا میں تین گنا زیادہ رفتار سے ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک کے حکمراں اپنے شہریوں کو براق پر لے گئے جبکہ ہم ابھی تک 70سال پرانے بوسیدہ ریلوے نظام پر سفر کر رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان بھی ریلوے کو جدید تقاضوں پر استوار کرے تاکہ پاکستان کے شہروں کے درمیان فاصلے دنوں کے بجائے گھنٹوں میں طے کئے جا سکیں۔ آخر میں وزیر ریلوے سے میری گزارش ہے کہ وہ مراکو کا دورہ کریں اور مراکو کی ONCFسے استفادہ کریں۔

تازہ ترین