• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے ٹیلی فون اور پھر فیکس مشین، یہ دونوں ہی اپنے اپنے وقتوں میں ابلاغ کا انقلابی ذریعہ رہے ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا نے ابلاغ اور ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کو نئے معنی دے دیے ہیں۔ اور اگر کہا جائے کہ سوشل میڈیا نے عالمی ابلاغ کو بدل کر رکھ دیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ آج عالمی ابلاغ میں سوشل میڈیا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ کسی بھی وقت اپنے اِرد گِرد نظر دوڑائیں، اکثر لوگ آپ کو سوشل میڈیا استعمال کرتے نظر آئیں گے۔ مزید برآں، سوشل میڈیا کے ذریعے پروڈیوسرز اور مارکیٹیئرز نئی منڈیوں اور نئے صارفین تک پہنچ رہے ہیں۔

دنیا میں پہلا ’ورلڈ سوشل میڈیا ڈے‘ 2010ء میں منایا گیا تھا۔ ہرسال 30جون کو یہ دن منانے کا مقصد، جدید معاشرے میں سوشل میڈیا کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہے۔ جس طرح سوشل میڈیا نے فاصلوں کو ختم کرکے سب کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے، اس کا بھی جشن منایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی تاریخ میں تین دنوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور اگر یہ تین دن نہ آتے تو آج سوشل میڈیا کو شاید وہ اہمیت حاصل نہ ہوتی۔

4فروری 2004ء :یہ وہ دن ہے جب امریکی کیمبرج یونیورسٹی کے ایک طالب علم مارک زکربرگ نے دوستوں کے ساتھ مل کر فیس بک لانچ کیا۔

15جولائی 2006ء:اس دن امریکی شہر سان فرانسسکو، کیلی فورنیا میں مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر کو لانچ کیا گیا تھا۔

6اکتوبر 2010ء :اس دن تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنے کی سوشل میڈیا ویب سائٹ انسٹاگرام کو لانچ کیا گیا تھا۔ ایک بار پھر یہ اعزاز سان فرانسسکو، کیلی فورنیا کو حاصل رہا۔

اس کےعلاوہ، پروفیشنل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ لنکڈ اِن کو بھی اس کیٹیگری میں شامل کیا جاسکتا ہے، جسے 2002ء میں ماؤنٹین وِیو، کیلی فورنیا میں لانچ کیا گیا۔

اگر آپ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا اسمارٹ فون رکھتے ہیں، ساتھ انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر ہے تو آپ ان چاروں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں سے کم از کم ایک یا پھر ایک سے زائد ویب سائٹس کو ضرور وِزٹ کرتے ہوں گے اور آپ کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ سوشل میڈیا نے کس طرح ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے، معلومات کے تبادلے، فیملی، دوستوں اور دنیا کے ساتھ شیئر کرنے کے انداز کو نئے معنی دے دیے ہیں۔

سوشل میڈیا کے کچھ کم معروف پلیٹ فارمز بھی تھے، جن کے بارے میں آج شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں۔2002ء میں ’فرینڈسٹر‘اور 2003ء میں ’مائی اسپیس‘ کے آنے کے ساتھ ہی سوشل میڈیا مرکزی دھارے میں آچکا تھا۔ پھر فروری 2004ء کا مہینہ اپنے ساتھ سوشل میڈیا جائنٹ ’فیس بک‘ کولے آیا۔ ’ٹوئٹر‘ نے ہمیں اپنے خیالات اور تحریر میں ’مختصرمگر جامع‘ ہونا سکھایا اور ہماری بات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے ہمیں 140الفاظ تک محدود کردیا۔

ہم ’انسٹاگرام‘ اور ’فِلکر‘ پر تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرکے اپنے سوشل ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ اور اگر ویڈیوز کی بات کریں تو اس کے لیے ’یوٹیوب‘ سے بہتر اور بڑا پلیٹ فارم کوئی اور نہیں ہے، جہاں آپ How Toاور اس کے آگے اپنا مطلوبہ موضوع لکھ کر سرچ کریں تو آپ کے سامنے اس موضوع پر درجنوں ویڈیوز آجائیں گی۔

ایرک قولمین اپنی کتاب ’سوشل نامکس‘ میں بتاتے ہیں کہ ہر 5میں سے ایک تعلق انٹرنیٹ کی وجہ سے بنتا ہے۔ ایرک قولمین کے مطابق،آج کے دور میں رشتوں میں دراڑ کی وجہ بھی سوشل میڈیا ہے۔

فیس بک پر موجود لوگوں کو اگر ایک ملک کی آبادی کے مطابق جانچا جائے تو یہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے اور سوشل میڈیا ویب پرحاوی ہے، جبکہ جسٹن بیبر، کیٹی پیری اور لیڈی گاگا کے ٹوئٹر فالوورز جرمنی، ترکی، جنوبی افریقا، ارجنٹائن، مصر اور کینیڈا کی آبادی سے زیادہ ہیں۔

تاہم سوشل میڈیا پر باتیں کرنے والوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ جو بھی بات کر رہے ہیں، اس کے لیے انہیں جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے، اس لیے سوشل میڈیا پر حساس معاملات اور کسی کی ذاتی زندگی سے متعلق معلومات وغیرہ پر بات کرتے یا شیئر کرتے وقت اپنے احساس ذمہ داری کو ضرور بیدار رکھیں۔

سوشل میڈیا کا بچوں پر اثر

سوشل میڈیا جہاں معلومات کے تبادلے اور ایک دوسرے سے جُڑے رہنے کا اہم ذریعہ بن چکا ہے، وہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استعمال جہاں ہماری پیداواری صلاحیتوں پر اثرانداز ہوتا ہے، وہاں یہ بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ابتدائی دو سال تک بچوں کو اسکرین سے بالکل دور رکھا جائے جبکہ دو سال سے پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کے اسکرین ٹائم کو 24گھنٹوں میں ایک گھنٹے تک محدود رکھا جائے۔ مزید برآں، سوشل میڈیا کا زائد استعمال بالغ افراد کی توجہ مرتکز کرنے کی صلاحیت کو ختم کردیتا ہے اور وہ زیادہ دیر تک ایک کام کو توجہ کے ساتھ کرنےسے قاصر رہتے ہیں، اس لیے ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ دفتر اور کام کی جگہ پر اسمارٹ فون کو خود سے دور رکھیں، جبکہ گھر میں بھی جس وقت فیملی کے تمام لوگ اکٹھے ہوں، اسے ’نو سوشل میڈیا‘ ٹائم قرار دیں، تاکہ آپ فیملی کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزار سکیں۔

تازہ ترین