لندن (مرتضیٰ علی شاہ) معروف وکلا نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اگرچہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف پاکستان میں مقدمہ چلانے کیلئے ان کی حوالگی کیلئے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ایم او یو پر دستخط ہوچکے ہیں لیکن وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ کے مخالفانہ بیان اور حکومت پاکستان کی جانب سے اس ایم او یو کو سیاسی رنگ دیئے جانے کے بعد اگر یہ معاملہ برطانوی ججوں کے سامنے گیا تو اسحاق ڈار کی حوالگی تقریباً ناممکن ہوگی۔ اس نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے حوالگی سے متعلق مقدمات کے ماہر مختلف معروف وکلا نے کہا کہ اگر حوالگی کا عمل ابھی سے شروع کردیا جائے تو بھی اسحاق ڈار کو اگلے چند برسوں کے دوران پاکستان کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ بیرسٹر فارس بلوچ نے بتایا کہ اگر حوالگی کی درخواست ہوم آفس کی جانب سے وارنٹ گرفتاری کے ساتھ بھی دی جائے تو بھی اسحاق ڈار ایم او یو کو منصفانہ مقدمہ چلانے، اپنے تحفظ اور پاکستانی جیل خانوں کی صورت حال میں ناکافی ضمانت قرار دے کر اس کے خلاف اپیل کرسکتے ہیں، اپیل کا یہ عمل برسہا برس چل سکتا ہے اور آخر میں یورپ کی حقوق انسانی کی عدالت میں جا کر ختم ہوگا۔ پاکستان میں اب بھی سزائے موت کا قانون موجود ہے اور جیل خانوں کی حالت بھی ناگفتہ بہ، جس کی وجہ سے برطانیہ شاید ہی حوالگی کی درخواست کی منظوری دے گا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں حقوق انسانی کی عمومی صورت حال کے بارے میں موجود تشویش ایک بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسحاق ڈار غالباً تشدد کے امتناع یا غیر انسانی سلوک سے متعلق ای سی ایچ آر کی دفعہ3 منصفانہ ٹرائل کے بارے میں دفعہ 6پر انحصار کریں گے اور یہ موقف اختیار کرسکتے ہیں کہ اگر انھیں حوالے کیا گیا تو ان کے ان حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ بیرسٹر ظریف خان جو حوالگی کے مقدمات میں وکیل دفاع کے طور پر کام کرتے رہے ہیں، نے کہا کہ ہر مقدمہ کا انحصار اس کے اپنے حقائق پر ہوتا ہے، ایم او یو کے بارے میں کئی کلیدی سوالات اور ڈار کے ممکنہ دفاع نے اس پورے کیس کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان شواہد کی بنیاد پر حوالگی کی درخواست کرے، ان شواہد کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا اور ڈار کی لیگل ٹیم یہ دلیل دے سکتی ہے کہ یہ سیاسی مقاصد کے تحت ہے، اس کے ساتھ ہی حکومت پاکستان کو مطمئن کرنا ہوگا کہ ایسا نہیں ہے اور ان کو چارج کرنے کے وافر شواہد موجود ہیں، ڈار برطانوی عدالتوں میں حوالگی کے مقاصد اور اس کی قانونی حیثیت کو چیلنج کریں گے اور یہ موقف اختیار کریں گے کہ یہ سیاسی مقاصد کیلئے ہیں اور ان کے مقدمے کی منصفانہ سماعت نہیں ہوگی اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی جائے گی، وغیرہ وغیرہ۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ایم او یو کا ڈرافٹ کس طرح تیار کیا گیا ہے اور اس میں کوئی سقم موجود ہے یا نہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے ابوقتادہ کی مثال دی، جس میں القاعدہ کے سابق رہنما کو 7 جولائی2013 کو ایک ایم او یو کے تحت اس وقت اردن کے حوالے کیا گیا تھا جب برطانیہ اور اردن کی حکومتیں ایک سمجھوتے کی منظوری دینے پر تیار ہوگئی تھیں، جس میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ تشدد کے ذریعے حاصل کردہ شواہد کو ان کے خلاف مقدمے میں استعمال نہیں کیا جائے گا۔ بیرسٹر عائشہ قریشی نے کہا کہ حوالگی سے متعلق ایکٹ2003کی دفعہ 194حوالگی کے خصوصی انتظامات سے متعلق ہے، اس دفعہ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب وزیر خارجہ کو یہ یقین ہو کہ برطانیہ اور کسی دوسرے ملک کے درمیان کسی فرد کی حوالگی کے لئے یہ معاہدہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں روانڈا اور برطانیہ کے درمیان مبینہ قتل عام میں ملوث5 افراد کی حوالگی کے لئے کئے جانے والے ایم او یو کا حوالہ دیا۔ دفعہ194 عارضی انتظامات کے حوالے سے جانا جاتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہوم آفس کے اطمینان کے مطابق معمول کے معاہدے سے ہٹ کر حوالگی پر اتفاق کیا گیا ہے۔ پاکستان کیلئے پہلا بڑا امتحان برطانوی حکومت اور اس کے بعد برطانوی عدالتوں کو مطمئن کرنا ہوگا اور یہ بذات خود ایک بہت بڑا کام ہے۔ عائشہ قریشی نے کہا کہ برطانوی عدالتوں نے5 افراد کی حوالگی کے اس اہم مقدمے میں روانڈا کی حکومت کی اپیل مسترد کردی تھی، ڈویژنل عدالت نے 22 دسمبر2015کو ڈسٹرکٹ جج ایما آربتھ ناٹ کے حوالگی کی درخواستیں خارج کرنے کے فیصلے کی 2بنیادوں پرتوثیق کردی تھی۔ دہرا خطرہ: اول یہ کہ جن افراد کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا تھا، ان میں سے ایک شخص پر مقامی عدالت میں مقدمہ چلایا جا چکا تھا اور حقوق انسانی کے یورپی منشور کی دفعہ 6، جج نے مطلوبہ افراد کا یہ موقف قبول کرلیا تھا کہ اگر انھیں روانڈا کے حوالے کیا گیا تو منصفانہ مقدمے کا ان کے حق کی صریح خلاف ورزی ہوگی اور حکومت پاکستان برطانوی عدالت میں گئی تو یہی بات اسحاق ڈار کے مقدمے میں بھی سامنے آئے گی۔ بیرسٹرامجد ملک نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کا اصل مقصد اپوزیشن کے رہنمائوں کی توہین کرنا اور انھیں اپنی بات ماننے پر مجبور کرنا اور لوگوں کی وفاداریاں حکومت میں حق میں کرنے کیلئے جابرانہ طریقے اختیار کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے حقوق انسانی کے بارے میں پاکستان کا ریکارڈ بہت خراب ہے اور نیب کی حراست میں حالیہ تشدد اور زیر حراست ہلاکتوں نے پاکستان کی ساکھ اور بھی خراب ہوئی ہے، اس کے علاوہ میرٹ کی بنیاد پر سرکاری ریکارڈ کے مطابق اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس میں بنیادی الزام یہ ہے کہ اسحاق ڈار نے 1981سے 2001تک 20سال کے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے جبکہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ انھوں نے گزشتہ 34سال کے دوران ہمیشہ ٹیکس گوشوارے جمع کرائے اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انھوں نے گوشوارے جمع نہ کرائے ہوں۔ ان کے پاس پاکستان سے ایک ایکسپرٹ آڈٹ رپورٹ اور برطانیہ سے ایک فارنسک رپورٹ بھی موجود ہے، اس طرح یہ ثابت ہوجائے گا کہ یہ سیاسی انتقام کا معاملہ ہے اور اگر برطانوی حکام نے یہ معاملہ عدالتوں کو بھیجا تو اس سے پاکستان کی حکومت کو شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور سیاسی بنیادوں پر حوالگی سے انکار کیا جاسکتا ہے۔ حکومت پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے حوالگی کا معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے اسحاق ڈار پر ایک یا زیادہ الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کیلئے برطانوی حکومت کے ساتھ ایم او یو پر دستخط کئے ہیں، اس معاہدے پر نئے جسٹس گرائم بیگر اور پاکستان کے اکائونٹیبلٹی کے فوکل پرسن شہزاد اکبر نے دستخط کئے ہیں۔ دو ہفتے قبل وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ نے کہا تھا کہ برطانیہ پاکستان کے ساتھ کسی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کرے گا، جسے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدمات کے لئے استعمال کیا جاسکے۔