• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قفس میں مجھ سے روداد چمن ہے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
آج صبح کا اخبار ہاتھ میں تھامتے ہی شہ سرخیوں پر نظر پڑی تو غالب کا یہ شعر یاد آگیا اگرچہ یہ شعر کسی اور موقع محل کے لئے کسی اور پیرائے میں ہے مگر مجھے آشیاں پر بجلی گرنے کا مصرعہ حسب حال لگا۔ ہارے وطن عزیز کے حالات روز بروز افسردہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف تو الیکشن کی فہرستوں کی تیاری اور تصدیق کے عمل کی گہما گہمی کی خبریں ہیں اور دوسری طرف ان فہرستوں میں نامزد لوگوں کو اللہ کے سپرد کر کے فہرستوں کی افادیت اور ضرورت کوختم کیا جا رہا ہے فہرست میں جس کا نام درج ہے اسے نہیں معلوم کہ الیکشن کی تاریخ تک وہ زندہ بھی ہو گا کہ نہیں۔ صرف کل یعنی جمعرات 31 جنوری کو جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اخبارات نے 19 بتائی ہے جس میں تین علماء بھی شامل ہیں۔ ہر روز تعداد میں بالکل اسی طرح کمی بیشی ہوتی ہے جس طرح اسٹاک ایکسچینج میں تیزی اور مندی کے رجحان کی خبریں آتی ہیں۔ گویا یہ بھی ایک فگر ہے جو ہر روز اخبارات کی زینت بنتی ہے اب آپ ہی بتائیں کہ ایسے حالات میں کسے معلوم ہے کہ وہ الیکشن والے دن زندہ بھی ہو گا یا نہیں۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک صورتحال ہے مگر احباب اقتدار سوائے رحمان ملک کی پیشگوئیوں کے مزید کچھ کرنے کیلئے تیار ہی نہیں۔ وزیر موصوف کی ہنگامی پیشگوئیوں نے عوام میں بے چینی پیدا کردی ہے اور وہ آنے والی غیریقینی حالات سے نمٹنے کے لئے کھانے پینے کی اشیاء کی ایڈوانس میں خریداری میں مصروف ہو گئے ہیں۔ ایک دوست نے بتایا کہ ان کے دفتر میں ملازموں نے ایڈوانس تنخواہ کی درخواست دی ہے اور وجہ یہ بتائی ہے کہ فروری کی آمد سے پہلے وہ کھانے پینے کی اشیاء وافر مقدار میں خریدنا چاہتے ہیں کیونکہ وزیر داخلہ کی پیشگوئی کے مطابق حالات خراب ہونے والے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محکمہ موسمیات بارش اور سیلاب کی خبریں پہلے سے دیکر عوام کو موسمی حالات سے نمٹنے کیلئے ذہنی طور پر تیار کردیتا ہے اور اس سلسلے میں تقریباً تمام ممالک میں موسم کی خبریں ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے ایڈوانس میں نشر کی جاتی ہیں لیکن چونکہ ہمارا ملک ہر حال میں دوسرے ممالک سے مختلف ہے لہٰذا ہماری حکومت نے دہشت گردی اور حالات کے خراب ہونے کی پیشگوئیوں کا سلسلہ شروع کر کے دنیا کے تمام ممالک سے اس معاملے میں سبقت حاصل کر لی ہے اور اب اگر دوسرا ملک کرے گا تو وہ ہماری تقلید یعنی کہ نقل کرے گا۔ ہم اول ہیں اور اس پر انعام کے حقدار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاء انفورسمنٹ ایجنسیوں کی دسترس خفیہ اطلاعات پر ہوتی ہے اور ان کی انٹلیجنس ہونے والی دہشت گردیوں کو بھانپ لیتی ہیں یا اس کی سن بن رکھتی ہے اور اس کے لئے حفاظتی اقدامات اور دہشت گردی کے انسداد کے لئے ایڈوانس میں اقدامات کرنا ان کے فرائض منصبی کا حصہ ہیں مگر کیا ایسی اطلاعات جو کہ خفیہ ہوتی ہیں اور خفیہ ذرائع سے ملتی ہیں انہیں ابلاغ عامہ کے ذریعے عوام میں پھیلانا ضروری ہے۔ یہ ایک قابل بحث موضوع ہے اور اس پر میڈیا میں بحث ہونی چاہئے اور طریقہ کار وضع کرنا چاہئے کہ عوام کو کس حد تک اور کن الفاظ میں ہوشیار کرنا چاہئے یا بالکل ہوشیار نہیں کرنا چاہئے اور حکومتی سطح پر خفیہ طریقے سے ہونے والی ممکنہ دہشت گردی کو روکنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ کرمنالوجی کا طالبعلم ہونے کی حیثیت سے میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس طرح کی اطلاع عام ہونے سے دہشت گرد گروپ بھی ہوشیار ہو جاتا ہے اور دو طرح سے ری ایکٹ کر سکتا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ وہ منصوبے کے آشکار ہونے کی وجہ سے منصوبے کو بدل دے اور دوسرا یہ کہ منصوبے کو موٴخر کر دے۔ ایک تیسری صورت یہ ہے کہ وہ اپنا طریقہ واردات ہی بدل دے۔ یہ ایک طویل بحث ہے اور یہ چھوٹا سا کالم اس بحث کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میں نے صرف سوچنے کے لئے مواد فراہم کیا ہے تاکہ ارباب اختیار یہ فیصلہ کریں کہ آیا آئندہ انہیں اس قسم کی خفیہ اطلاع عوام کے ساتھ شیئر کرنی ہے یا نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وزیر موصوف اپنے بیان سے عوام میں کوئی بے چینی یا گھبراہٹ پیدا کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ صرف ہوشیار کرنا چاہتے تھے مگر اس کا ری ایکشن الٹ ہو گیا اور لوگ گھبرا گئے۔ لوگوں کے گھبرانے کی بھی وجہ درست ہے کیونکہ کراچی کے حالات دن بدن غیرمحفوظ ہوتے جا رہے ہیں الیکٹرونک مارکیٹ کے تاجر اور سابق صدر عرفان احمد کی موت نے تاجر برادری کو دھچکا پہنچایا اور اس کا اثر ابھی تک الیکٹرونک مارکیٹ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ لوگ خود کو خوفزدہ اور غیرمحفوظ سمجھ رہے ہیں اور مارکیٹ میں بڑے بڑے بینر لگائے گئے ہیں جن پر دہشت گردی کی مذمت کی گئی ہے۔ ہر روز مذمتی بیانات شائع ہوتے ہیں مگر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ علماء پر حملے کی فوٹیج ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی ہے جس سے واردات کرنے والوں کی مہارت اور دیدہ دلیری صاف عیاں ہے عوام کی کمزوری اور بے حسی بھی نمایاں ہے۔ نہتے لوگ بے چارے کر بھی کیا سکتے ہیں؟ بقول غالب
رہئے اب ایسی جگہ چل کر، جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے در ودیوار سا، اک گھر بنانا چاہئے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
لگتا ہے کہ غالب کی بات ماننی پڑے گی اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو عقل سلیم دے اور ہمارے حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت عوام کی فلاح، مجرموں کی سرکوبی، لاء اینڈ آرڈر کی درستی اور عوام کے جان ومال کی حفاظت پر بھی خرچ کردیں۔ صرف ترقیاتی فنڈ خرچ نہ کریں۔ مزید ترقی کی گنجائش نہیں ہے جتنی ہو چکی ہے اتنی ہی کافی ہے۔ یہ فنڈ غریبوں کی بہبود پر خرچ کریں ۔ خسرہ سے مرنے والے غریب بچوں کی ادویات اور علاج پر خرچ کریں۔ عوام کے جان ومال کی حفاظت پر خرچ کریں اپنے اوپر کم خرچ کریں۔ بقول حبیب جالب #
نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو
حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا
تازہ ترین