سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وفاقی حکومت کی جانب سے علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت ملنے کے بعد سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف جمعہ کو علی الصباح دبئی روانہ ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی سابق مردآہن کے حوالے سے گفتگو کے کچھ باب بند اور تنقید کے کچھ نئے باب کھل گئے ہیں جن کا نشانہ برسراقتدار حکومت ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جمعرات کو اپنی پریس کانفرنس میں حکومتی فیصلے کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کا نام پونے دوسال سے ای سی ایل پر تھا۔ حکومت نے ہرعدالت میں ان کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کی مخالفت کی۔ سندھ ہائیکورٹ نے جب اس فہرست سے ان کا نام نکالنے کا فیصلہ دیا تو حکومت نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت عظمیٰ میں پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹس پیش کی گئیں اور انسانی بنیاد پر قانونی پہلو بھی سامنے لائے گئے۔ چنانچہ عدالت نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور حکومت کو اس بارے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا تو ہم نے عدالتی حکم کی روشنی میں غور اور مشاورت کے بعد پرویز مشرف کو علاج کے لئے باہر جانے کی اجازت دے دی۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کے اس فیصلے کے پیچھے کسی کا کوئی اثرورسوخ یا بیک چینل مشورہ شامل نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کو قبول کرنا چاہئے اور ہم نے بھی قبول کر لیا۔ وزیر داخلہ کے مطابق وکلا نے وعدہ کیا ہے کہ پرویز مشرف علاج کے بعد چھ ہفتے تک واپس آکر مقدمات کا سامنا کریں گے۔ ان کے خلاف آئین شکنی، غداری، ایمرجنسی کے نفاذ، ججوں کی گرفتاری اور ان کے اختیارات محدود کرنے سے متعلق کیس ہیں کچھ دوسرے مقدمات بھی ہیں جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ ان میں بے نظیربھٹو قتل کیس بھی ہے۔ پرویز مشرف کی ملک سے روانگی کے بعد پہلی منزل دبئی ہے جس کے بعد امکانی طور پر علاج کے لئے وہ امریکہ چلے جائیں گے کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق ان کے مرض کا شافی علاج وہیں دستیاب ہے۔ وکلا نے تو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ڈیڑھ ماہ تک واپس وطن آکر مقدمات کا سامنا کریں گے لیکن تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ وہ حالات اپنے حق میں بہتر ہونے تک واپس نہیں آئیں گے۔ سابق آمر کو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں عزت و احترام کے ساتھ باہر بھیجا گیا تھا لیکن ان کا خیال تھا کہ ملک کے عوام کی بھاری اکثریت ان کے ساتھ ہے اور ان کی واپسی کی منتظر ہے۔ اس لئے وہ بڑی امیدوں کے ساتھ واپس آگئے لیکن عوام نے توقع کے مطابق ان کی پذیرائی نہیں کی۔ اس کے ساتھ ہی عدالتوں میں ان کے خلاف غداری سمیت کئی سنگین مقدمات کھل گئے۔ ان مقدمات میں انہیں طلب کیا جانے لگا۔ گرفتاری کے قابل ضمانت اور ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہونے لگے لیکن وہ کسی بھی مقدمے میں پیش نہ ہوئے اور ہرموقع پر علالت کی بنیاد پر حاضری سے استثنا حاصل کرتے رہے۔ اس پر سیاسی قانونی اور عوامی حلقوں میں ان پر بڑی لے دے ہوئی اور حکومت پر اعتراضات اٹھائے جانے لگے کہ وہ سابق آمر کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔ اب جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں حکومت کو خود فیصلہ کرناپڑا تو اس نے معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ای سی ایل سے ان کا نام نکالنے کے عدالتی فیصلے کی پیروی میں انہیں علاج کے لئے باہر جانے کی اجازت دے دی۔ عدالت عظمیٰ کا حکم یہ بھی تھا کہ پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کا فیصلہ حکومت خود کرے۔ سارے کام سپریم کورٹ کے کندھے پر چڑھ کرنہ کروائے جائیں۔ حکومت نے اس اختیار کور پورے تدبر سے استعمال کیا۔ اس سے ایک طرف کچھ حلقوں میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک اچھے فیصلے کا تاثر قائم ہو گیا اور دوسری طرف سول ملٹری ریلیشن شپ کو بھی استحکام ملا۔ پرویز مشرف کو باہر نہ جانے دیا جاتا تو بھی حکومت تنقید کی زد میں رہتی اور اب جانے دیا گیا ہے تو بھی اس پر تنقید کے تیرے برسائے جائیں گے۔ یہ معاملہ ایسا ہے کہ اس کے مختلف پہلوئوں پر مدت تک سوالات اٹھائے جاتے رہیں گے۔
وزیراعظم کا ارکان اسمبلی کو صائب مشورہ
وزیراعظم نوازشریف نے جمعرات کو وزیراعظم ہائوس میں ملاقات کرنے والے اراکین اسمبلی پر زور دیاہے کہ وہ عوام کااعتماد حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام ترتوانائیاں خرچ کریں اور عوامی فلاحی منصوبوں کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ پیش آئے تواس کو فوری طور پر دورکرکے عوام کا معیار ِ زندگی بہتر بنانے کی جانب پیش رفت کی جائے۔ وزیراعظم نے اسلام آباد میں ارکان پارلیمینٹ سے جو گفتگو کی ہے اسی قسم کی باتیں انہوں نے مری میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھی کہی ہیں اور کہا ہے کہ ترقیاتی سکیمیں عوام کی زندگی بدلنے کے لئے کی جانی چاہئیں اور ان کے مفاد کو ترقیاتی منصوبوں میں ہر قیمت پر مدنظر رکھا جانا چاہئے۔ وزیراعظم نوازشریف نےاپنی حکومت کے ہر دور میں عوامی بہبود کے کاموں کی طرف خصوصی توجہ دی ہے اور خاص طور پر پورے ملک میں موٹرویز کا جال بچھانے اور مواصلاتی سہولتوں کو بہتر بنانے کا کام ان کی ترجیحات میں شامل رہاہے۔ اقتصادی راہداری کامنصوبہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ اسی تناظر میںانہوں نےارکان اسمبلی کو عوامی بہبود کے منصوبوں کی جلد تکمیل اور ان میں عوام کے معیارِزندگی کو بہتر بنانے کو ہر حالت میں پیش نظر رکھنے کا جو مشورہ دیا ہے وہ وقت کی آواز ہےلیکن عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ارکان اسمبلی ترقیاتی منصوبوں میں اپنی سیاسی ضروریات اور مفادات کو زیادہ ملحوظ خاطررکھتے ہیں اور عوامی مفاد پس منظر میں جاتا ہواہے دکھائی دیتا ہے۔ ان کی اصل توجہ انہی سہولتوں اور مراعات میں اضافے پر ہی مرکوز ہوتی ہے جس کی عکاسی اس تازہ ترین خبر سے بخوبی ہوسکتی ہے کہ ارکان پارلیمینٹ نےجمعرات کو قومی اسمبلی میں یہ مطالبہ کیا ہے کہ 70ہزار میں ان کاگزارہ نہیں ہوتا اس لئے ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں ۔اگر ارکان اسمبلی جن میں سرکاری اوراپوزیشن ارکان دونوں شامل ہیں ، کا مائنڈ سیٹ یہ ہوگا کہ وہ عوام کے تلخی ٔ حالات کو نظراندازکرکے محض اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لئے تمام اختلافات بھلا کر اکٹھا ہو جائیں گے تو وہ عوامی فلاح کے منصوبے کیسے بنائیں گے؟
سیلاب سے بچائو کا 10 سالہ قومی منصوبہ
اس حقیقت سے کوئی بھی باشعور پاکستانی انکار نہیں کرسکتا کہ وطن عزیز میں ہر سال ہونے والی شدید بارشوں اورسیلابوں سے آنے والی تباہی اربوں روپے کی فصلوں کو بربادکرنے اور دریائوں کے کناروں پر آبادلاکھوں افراد کو بے خانماں کرنےکے علاوہ ان کی جمع شدہ پونجی کو بھی بربادکرکے رکھ دیتی ہے ۔اس ہمہ جہت بربادی کے دو بڑے اسباب ہیں ایک یہ کہ ہمارے ہاں سیلابوں سے نمٹنے کے لئے کوئی ٹھوس اور طویل منصوبہ بندی تو درکنار اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں گیا۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جن میں دریا ایسی ہی بربادی پھیلایا کرتے تھے لیکن انہوں نےاس سے نمٹنے کے لئے دریائوں کی تہہ میں بچھ جانے والی مٹی کو نکال کر ان کو اتنا گہرا اور ان کے کناروں پر جنگلات اُگا کر انہیں اتنا مضبوط کردیا کہ اب یہی دریا ان کی زمینوں کو سرسبز و شاداب رکھ کر ان کی زرعی معیشت میں ایک انقلاب برپا کر رہے ہیں ۔اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے دوست ملک چین کی ہے۔ ہمارے پاس دریائوں کوگہرا کرنے کے لئے جدید مشینری تو موجودنہیںلیکن جو کچھ موجود ہے اس سے بھی بڑا کام لیاجاسکتاہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ہر سال اربوں روپے دریائوں کے پشتوں کو مضبوط بنانے کے لئے مختص کئے جانے کے باوجود بیوروکریسی اس بجٹ کا بیشتر حصہ ضائع کردتی ہے اور محض خانہ پری کے لئے تھوڑا بہت کام کر دیاجاتا ہے۔ ان حالات میں وزارت بجلی و پانی اور فلڈ کمیشن اور عالمی بنک کے تعاون سے 177 ارب روپے کی خطیر رقم سے ملک کو سیلابوں سےبچانے کے لئے 10 سالہ قومی منصوبہ اس حوالے سے ایک عمدہ پیش رفت ہے اور اگراس پر اس کی روح کے مطابق عمل کیاگیا تو 2024-25 تک سیلاب کی تباہ کاریوں کو بڑی حد تک کم کیاجاسکے گا اور عوام سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوط ہوجائیں گے۔
SMS: #JEC (space) message & send to 8001