• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ 60فیصد اسرائیلی فوجیوں نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فوجی خدمات انجام دینے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے ایک پٹیشن تیار کی ہے جس میں اپنے فیصلے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اسرائیلی فوج فلسطینی عوام سے زیادتیاں اور توہین آمیز سلوک کر رہی ہے۔ اخبار کے مطابق ستمبر 2013میں فلسطینیوں کی تحریکِ انتفادہ دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 600اسرائیلی فوجی فلسطینی علاقوں میں جانے سے انکار کر چکے ہیں جبکہ ان میں سے 40فوجیوں کو سزا بھی دی گئی ہے۔

میرے حساب سے یہودی ریاست اسرائیل میں مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں اور صہیونی سیاست کے حامل افراد میں عربوں سے تعلقات کے مسئلہ پر سخت نظریاتی اختلافات ہیں اور یہی عقائد کے حامل یہودیوں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ جو ناانصافیاں ہو رہی ہیں اور ان پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں وہ قطعی مناسب نہیں ہیں۔ کثیر عرب آبادی کے درمیان رہ کر ان کو اپنا مخالف بنا لینا درست نہیں۔ ان کا یہ کہنا بھی معقولیت پر مبنی ہے کہ عرب ہمیشہ کمزور اور باہمی اختلافات کا شکار نہیں رہیں گے، اگر وہ متحد اور مضبوط ہو جائیں تو اسرائیل کا کیا حشر ہوگا؟ لیکن صہیونی سیاست جس کے پاس فوجی قوت اور حکومت کی طاقت ہے، میں مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں کی آواز موثر نہیں، اس کے باوجود مذہبی عقائد کے حامل یہودی(اور اب فوجی جوان بھی) اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، یہاں تک کے فلسطینیوں کی تائید میں جو جلوس نکالے جاتے ہیں، ان میں یہودی مذہبی رہنما(ربی) بھی شریک ہوتے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ صہیونیت نہ صرف اسرائیل کیلئے بلکہ یہودیوں کیلئے بھی خطرناک ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ صہیونی سخت نسل پرست ہیں، دنیا کی غیر یہودی آبادی سے انہیں ذرہ برابر بھی ہمدردی نہیں۔ امریکی اور عرب ان کی نظروں میں برابر ہیں۔ بارہ سو سال کی تاریخ میں ہر قوم اور ہر ملک نے یہودیوں کے ساتھ ناانصافیاں روا رکھیں اور ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے لیکن مسلمانوں کی پوری تاریخ میں کسی وقت بھی یہودیوں کے ساتھ کوئی انصافی نہیں ہوئی اور نہ کبھی یہودیوں کو شکایت کا موقع ملا۔ یہودیوں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات کبھی بھی کشیدہ نہیں رہے، جب بھی کسی ملک میں بالخصوص عیسائی مملکت میں ان کے ساتھ ناانصافیاں حد سے بڑھ جاتیں تو وہ اسلامی ملکوں اور شہروں میں پناہ لیتے۔ آج اپنے اغراض کے تحت انہوں نے امریکی پشت پناہی حاصل کی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ دل سے ان کے دوست ہوں۔ صہیونی لابی یہ جانتی ہے کہ وہ تنہا عربوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور عربوں کے بڑھتے ہوئے جذبات اور عالم اسلام کی صہیونیت سے بڑھتی ہوئی نفرت کی تاب نہیں لا سکتی اس لئے امریکہ جیسی سپر پاور کی بھر پور تائید حاصل کرنا اس کے لئے ناگزیر ہے۔ صہیونی ادارے یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس سے دگنی تیزی سے وہ ان کی نفرت کا شکار ہو رہے ہیں۔ صرف مقبوضہ فلسطین کی مجموعی آبادی میں فلسطینیوں کی افزائشِ نسل کی شرح تقریباً ساڑھے پانچ فیصد ہے، آبادی میں اضافے کی رفتار اگر ایسی ہی رہے تو 2020میں مقبوضہ فلسطین کی مجموعی آبادی میں فلسطینیوں کی آبادی کا تناسب 58فیصد ہو جائے گا۔ اس بات کا انکشاف اسرائیلی یونیورسٹی کے ایک سروے میں کیا گیا ہے، اسی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ فلسطین کی سرزمین پر فلسطینیوں کی آبادی 18سالوں میں 13لاکھ سے بڑھ کر 24لاکھ ہو جائے گی جبکہ مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں ان کی آبادی 30لاکھ سے بڑھ کر 56لاکھ ہو جائے گی۔

اس سروے کی وجہ سے جہاں ایک طرف اسرائیل کی صہیونی لابی مستقبل میں فلسطین میں ’’آبادیاتی مہم‘‘ سے شدید خطرات محسوس کر رہی ہے، وہیں یورپ میں یہودیوں کی تعداد میں کمی اور مسلمانوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کے باعث یورپ کے یہودیوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مسلمانوں کی بڑھتی تعداد سے متعلق بین الاقوامی یہودی کانگریس نے اپنی ایک ریورٹ میں ’’یورپ میں اسلام کا فروغ‘‘ کے نام سے ایک سروے کیا، اس رپورٹ میں یہودی کانگریس نے لکھا ہے کہ بیسویں صدی کے آخر میں مسلمانوں کے احوال و کوائف میں غیر معمولی ’’آبادیاتی انقلاب‘‘ رونما ہوا ہے۔ اسی رپورٹ میں آگے چل کر کہا گیا کہ ’’آج کل یورپ میں مذہب اسلام کو زبردست فروغ حاصل ہو رہا ہے چنانچہ یورپی یونین میں شامل ممالک میں ڈھائی کروڑ افراد ایسے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں‘‘۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حالیہ عرصہ میں یورپ کے مسلمان نمایاں حد تک سیاسی طاقت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ یورپی ممالک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے لاحق ہونیوالے خطرات کے ثبوت میں یہودی عالمی کانگریس نے دو مثالیں پیش کی ہیں، پہلی مثال برطانیہ کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 1961میں مسلمانوں کی تعداد 82ہزار تھی اور اب ان کی تعداد 50لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ دوسری مثال فرانس کی ہے۔ فرانس میں اس وقت بسنے والے مسلمانوں کی تعداد 68لاکھ ہے جبکہ غیر قانونی طور پر لاکھوں مسلمان تارکین وطن وہاں مقیم ہیں۔

تازہ ترین