• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی نے امریکہ کے ساتھ ساتھ روس سے بھی بڑے گہرے قریبی روابط قائم کیے ہوئے ہیں۔ تاریخ میں اس سے قبل کبھی ترکی اور روس کے تعلقات میں اتنی قربت نہیں دیکھی گئی ۔ ترکی واحد اسلامی ملک تھا جو امریکی اتحاد ’’نیٹو‘‘ کا بھی رکن تھا اور آج بھی نیٹو میں اپنی رکنیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ترکی نیٹو میں امریکی قوتوں کے بعد سب سے زیادہ فوجی قوت رکھنے والے ملک ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیٹو کے اتحاد میں شامل دیگر رکن ممالک ترکی کے نیٹو پر اثرو رسوخ کی وجہ سے حسد محسوس کرتے ہیں۔ ترکی پچاس کی دہائی کے بعد ہمیشہ ہی سے امریکی بلاک میں شامل رہا ہے چاہے یہاں پر سوشلسٹ اور بائیں بازو کی حکومتیں ہی کیوں نہ برسر اقتدار رہی ہوں ۔ ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں اس وقت سرد مہری آنا شروع ہوئی جب 15جولائی 2016ء میں دہشت گرد تنظیم ’’فیتو‘‘ نے ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی ۔ ترکی اس ناکام بغاوت کے پیچھے امریکی خفیہ سروس ’’سی آئی اے‘‘ کا ہاتھ ہونے اور ’’فیتو‘‘ کے سرغنہ ’’ فتح اللہ گولن‘‘ کی پشت پناہی کرنے پر یقین رکھتا ہے اور اس نے اس سلسلے تمام شواہد امریکی حکام کے حوالے بھی کیے لیکن امریکہ کی جانب سے شواہد پر کان نہ دھرنے اور فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کے مطالبے کی کوئی پذیرائی نہ ہونے اور پھر سابق صدر اوباما کے دور میں امریکہ کی جانب سے ترکی کی دہشت گرد تنظیموں’’ پی کے کے، وائی پی جی، پی وائی ڈی‘‘ کی شام کی سرحدی حدود کے اندر ٹریننگ دینے پر ان تعلقات پر کاری ضرب لگی۔ اگرچہ اسی دوران شام میں بشار الاسد انتظامیہ کی خواہش پر روس نے شام میں اپنے فوجی دستے اور فوجی سازو سامان بہم پہنچانا شروع کردیا جس سے علاقے کی صورتِ حال تبدیل ہو کر رہ گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ترکی نےامریکہ کی جانب سے فراہم کردہ غلط اطلاع پر روس کے جنگی طیارے کو مارگرایا جس سے ترکی اور روس کے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے اور روس نے ترکی کی برآمدات پر پابندیاں عائد کردیں۔امریکہ اس دور میں ترکی کو اگرچہ روس سے دور کرنے میں کامیاب رہا تاہم جیسے ہی ترکی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو ترکی نے روس سے معذرت کی جسے روس نے قبول کرلیا اور یوں یہ دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو بھلاتے ہوئے ایسے شیر و شکر ہوئے کہ ان تعلقات نے امریکہ اور ترکی کی گرمجوشی کو بہت پیچھے چھوڑدیا۔ ترکی نے اسی دوران شام کی سرحدوں پر جاری کشیدگی اور حملوں کی وجہ سے امریکہ سے پیٹریاٹ میزائل حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن امریکہ ترکی کو میزائل فروخت کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لیتا رہا اور کئی شرائط لگائیں۔ اسی دوران ترکی اورنیٹو کے چند ممالک نے امریکہ کے ساتھ ایف35جنگی طیاروں کی مشترکہ پروڈکشن کے سمجھوتے پر دستخط بھی کردیے اور امریکہ کو ڈیڑھ بلین ڈالر کی پیشگی ادائیگی بھی کردی ۔

اسی ٹریننگ اور مشترکہ پروڈکشن کے دوران روس کے ساتھ طے پانے والے ایس -400 دفاعی میزائلوں کے سمجھوتے کی رو سے ترکی کو گزشتہ ہفتے ہی امریکہ کی شدید مخالفت کے باوجود روسی ساخت کے ایس -400 فضائی دفاعی میزائل نظام کے پرزہ جات وصول ہونا شروع ہوگئے ہیں جس پر امریکہ اور ترکی کے تعلقات کشیدگی کا روپ اختیار کرگئے ہیں ۔ امریکہ ترکی کو ایف 35 طیاروں کی ترسیل روکنے کی دھمکی بھی دے چکا ہے ۔ امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ ایف-35طیارے اور روسی ساخت کے ایس-400میزائلوں کو ایک ہی مقام پر رکھنے کی صورت میں روسی دفاعی ماہرین کو امریکی طیاروں کی تمام خامیوں اور خو بیوں سے آگاہی حاصل ہو جائے گی کیونکہ یہ پہلا موقع ہے نیٹو کےکسی بھی رکن ملک کی جانب سے روسی ساخت کے ہتھیاروں کی خریداری کی گئی ہے۔ ترکی ایس-400دفاعی میزائل سسٹم کے باآسانی گاڑیوں کے ذریعے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل کرنے اور ایک ہی وقت میں متعدد میزائلوں کو لانچ کرنے اور اس سسٹم کے ذریعے کروز میزائل، بیلسٹک میزائل اور ڈرون طیاروں کو تباہ کر نے کی صلاحیت کی وجہ سے اس نظام کو ملکی دفاع کے لیے ضروری تصور کرتا ہے ۔ وہ یہ میزائل آئندہ ملک میں سی آئی اے کی پشت پناہی میں حکومت کا تختہ الٹنےکی کسی بھی کوشش سے بچنے کیلئے بھی خرید رہا ہےکیونکہ ترکی کا خیال ہے کہ جب تک دہشت گرد تنظیم ’’فیتو‘‘کا سرغنہ ’’ فتح اللہ گولن‘‘ امریکہ میں مقیم ہے حکومتِ ترکی کا تختہ الٹنے کی پھر سے کوشش کی جاسکتی ہے اور روسی ساخت کے یہ میزائل ایف -16طیاروں کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں جنہوں نے اس سے15جولائی 2016ء کو صدر ایردوان کے طیارے کو مار گرانے کی کوشش کی تھی۔ صدر ایردوان ایس-400 میزائلوں کے پرزہ جات کی کھیپ کی وصولی پر اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ ’’ ترکی کا روس سے ایس -400 دفاعی میزائل لینے کا مقصد علاقے میں امن کا قیام اور قومی سلامتی کو تحفظ فراہم کرنا ہےنہ کہ ایس -400 دفاعی میزائل حاصل کرتے ہوئے جنگی تیاری کرنا ۔ ترکی اپنی دفاعی صنعت کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھے گا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس سال کے اواخر تک دفاعی میزائلوں کے کچھ حصوں کو حاصل کر لیا جائے گا جبکہ اپریل 2020ء تک ایس- 400میزائلوں کی ترسیل کے کام کو مکمل کرکےترک مسلح افواج کی نگرانی میں دے دیا جائے گا۔ صدر ایردوان کو اس بات کا بھی مکمل طور پر یقین ہے کہ امریکہ ترکی کو ایف- 35 کے جنگی طیاروں کی ترسیل نہیں روکے گا کیونکہ ابھی تک امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے کسی منفی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا گیاکیونکہ جاپان کے شہر اوساکا میں وہ صدر ٹرمپ سے مل چکے ہیں اور آئندہ بھی جلد ملاقات کی توقع رکھتے ہیں ۔ صدر ایردوان نے پیٹریاٹ میزائلوں کی خریداری کے بارے میں بھی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے امریکی شرائط کو نرم کرنے کی صورت میں اس پر غور کرنے سے بھی آگاہ کیا۔

تازہ ترین