انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے کلبھوشن کیس میں اب یہ وضاحت کردی ہے کہ جاسوسی اور دہشت گردی کے الزام میں پکڑے جانے والے افراد کو بھی ویانا کنونشن کے تحت قونصلر رسائی کا حق حاصل ہوگا اور اس میں کوئی باہمی یا دو طرفہ معاہدہ حارج نہیں ہوگا۔
یہ فیصلہ بنیادی طور پر ترقی یافتہ دنیا کیلئے صرف ایک قانونی وضاحت ہے۔ جبکہ ہم جیسے اُن ترقی پذیر ممالک کیلئے تشویش کا سبب ہو گا جو ایک دوسرے سے کسی بھی سطح پر مسلسل برسر پیکار ہیں اور اس کیلئے ٹیکنالوجی کی بجائے انسانی وسائل کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔
ان ممالک کیلئے اب یہ زیادہ ضروری ہوگا کہ وہ اپنے ہاں ایسے قابل اذہان تلاش کریں جو اپنے قومی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کا درست ادراک بھی رکھتے ہوں۔ اس سے مستقبل میں اس مالی نقصان سے بچت ہوگی، جس کی مقدار نسلوں کی ترقی کا عمل روک سکتی ہے۔
17 جولائی کے عالمی عدالت کے فیصلے کے سود و زیاں کے حساب کتاب کو کہانی کی شکل میں اگر میں اپنے قارئین کے سامنے رکھوں تو اس کی ترتیب کچھ یوں ہوگی کہ پاکستان نے کلبھوشن نامی جاسوس پکڑا، اس سے تفتیش شروع کردی، اس کے بارے میں بھارت سے احتجاج کیا اور اسے ملٹری کورٹ جو کہ اس کے اندرونی قانون کے مطابق ایک مناسب فورم ہے کے تحت پیش کردہ شواہد اور ملزم کے اقبالی بیان کو سامنے رکھتے ہوئے سزائے موت سنا دی۔
بھارت اس فیصلے کو لیکر اقوام متحدہ کے تحت قائم عالمی عدالت انصاف میں چلا گیا۔ اس نے استدعا کی کہ اس کا ایک شہری گرفتار ہوگیا ہے۔ پاکستان اسے پھانسی دینا چاہتا ہے۔ کورٹ اس کی پھانسی کی سزا فوراً رکوائے۔ کیونکہ اس عدالت کو اختیار سماعت کا یہ حق ویانا کنونشن کا آرٹیکل 1 کا آپشنل پروٹوکول دیتا ہے، عدالت نے سزائے موت رکوادی۔ اختیار سماعت کے بعد اگلا مرحلہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کا تھا۔ پاکستان نے کہا کہ یہ درخواست قابل سماعت نہیں۔ پاکستان نے اس پر تین اعتراضات کئے۔ عدالت نے تینوں کو رد کردیا۔
سماعت کا بنیادی قانون کون سا ہوگا؟ بھارت نے کہا کہ عدالت کو اختیار سماعت ویانا کنونشن کا آرٹیکل 36 دیتا ہے۔ پاکستان نے کہا کہ اس قانون کے تحت سماعت کرنے میں اس کا 2008 کا دوطرفہ معاہدہ رکاوٹ ہے۔ اس باہمی معاہدے کے تحت جاسوسوں کو قونصلر رسائی کا حق حاصل نہیں۔ عدالت نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ"بین الاقوامی قانون کو کسی بھی دو طرفہ معاہدے پر برتری حاصل ہے"۔
بھارت نے اعتراض اُٹھایا کہ پاکستان نے فوری طور پر کلبھوشن کو اس کے قانونی حقوق سے آگاہ نہیں کیا۔ یہ آرٹیکل 36 کے تحت غلط ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس اعتراض پر پاکستان نے کوئی جواب نہ دیکر تسلیم کر لیا۔ بھارت نے کہا کہ اس کا شہری گرفتار ہوا۔ اسے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اسی قانون کے تحت بطور ملک اس کا حق متاثر ہوا۔ عدالت نے کہا درست، کیونکہ پاکستان نے مطلع کرنے میں تین ہفتے کی تاخیر کی۔
بھارت نے کہا کہ اس کے بعد کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہیں دی گئی۔ یہ آرٹیکل 36 کے پیراگراف1 (a) اور c کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے تسلیم کرتے ہوئے پاکستان سے کہا کہ "کلبھوشن جادیو کو قونصلر رسائی فراہم کی جائے، اسے آرٹیکل 36 کے تحت اس کے حقوق سے آگاہی دیتے ہوئے اپنے قانونی دفاع کا موقع دے، اسے دی گئی سزا کا دوبارہ سے جائزہ لے اور دوبارہ مقدمے کے پراسس کے دوران آرٹیکل 36 کے اندر دی گئی حدود کا خیال رکھے۔
پاکستان نے جوابًا آگاہ کیا کہ ہم نے ملزم کو دو پاسپورٹس سمیت پکڑا، اور بھارت سے کہا کہ تفتیش میں تعاون کرے۔ تاہم اس نے انکار کردیا تھا۔ بھارت نے کہا کہ کلبھوشن کو سزا ملٹری کورٹ سے ہوئی ہے۔ اس نظام پر اعتبار نہیں۔ یہ ملزم کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ فوجی عدالت کی سزا کالعدم کرکے اسے پاکستان کی قید سے رہائی دلاکر باحفاظت بھارت پہنچایا جائے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم یہ مقدمہ سول عدالت میں چلایا جائے۔
بھارت کی استدعا کہ مقدمہ ختم کرکے فیصلہ انٹرنیشنل کنونشن آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس کے آرٹیکل 14 کے تحت پاکستان کے خلاف کیا جائے پر عدالت نے کہا کہ اس کا دائرہ اختیار صرف قانون کی تشریح تک ہے جو اس نے اس مقدمے کو تسلیم کرکے کردیا ہے۔ بھارت ان معاملات کو اب پاکستان کے ساتھ اُٹھائے۔ اور رحم کی اپیلوں کا انتظار کرے جو کلبھوشن نے چیف آف آرمی اسٹاف سے کر رکھی ہے۔ یا جو اس کی والدہ پاکستان کی وفاقی حکومت سے سیکشن 131 اور اپیل کے قانوں کے سیکشن 133 B کے تحت دائر کرنے جارہی ہیں۔
عدالت نے آبزرویشن دی کہ اس کے سامنے ایسی کوئی شہادت نہیں کہ ان اپیلوں کا فیصلہ یا دوبارہ اپیل کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل نے یقین دلایا ہے کہ آئین پاکستان فرد کے قانونی حق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی سول عدالتیں ملٹری کورٹ کی جانب سے دی گئیں سزاؤں پر نظرثانی کا حق بھی رکھتی ہیں۔ اس لئے کلبھوشن جادیو وہیں اپنا قانونی دفاع کرے۔ اس تناظر میں عدالت نے پاکستان کیلئے حکم جاری کیا کہ عدالتی نظر ثانی کے عمل کے دوران کلبھوشن جادیو کو فوجی عدالت کی جانب سے سنائی گئی پھانسی کی سزا نہیں دی جائے گی۔
یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ اس تمام فیصلے میں کل 16 میں سے 15 جج ہر نکتے پر ایک طرف اور پاکستان کی جانب سے نامزد کیے گئے ایڈہاک جج تصدق حسین جیلانی دوسری طرف تھے۔
ایک اور مشاہدے میں اپنے قارئین کو شریک کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کے راوی میرے ایک عزیز پاکستانی صحافی دوست ہیں۔
انہوں نے کہا کہ’’ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے اندر اور باہر رپورٹنگ کرتے ہوئے صحافی نہیں بلکہ اپنے اپنے ملک کے فوجی تھے‘‘
انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ پاکستانی صحافی اپنے کام میں ان سے زیادہ آزاد ہیں’’ جن کی صحافت جمہوریت کے تسلسل میں پروان چڑھی ہے‘‘۔ اُ س معاشرے کی کیا کم قسمتی ہوگی جو جمہوریت کے عالمی افق پر چمکنے کیلئے قوم پرستی کی تاریک کوٹھڑی میں داخل ہوجائے۔