• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ قریباً پندرہ سال پہلے کا واقعہ ہے لیکن مجھے بھولتا نہیں ہے، فون کی گھنٹی بجی میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف ایک نوجوان تھا”سر میرا نام افضال ہے، میں بی اے کا طالبعلم ہوں اور اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے ہاکر کا کام کرتا ہوں، میں اس وقت سخت پریشان ہوں، غم اور غصے کی شدت سے میرے دماغ کی نسیں پھٹنے والی ہیں، آپ میری مدد کریں“۔
اگرچہ نوجوان میرے لئے اجنبی تھا لیکن انسانی ہمدردی کے ناطے مجھے اس کی حالت سے سخت تشویش لاحق ہوئی۔
”کیا بات ہے بیٹے ،میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں“ میں نے پوچھا۔”سر مجھے بتاتے ہوئے شرم آرہی ہے لیکن آپ کو یہ سب کچھ بتانا بھی ضروری ہے نہیں تو میں پاگل ہوجاؤنگا“۔
”میں تمہارا دوست ہوں، تم بغیر کسی جھجک کے مجھے ساری بات بتاؤ“ میں نے اسے تسلی دی۔
”سر بات یہ ہے کہ آج میں نے ٹی وی آن کیا تو سی این این پر ایک انگریزی فلم چل رہی تھی اس وقت میرے پاس میری بہن ،میری والدہ اور میرے والد صاحب بیٹھے تھے، پھر یوں ہوا کہ اچانک ایک عریاں سین چلنا شروع ہوگیا، اس قدر واہیات کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے“
ٹیلی وژن پر دکھائی جانے والی فلم میں عریاں سین؟ وہ بھی پی ٹی وی پر، یہ کیسے ممکن ہے؟
”سر مجھے اس بات کا تو صدمہ ہے، پھر اس نے سین کی جو تفصیلی بتائی اس کے مطابق یہ کوئی نارمل فلم نہیں، بلیو فلم تھی!
”میرے لئے تمہاری بات پر یقین کرنا ممکن نہیں ہے بیٹے، ایسا ہو نہیں سکتا“
”سر میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گا، یہ فلم آج رات کو ڈیڑھ بجے دوبارہ دکھائی جائے گی، آپ ضروری دیکھیں اور اسکے خلاف کالم لکھیں، سر!میں ٹیلی وژن سٹیشن کو بم سے ا ڑادینا چاہتا ہوں، سر اگر آپ نے اس فلم کے خلاف اپنے کالم میں ا حتجاج نہ کیا تو میں اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہناؤں گا“
میں اس نوجوان کی باتوں سے پریشان ہوگیا تھا، تاہم میں نے کہا”میں فلم دیکھنے کے بعد ہی اس فلم کے بارے میں کوئی رائے دے سکتا ہوں“ میں رات کو کافی دیر سے سونے کا عادی ہوں مگر اتفاق سے اس روز مجھے بارہ بجے ہی نیند آگئی اور میں سو گیا، مجھے یاد ہی نہ رہا کہ میں نے اس نوجوان سے فلم دیکھنے کا وعدہ کیا تھا“
رات کو ٹھیک سوا ایک بجے فون کی گھنٹی بجی، میں آنکھیں ملتا ہوا فون کے پاس گیا، دوسری طرف وہی نوجوان تھا”سر تھوڑی دیر بعد فلم چلنے والی ہے، آپ ضرور دیکھیں اور پھر اس پر کالم لکھیں، اگر آپ نے اس سلسلے میں کچھ نہ کیا تو میں خواہ کچھ ہی ہوجائے ٹی وی سٹیشن کو بم سے اڑادوں گا، سر! میں اس سے پہلے ایک سینما میں دھماکا کرچکا ہوں، لہٰذا آپ میری بات کو دھمکی نہ سمجھیں۔ اب فحاشی کی وباء ٹی وی تک آپہنچی ہے، ہم سب کو یہ سلسلہ یہیں تک روکنا ہوگا سر!“مجھے اس نوجوان کی ذہنی حالت پر مزید تشویش محسوس ہوئی۔ میں ٹی وی لاؤنج میں آیا اور ٹی وی آن کرکے صوفے پر بیٹھ گیا۔
یہ جیمز بانڈ ٹائپ فلم تھی میں جب آدھی کے قریب فلم دیکھ چکا تو میں نے محسوس کیا کہ اس میں تو سرے سے کوئی قابل اعتراض منظر نہیں ہے بلکہ جو مناظر سینما میں دکھائے جاتے ہیں یہاں ٹی وی کی پالیسی کے مطابق وہ منظر بھی حذف کردئیے گئے تھے۔ مجھے اس نوجوان پر سخت غصہ آیا کہ اس نے میرے ساتھ مذاق کیا تھا۔ دوسرے ہی لمحے مجھے اس کے لہجے کی سنگینی یاد آئی اور میں سوچ میں پڑگیا کہ آخرمعاملہ کیا ہے؟
اتنے میں ایک دفعہ پھر فون کی گھنٹی بجی، یہ وہی نوجوان تھا”سر آپ مجھے کوس رہے ہوں گے کہ اس فلم میں تو ایسی ویسی کوئی بات نہیں لیکن وہ سین اب آنے والا ہے فلم کی ہیروئن ابھی غسل خانے میں داخل ہوگی ا ور بالکل برہنہ حالت میں غسل کرے گی آپ پلیز ٹی وی بند نہ کریں صرف یہ سین دیکھ لیں تاکہ آپ کو یقین آجائے کہ میں نے جو کہا تھا سچ کہا تھا“
”میں نے ایک دفعہ پھر ٹی وی پر اپنی نظریں گاڑھ دیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ سین آگیا، فلم کی ہیروئن مکمل لباس میں ملبوس غسل خانے میں داخل ہوتی ہے اور غسل خانے کا دروازہ بند کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سین یہاں ختم ہوجاتا ہے اور پھر اس سے اگلا کوئی سین چلنے لگتا ہے۔
میں نے سوچا اگر یہ نوجوان مجھے اس وقت مل جائے تو میں اس کی گردن دبادوں جس نے میری نیند خراب کی اور میرے ساتھ اتنا بدمزہ مذاق کیا۔
”میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی ”سر آپ نے دیکھا کہ کس قدر شرمناک تھا؟ کیا ٹی وی حکام کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں، کیا نوجوانوں کے اخلاق پر اسی طرح ڈاکہ ڈالا جاتا رہے گا، کیا فحاشی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا؟“ اور پھر یہ سب کچھ کہتے کہتے اس نوجوان کی آواز بھرا گئی،”سر کچھ کریں خدا کے لئے کچھ کریں“۔
تھوڑی دیر پہلے مجھے اس نوجوان پر جو غصہ آیا تھا وہ ایک دم ختم ہوگیا اور مجھے ایک بار پھر اس کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوگئی۔ میں نے کہا”بیٹے تم نے جس سین کی بابت مجھے بتایا تھا، وہ تو اس میں تھا ہی نہیں؟ تم کس بات پر اتنے پریشان ہو رہے ہو؟“
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سر، میں نے ابھی ابھی وہ سین خود دیکھا ہے آپ کو نظر نہیں آیا؟“ اس کے لہجے میں شدید حیرت تھی۔
”نہیں بیٹے مجھے صرف وہی سین نظر آیا جو فلم میں تھا“ ،”تو کیا میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہوں سر“ وہ سخت پریشان لگ رہا تھا!
میں اس نوجوان کا مسئلہ سمجھ گیا تھا، تم غلط بیانی سے کام نہیں لے رہے بیٹے ،مجھے وہ سین نظر آیا جو فلم میں تھا اور تمہیں وہ سین نظر آیا جو تم دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ سین پہلے تم نے لاشعوری طور پر ذہن میں سوچا اور پھر تمہاری آنکھوں نے اسے دیکھا۔ نفسیات کی زبان میں اسے ہیلو سی نیشن کہتے ہیں“
”تو کیا میں نفسیاتی مریض ہوں سر“ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔ ہاں مگر تم اکیلے نہیں ہو! ہماری پوری قوم مختلف محرومیوں کی وجہ سے شدید نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوچکی ہے،ہمیں ہر تصویر وہی تصویر نظر آتی ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، ہمارے رویوں میں منافقت آگئی ہے، ہم اکیلے میں کچھ اور ہوتے ہیں اور ایک دوسرے شخص کی موجودگی میں کچھ اور۔ ہم میں سے ہر شخص نہایت اعلیٰ درجے کی اخلاقی گفتگو کرتا ہے لیکن جتنے ہولناک جنسی جرائم ہمارے ا س اخلاقی معاشرے میں ہوتے ہیں، وہ اخلاق باختہ معاشروں میں بھی نہیں ہوتے۔ میں تمہاری ذہنی حالت سے واقف ہوں، یہ تشویشناک ضرور ہے لیکن اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ تمہاری حالت اس شخص کی سی ہے جو کئی دنوں سے بھوکا ہو اور اس کے چاروں طرف بھوک بڑھانے والے کھانوں کی خوشبو پھیلی ہو“ ۔
”میں تو آپ کی باتوں سے پریشان ہوگیا ہوں سر، کیا اس فلم میں وہ سین واقعی نہیں تھا، مجھے مشورہ دیں سر! مجھے کیا کرنا چاہئے؟“
”تمہیں یہ نظام تبدیل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے جس میں بچیاں جہیز کی وجہ سے اور بچے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے انتظار میں جوانی کی حدیں بغیر جیون ساتھی کے عبور کرجاتے ہیں اور پھر اس دور کی محرومیاں شادی کے بعد بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں اور سوچوں میں زہر گھولتی رہتی ہیں“۔
جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہوتا ،اس وقت تک میں کیا کروں سر؟“ نوجوان نے روہانسی آواز میں پوچھا جب مجھے اس کے سوال کا کوئی جواب نہ سوجھا تو میں نے کہا”تزکیہ نفس کے لئے کوئی وظیفہ وغیرہ کیا کرو میرے بیٹے” اور پھر میں نے فون بند کردیا اس کے بعد دیر تک فون کی گھنٹی بجتی رہی مگر میں اپنے کانوں میں روئی دے کر بستر پر جاکر لیٹ گیا اور بے چینی سے کروٹیں بدلنے لگا!
تازہ ترین