• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:روبینہ خان…مانچسٹر
The Louvreمیوزیم فرانس کے باہر احتجاجی مظاہرہ ہو رہا تھا، مظاہرین کا کہنا تھا کہ میوزیم کی دیواروں پر سے اس فیملی کا نام ہٹایا جائے کیونکہ جس خاندان کی دوا ساز کمپنی میں ایسی pain killer گولیاں بنائی جاتی ہیں جن کے لوگ عادی ہو جاتے ہیں مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس طریقے سے بنائی ہوئی دولت سے میوزیم کی دیواروں پر تشہیر ،غیر اخلاقی ہے ۔گو دنیا بھر میں دولت مند طبقہ اپنی آمدنی کا کچھ حصہ ڈونیشن کیلئے مختص کرتا ہے اور اس کے عوض اس کا نام نمایاں جگہوں پر کندہ کردیا جاتا ہے۔جب کہ میوزیم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مذکورہ خاندان نے بیس سال سال قبل آخری ڈونیشن دی تھی لہٰذا ناموں کو ری نیم کرنا پالیسی کا حصہ ہے۔ یہ لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے ہوا یا اس میں پالیسی کا عمل دخل تھا،بہرحال مقصد پورا ہوگیا ایک احتجاج مشہور زمانہ کمپنی کے ورکرز بھی کر رہے ہیں ہیں عام کسٹمرز کو پرائم ڈے پر ڈیل کا انتظار ہوتا ہے لیکن اس موقع کو ملازمین اپنے مطالبات منوانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں ۔وہ نہ صرف اجرت میں اضافہ چاہتے ہیں بلکہcompensation بھی مانگ رہے ہیں ۔احتجاجی گروپس کا کہنا ہے کہ ان کو ایک گھنٹہ میں 600پیکٹس کو ہینڈل کرنا ہوتا ہے۔ کام کے بوجھ تلے ان کو دباؤ کا سامنا رہتا ہے اور چوٹیں بھی لگ جاتی ہیں۔جبکہ کمپنی کا موقف ہے کہ ملازمین کو پندرہ ڈالر فی گھنٹہ دیا جاتا ہے، ورکرز غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔ ایک احتجاج ہانگ کانگ کی سڑکوں پر بھی ہوا جس میں لاکھوں لوگوں نے حصہ لیا۔مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ربر کی گولیاں،آنسوگیس اور مرچوں کے سپرے کا استعمال کیا گیا اس بہت بڑے احتجاج کے بعد حکومت نے متنازع بل پر بحث کو ملتوی کردیا۔ اس بل کے تحت قانونی چارہ جوئی کے لئے لوگوں کو چائنا بھیجا جا سکتا تھا اور یہ بل ہانگ کانگ کے لوگوں کیلئے قطعی نا منظور تھا۔ حقیقت میں ہانگ کانگ چائنا کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اعلیٰ سطح کا خود مختار ملک ہے، سوائے ڈیفنس اور خارجہ پالیسی، ہانگ کانگ اورچائنا کی ایک ہی ہے۔ ہانگ کانگ کو لیگل سسٹم، بارڈرز ، اسمبلی کی آزادی کے ساتھ آزادی اظہار کے حقوق حاصل رہے ہیں ۔سابق برٹش کالونی اور حالیہ ہانگ کانگ سرکاری طور پر چائنا کا خاص انتظامی ریجن ہے جو1997میں چائنا کے حوالے کیا گیا تھا جس میں "ایک ملک دو سسٹم" ، کا اصول کارفرما ہے وقت کے ساتھ چائنا نے ہانگ کانگ میں دخل اندازی شروع کر دی۔ آزادی اظہار پر قدغنیں ہانگ کانگ کے لکھاری یا رائٹرز غائب کر دیے گئے۔ ( ایسے ہی الزامات سعودی گورنمنٹ پر بھی ہیں جہاں پر صحافی جمال خشوگی کے قتل کے الزامات سعودی حکومت پر لگائے گئے ہیں) ہانگ کانگ میں ایک احتجاج 2003 میں ہوا تھا جب 500.000 لوگوں نے نیشنل سیکورٹی بل ختم کروا دیا تھا لیکن ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اب یہ آسان نہ ہوگا چائنا کی حکومت بہت سخت اقدامات اٹھا رہی ہے اور اب چائنا کی اکانومی بھی 2003کے مقابلے میں بہت مستحکم ہے۔ ایکسٹرا ڈیشن بل کو پاس کروانے کے لئے حکومت کے پاس pro Chinees گروپس کی اکثریت ہے جو متنازع بل کو پاس کروا لیں گے۔ تاہم مظاہرے جاری ہیں اور انہوں نے پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی ہے۔ہانگ کانگرز نہ صرف بل کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں بلکہ ڈیموکریٹک اصلاحات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں ۔ہانگ کا نگ کا حالیہ چیف ایگزیکٹو بارہ سو ممبرز پر مشتمل کمیٹی کے ذریعے منتخب ہوا جس میں زیادہ تعداد پرو چائنیز ووٹرز کی ہے چار خواتین پر مشتمل احتجاج کے بارے میں بھی سب نے سنا جو کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ٹویٹ کے نتیجے میں سامنے آیا ۔جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے برملا کہہ دیا کہ وہ خواتین اپنے جرائم زدہ ملکوں میں لوٹنا چاہیں تو چلی جائیں۔دنیا بھر کے رہنماؤں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ کو تعصبانہ قرار دیا ہے۔ احتجاج چھوٹا ہو یا بڑا،اکیسویں صدی انسانی حقوق کی علمبردار ہے، یوغور کے چائنیز مسلمانوں کا سلسلہ بہت عجیب ہے یونائیٹڈ نیشن کے ماہرین اور دنیا بھر کےactivists کے مطابق تقریباً ایک ملین ethnic یوغور detention centers میں ہیں۔ چائنا کے ریجن Xinjiang میں لوگوں کے انتہا پسند نظریات کو تبدیل کیا جا رہا ہے اور ان کو ووکیشنل ٹریننگ دی جا رہی ہے بظاہر ٹریننگ لیتے لوگ اونچی دیواروں میں قید ہیں۔ روزانہ کلاسوں کے بعد گھر جانے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ کلاس روم انتہائی رنگین خوبصورت ہیں جبکہ رہنے کے کمرے سیلز کی طرح ہیں۔ 37ممالک کے سفیران جس میں پاکستان اور سعودی عرب بھی شامل ہیں ،مدح خواں ہیں کہ چائنہ نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ Xinjiang میں امن قائم ہوچکا ہے چائنیز گورنمنٹ نے مغربی میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ منافق ہے اور زنجیانگ کے بارے میں غلط باتیں پھیلا رہے ہیں۔جبکہ ٹریننگ سینٹرز کے گرد اونچی دیواریں اور خار دار تاریں کوئی اور ہی کہانی سنا رہی ہیںپاکستان کے حالیہ وزیراعظم عمران خان تحریک انصاف کے چیئرمین نے جنرل الیکشن سے پہلے ڈی چوک اسلام آباد میں 120 دن کا احتجاجی دھرنا دیا بعدازاں وہ برسر اقتدار آ گئے اور اب نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما ایک کے بعد ایک جیل کی ہوا کھا رہے ہیں تو نون لیگی رہنما اور سابق وزیراعظم کی صاحب زادی نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا ہے ۔احتجاج چھوٹا ہو یا بڑا ، رنگ لاتا ہے کبھی رنگ پھیکا پڑجاتا ہے کبھی گہرا ۔۔۔ دعا کرنی چاہیے عنابی یعنی خونی نہ ہو ۔۔
تازہ ترین