پرویز مشرف صاحب کے بیرون ملک چلے جانے کے بعد سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ خود مستعفی ہوئے، کرکٹ کی زبان میں ہٹ وکٹ ہوئے تھے، عوام کی زبان میں اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی ماری تھی، وہ بڑے آرام سے حکومت کر رہے تھے۔ اپنی پسند سے ہی انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف چنا تھا تاکہ ایک طرف سے انہیں سپورٹ ملے۔ وردی اتارنے میں بھی انہوں نے بہت وقت لگایا، کوششیں بہت کیں، کئی پینترے بھی بدلے۔ اس وقت کی سیاسی جماعتوں بشمول ان کی اپنی پیدا کردہ (ق) لیگ سے مل کر مرحوم جنرل ضیاء الحق کی طرح وردی پہنے رہنے کی تمام تدابیر اور حربے استعمال کر ڈالے اور پھر خود ہی وردی اتارنے کی تاریخ دی۔ آخر کار نامعلوم وجوہات کی بنا پر وردی اتار ڈالی۔کچھ حلقوں کے خیا ل میں اگرچہ مسلم لیگ ق والے اور مشرف کے ہمنوا دونوں ہاتھوں سے مال بناتے رہے مگر خود جنرل پرویز مشرف پر کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں لگا۔ معیشت پر انہوں نے مضبوط ہاتھ رکھا ہوا تھا، خود ان پر بھی 2تین حملے ہوئے مگر پورے ملک میں مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال بہت بہتر تھی۔ ڈالر مسلم لیگ (ن) کے دوسرے دور میں 56روپے تک پہنچ چکا تھا۔ پرویز مشرف کے 9سالہ دور میں صرف 4روپے کا اضافہ ہوا اور آخرتک 60روپے کا ہی رہا۔ان کے دور میں پاکستان دنیا بھر میں 114ویں نمبر پر تھا جبکہ آج 3سالہ جمہوری حکومت میں 144ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم نے کشکول بھی کئی جگہوں سے توڑ ڈالا تھا پھر ایسی کیا مجبوریاں تھیں کہ انہوں نے سوئی ہوئی پی پی پی کو اور کھوئی ہوئی مسلم لیگ (ن) کو راتوں رات جگا ڈالا ۔ اگرچہ امریکہ کے ساتھ کھل کر افغانستان میں ساتھ دیا ہوا تھا، مگر کون سی مجبوری آڑے آ گئی تھی کہ انہوں نے این آر او (N.R.O)جیسا معاہدہ کیا ۔ صرف آخری دور میں بلوچستان کے اکبر بگٹی اور اسلام آباد کی لال مسجد ، کراچی میں 12مئی میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی آمد کے قتل عام کا خون ان کے سر پر ڈالا گیا۔کم از کم سیاستدانوں کی کھلی کرپشن اور تکلیف دہ دہشت گردیاں تو نہیں جاری تھیں ۔ ڈالر کی وجہ سے مہنگائی بھی کنٹرول میں تھی ۔ ان کو چیف جسٹس سے تنازع مہنگا پڑ گیا۔ وہ یہاں سے جانے کے بعد عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے ، ڈالرز میں اپنے سیاسی لیکچر دے رہے تھے ، جہاں جانا چاہتے تھے کھل کر آتے جاتے تھے۔ خصوصاً وہ پہلے فوجی سربراہِ مملکت تھے جنہیں عزت و احترام سے گارڈ آف آنرردے کر رخصت کیا گیا تھا۔ پھر ایسی کیا مجبوریاں پیش آئیں کہ دوبارہ واپس آگئے اور ملک میں ہونے والے الیکشن میں حصہ لینےکی ٹھانی ۔ سنتے ہیں کہ ان کے کئی خیر خواہوں نے ان کو واپس پاکستان آنے کے لئے بہت زور بھی لگایا ، منتیں بھی کی تھیں۔ ماضی کی طرح سیاست دانوں نے مل کر 5سالوں میں حد ہی کر دی تھی۔ خصوصاً 60روپے کا ڈالر 50فیصد بڑھا کر مہنگائی کو 1972کی طرح بے لگام کر کے عوام کو بے دست و پا کر ڈالا۔تو دوسری طرف کرپشن کےتمام سابقہ ریکارڈ پر ہی بس نہیں کیا ،ملک میں قانون نام کی کوئی چیز بھی باقی نہیں رکھی ۔ اس مرتبہ ان کے ساتھ مل کر بیوروکریٹس جو چھپ چھپا کر رشوت لیتے تھے ۔ انہوں نے پی پی پی کےساتھ مل کر دونوں ہاتھوں سے خوب مال لوٹا ۔ ادارے اونے پونے دام اپنے لوگوں کے ہاتھوں میں بیچ ڈالے ۔ پہلے تو سنتے تھے کہ تھانے بکتے تھے اب تو سرکاری پوسٹیں ہفتوں مہینو ں کے لئے جیالوں میں بیچنے کے الزامات لگنا شروع ہوئے ۔ رشوتوں کا بازار گرم ہوتا رہا ، سرکاری کارندے اوپر والوں کو رقمیں پہنچاتے رہے ۔ سننے میں یہاں تک آیا کہ جنرل کیانی کے رشتہ دار بھی اس مرتبہ اس دور میں شامل کر لئے گئے اور پھر اطمینان سے ایک وزیر اعظم کی قربانی دے کر پی پی پی نے پہلی مرتبہ 5سال اقتدار کی مدت پوری کی اور خاموشی سے اقتدار مسلم لیگ کے حوالے کردیااور کہا کہ جس طرح تم نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فرینڈلی حزب اختلاف کا بیج بویا تھا ہم اس کو پروان چڑھائیں گے اوراس کا قوم نے گزشتہ 3سالوں میں مشاہدہ بھی کر لیا ہے ۔
3سال تک مسلم لیگ (ن) کے وزراء جس طرح سے پرویز مشرف پر کیچڑ اچھالتے رہے اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانے کادعویٰ کرتے رہے ۔ آج ان کی بیرون ملک روانگی کے بعد بغلیں بجا رہے ہیں ۔ بقول پنجابی محاورے کے وہ تمام مل کر بھی پرویز مشرف کا ککھ نہ بگاڑ سکے ۔3سال تک ٹیبل ٹینس کی بال کی طرح صرف بال کو ایک طرف سے دوسری طرف پھینک کر خوش ہوتے رہے ۔ وہ وزیر اعظم کو شاید ایک مرتبہ غلطی کروا کر دریا پار لگوا دیتے ۔ مگر اس مرتبہ 50فیصد چوہدری نثار کے تیور اور 50فیصد ماضی کا تلخ تجربہ دہرانے کی وزیر اعظم میں ہمت نہیں تھی تو انہوں نے مشرف کورخصت کردیا۔ اب خواجہ صاحبان کچھ بھی کہتے رہیں ، شہر تو جانتا ہے کہ اصل تانے بانے کہاں سے بُنے گئے ۔ قوم کو 2راتوں سے میڈیا نے بھی سونے نہیں دیا۔ ویسے بھی قوم بنگال کے ٹائیگرز کو پچھاڑ کر خوشیاں منا رہی تھی، اُسی آڑ میں اسی آن بان شان سے پرویز مشرف رخصت کروا دیئے گئے۔ اب کی مرتبہ ریڑھ کی ہڈیوں کو استعمال کیا گیا ہے ، جس کا علاج خود پاکستان میں بہت بہتر پایا جاتا ہے ۔ بھلا خلیج کا نام کیوں مشہور کیا گیا۔ میرے بہت سے خلیجی دوست اسی ریڑھ کی ہڈیوں کا علاج پاکستان اور بھارت سے کروا کر مکمل آرام پا چکے ہیں۔ پرویز مشرف صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ خدارا دوبارہ پاکستان لوٹ آنے کی غلطی نہیں دہرانا۔