• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروین شاکر سے معذرت کے ساتھ۔ باتیں تو سچ ہیں، مگر باتیں ہیں رسوائی کی۔ بونگے پریشان ہیں کہ کس بات کا ذکر پہلے کریں۔ کس بات کا ذکر آخر میں کریں۔ کس بات کا ذکر درمیان میں کریں، اور کس بات کو نظر انداز کردیں۔ ایسا کرتے ہیں، چھوٹی چھوٹی پرچیوں پر باتوں کا عنوان لکھ کر ایک مرتبان میں ڈال دیتے ہیں اور میں اپنے پڑپوتے کو بلا لیتا ہوں۔ پڑپوتے کا مطلب سمجھتے ہیں نا آپ؟ میرے پوتے کا بیٹا میرا پڑپوتا کہلواتا ہے۔ اس لحاظ سے اپنے پڑپوتے کا میں پڑدادا ہوں۔ میرا پڑپوتا مرتبان سے پرچی نکال کر ہم بونگوں کو دےگا۔ ہم بونگے پرچی پر لکھی ہوئی بات کا بتنگڑ بنائیں گے۔ ہم بونگے چونکہ ہوشیار نہیں ہوتے، اس لئے تجزیہ کرنے کے بجائے بات کا بتنگڑ بناتے ہیں۔ ذہین آدمی کو ہم کبھی ہوشیار اور کبھی سیانا کہتے ہیں۔ میں سیانوں اور ہوشیاروں کا قیمتی وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا۔ ہمارے فاسٹ بالر سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، روتے ہنستے ملک کے خالی خزانے کے شکوے شکایتیں کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے سیانے اور ہوشیار اگر اپنا قیمتی وقت بیچ دیں تو ملک کے خالی خزانے بھر سکتے ہیں۔ اس تمہید کا مطلب یہ ہے کہ سیانوں اور ذہین لوگوں کا قیمتی وقت بچانے کے لئے میں یہاں پر شارٹ کمرشل بریک لے لیتا ہوں۔ اس دوران ہم بونگے باتوں کے عنوان پرچیوں پر لکھ کر مرتبان میں ڈالتے ہیں۔ پڑپوتے کو بلاتے ہیں۔ اس سے قرعہ اندازی کراتے ہیں اور بات کا بتنگڑ بنانے کے لئے کچھ باتوں کی پرچیاں مرتبان سے نکلوا کر اپنے سامنے میز پر رکھتے ہیں۔ شارٹ کمرشل بریک کے بعد ہم ایک ایک پرچی اٹھائیں گے اور پرچی پر لکھی ہوئی بات کا بتنگڑ بنائیں گے۔ لیجئے۔ شارٹ کمرشل بریک ختم ہوئی۔ ہم نے باتوں کا بتنگڑ بنانے کے لئے مرتبان سے پرچیاں نکلوا کر میز پر اپنے سامنے رکھی ہیں۔ یہ کارخیر میرے پڑپوتے نے انجام دیا ہے۔ ہم پہلی پرچی اٹھاتے ہیں۔ پہلی پرچی پر لکھا ہے کہ امریکہ نے طالبان سے امن مذاکرات کے لئے پاکستان کو آگے دھکیل دیا ہے۔ ہمارے فاسٹ بولر نے ہامی بھر لی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ طالبان سے امن گفت و شنید میں ہمارے فاسٹ بالر بذات خود حصہ لیں۔ آدھے سے زیادہ طالبان افغان مہاجرین بن کر پاکستان آچکے ہیں اور آباد ہو چکے۔ امن مذاکرات کے بعد باقی رہے سہے طالبان کراچی آنے کے بعد سندھ بلوچستان کی سرحد پر آباد ہو جائیں گے۔ اس طرح افغانستان طالبان سے پاک ہو جائے گا۔ اور افغانستان امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ اسکے بعد امریکہ پاکستان کے لئے امداد کے بند دروازے کھول دے گا۔ اس طرح پاکستان کی تباہ حال معیشت کو پھر سے سنبھلنے کا موقع مل جائے گا۔ ٹرمپ بھائی جب بھی سوچتے ہیں، پاکستان کے لئے اچھا ہی سوچتے ہیں۔ ٹرمپ بھائی کے لئے ہم پاکستانیوں کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے۔ آپ تاحیات امریکہ کے صدر لگے رہیں اور طالبان کی پاکستان میں آباد کاری کے لئے پاکستان کی بھرپور امداد کرتے رہیں۔ ہمارے فاسٹ بولر نے صدر ٹرمپ کو یقین دلوا دیا ہے کہ وہ قربانی سے دریغ نہیں کرے گا، اس کے عوض چاہے پاکستان کا اپنا امن تباہ ہو جائے۔

افغانستان میں امن کے لئے طالبان سے گفت و شنید کی باتیں سن کر ہم بونگوں کو دو تین صدیاں پرانی امن گفت و شنید کی تاریخی بات یاد آگئی ہے۔

انگریز نے اٹھارہ سو تینتالیس میں سر چارلس نیپئر کی سربراہی میں سندھ فتح کیا تھا۔ آپ کو یہ بات سن کر حیرت ہو گی کہ تاریخ کے کسی بھی دور میں سندھ ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ سندھ ایک الگ تھلگ ملک تھا، جسے انگریزوں نے اٹھارہ سو تینتالیس میں فتح کرنے کے بعد ہندوستان سے چپکا دیا تھا۔ سندھ کی سیکڑوں میل لمبی سرحد بلوچستان سے لگتی ہے۔ انگریزوں کے سندھ فتح کرنے سے بہت پہلے بلوچستان کے خانہ بدوش جنگجو قبیلے سندھ میں داخل ہو کر لوٹ مار کر کے چلے جاتے تھے۔ یہ صدیوں پرانی روایت تھی۔ انگریز کے سندھ فتح کرنے کے بعد صدیوں پرانی روایت جاری رہی۔ بلوچ قبیلے جب چاہتے سرحد پارکر کے سندھ میں داخل ہوتے اور لوٹ مار کرنے کے بعد واپس چلے جاتے۔ انگریزوں نے آئے دن کی رہزنی اور قتل و غارت گری روکنے کے لئے سندھ بلوچستان سرحد پر فوجی دستے تعینات کر دیئے۔ ڈاکوئوں اور رہزنوں سے جھڑپوں میں فوجی بڑی تعداد میں مرنے لگے۔ تنگ آکر انگریز سرکار نے رہزن قبیلوں سے جنگ و جدل کے بجائے امن کی خاطر گفت و شنید کی حکمت عملی اپنا لی۔ لوٹ مار اور قتل و غارت گری کرنے والے قبیلوں کو مذاکرات کے لئے آمادہ کیا۔ ان مذاکرات کا تمام ریکارڈ لندن کی انڈیا لائبریری میں محفوظ ہے اور دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔ گفت و شنید کے نتیجے میں انگریز سرکار نے وہ علاقے بطور جاگیر رہزنوں کو دے دیئے جہاں وہ لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری صدیوں سے کرتے آئے تھے۔ اس طرح انگریز سرکار نے خطے میں امن کی خاطر سندھ کی زرخیز زمین بلوچستان کے خانہ بدوش قبیلوں میں بانٹ دی، جاگیر کے طور پر۔ خونخوار قبیلے کھیتی باڑی میں لگ گئے۔ خون خرابہ چونکہ ان کی سرشت میں تھا، وہ اکثر ایک دوسرے سے الجھ پڑتے تھے۔ اپنے فیصلے خود کرنے کے لئے انگریز نے ان قبائل کو جرگوں کی اجازت دیدی۔ میں مجبور ہوں۔ بے بس ہوں۔ خوفزدہ ہوں۔ اس لئے میں نے جاگیرداروں کے نام نہیں لکھے ہیں۔ چھ سات بااثر جاگیرداروں نے سندھ کو عملاً چھ سات حصوں میں بانٹ لیا ہے۔ ہر حصے کا ایک جاگیردار ہر لحاظ سے مطلق العنان ہے۔ ان کی زبان سے نکلی ہوئی بات قانون کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے اندرون سندھ کا ستیاناس کر دیا ہے۔ اب وہ خود کو سندھی کہلواتے ہیں۔ پشت در پشت انہوں نے ایوان اقتدار میں محفلیں سجا رکھی ہیں۔ ہمارے بعد ہماری ساتویں یا آٹھویں پیڑھی کا کوئی بوڑھا اپنی نئی نسل کو اس سے ملتی جلتی امن کی کہانی سنا رہا ہوگا۔

تازہ ترین