• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں کئے گئے امریکی فورسز کے آپریشن کے 8سال گزرنے کے باوجود آج بھی اِس واقعہ کی پراسراریت باقی ہے۔ یاد رہے کہ 2مئی 2011کو امریکی کمانڈوز نے پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد میں رات کی تاریکی میں کئے گئے آپریشن میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور امریکی فوجی جاتے ہوئے اسامہ کی لاش بھی اپنے ہمراہ لے گئے تھے جسے پنٹاگون کے بقول سمندر برد کردیا گیا۔

ایبٹ آباد آپریشن گزشتہ دنوں اُس وقت ایک بار پھر موضوع گفتگو بنا جب وزیراعظم پاکستان نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ میں ایک امریکی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں یہ انکشاف کر کے دنیا کو حیران کردیا کہ ’’ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کی اطلاعات آئی ایس آئی نے امریکی سی آئی اے کو فراہم کی تھیں‘‘۔ بعد ازاں پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی وزیراعظم کے اس بیان کی تصدیق کی تاہم سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس جن کی سربراہی میں ایبٹ آباد آپریشن کیا گیا تھا، نے وزیراعظم کے مذکورہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’’پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی، القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی اور ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کے آپریشن سے قطعاً لاعلم تھی‘‘۔

وزیراعظم کے مذکورہ انکشاف سے قبل ماضی میں حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی کہ پاکستان اور اُس کی سیکورٹی ایجنسی، القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی اور امریکی کمانڈوز کے ایبٹ آباد آپریشن سے لاعلم تھی۔ بالفرض اگر وزیراعظم کے دعوے کو مان بھی لیا جائے کہ ہماری سیکورٹی فورسز نے اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی اطلاعات امریکی سی آئی اے کو فراہم کیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سیکورٹی فورسز نے اسامہ کے خلاف خود آپریشن کر کے اُسے گرفتار کیوں نہ کیا اور اگر ہماری معلومات پر ایبٹ آباد آپریشن کیا گیا تو اِس آپریشن سے پاکستان کو لاعلم کیوں رکھا گیا؟ مغربی اطلاعات کے مطابق سابق سی آئی اے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے دعوے کے پیچھے درحقیقت امریکی انٹیلی جنس کی 2مئی 2011کو ایبٹ آباد آپریشن کے بعد اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا کے درمیان ریکارڈ کی گئی خفیہ ٹیلیفونک گفتگو ہے جس میں دونوں شخصیات نے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی پر لاعلمی اور شدید حیرت کا اظہار کیا تھا۔ اس گفتگو کی ریکارڈنگ کے بعد امریکہ کو اسٹیبلشمنٹ کی اس بات پر یقین ہوا کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز، اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی سے مکمل لاعلم تھی۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ 2002میں القاعدہ رہنما خالد شیخ کی کراچی سے گرفتاری اور اس سے ہونے والی تفتیش کے نتیجے میں اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی ابو احمد علی کویتی اور اس کے موبائل فون کی معلومات حاصل ہوئی تھیں جو پاکستانی سیکورٹی ایجنسی نے امریکی سی آئی اے سے شیئر کی تھیں۔ کویت میں پیدا ہونے والا پاکستانی نژاد ابو احمد علی کویتی، اسامہ بن لادن کا دست راست تھا اور اسامہ کیلئے پیغام لانے لے جانے کے فرائض انجام دیتا تھا۔ اطلاعات کے مطابق امریکی سی آئی اے نے پاکستان میں ابو احمد علی کویتی کی تلاش کے دوران 2009سے نومبر 2010کے دوران آئی ایس آئی کو 4فون نمبرز فراہم کئے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ پاکستان میں کسے تلاش کررہے ہیں۔ مذکورہ چاروں نمبرز اکثر اوقات بند رہتے تھے اور جب آئی ایس آئی نے امریکی سی آئی اے کے ساتھ مل کر کام شروع کیا تو اُس وقت آئی ایس آئی کو بھی علم نہیں تھا کہ یہ فون نمبرز کس کے تھے۔ یہی وہ شخص تھا جس کا سراغ لگاتے ہوئے امریکی سی آئی اے اسامہ کے ٹھکانے تک پہنچی۔

ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کیا گیا امریکی کمانڈو آپریشن دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنا اور حکومت نے دبائو میں آکر نیب کے موجودہ سربراہ جسٹس(ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں ایبٹ آباد کمیشن کے قیام کا اعلان کیا مگر کئی سال گزر جانے کے باوجود کمیشن کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آسکی ہے۔ پاکستان میں یہ روایت رہی ہے کہ حکومت ہر بڑے واقعہ پر کمیشن تو قائم کر دیتی ہے مگر ہم کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کی ہمت نہیں کر پاتے اور واقعہ کو بھلا دیا جاتا ہے جس کی زندہ مثال سقوط ڈھاکہ پر قائم ہونے والے حمود الرحمن کمیشن کی وہ رپورٹ تھی جسے منظر عام پر لانے کے بجائے دبا دیا گیا تاہم جب یہ رپورٹ بھارتی اخبارات میں شائع ہوئی تو دبائو میں آکر حکومت کو بھی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ جاری کرنا پڑی۔

آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی دور میں جہاں خفیہ معلومات کا لیک ہونا یعنی منظر عام پر آنا معمول بن گیا ہے، آپ حقیقت نہیں چھپا سکتے۔ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی اور آپریشن کے بارے میں اگر ریاست ایسے معاملات پر خاموشی اختیار کرے گی تو افواہیں جنم لیں گی اور حقیقت توڑ مروڑ کر پیش کی جاتی رہیں گی۔ اسامہ بن لادن کے واقعہ پر جو پراسراریت رکھی گئی ہے، اس کی وجہ سے کئی سال گزرنے کے بعد بھی واقعہ کی حقیقت منظر عام پر نہیں آسکی ہے جو افواہوں کو جنم دے رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی، امریکی کمانڈوز کے آپریشن اور ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ بلاتاخیر منظر عام پر لائی جائے تاکہ مزید افواہیں جنم نہ لیں اور کنفیوژن کا خاتمہ ہوسکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین