• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے، آزادی کے مہینے کا پہلا اتوار۔ آج تو آپ کو اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کے لئے وقت نکالنا چاہئے۔ ان سے تبادلۂ خیال کرنا چاہئے۔ پاکستان کے بارے میں ان کے کیا تاثرات ہیں۔ آپ تو کافی عمر گزار چکے، اب تو پاکستان میں انہیں زندگی بسر کرنی ہے۔ جاننے کی کوشش کیجئے کہ مستقبل کے بارے میں وہ کیا خواب دیکھتے ہیں۔

میں تو آج یہ سوچ رہا ہوں کہ ہم پاکستان کی کہانی دہرائیں۔ جو اتنی بھی مایوس کن نہیں ہے جو سوشل میڈیا پر دکانیں کھولے بقراط بتاتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو کہتے ہیں تم میری کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے لیکن یہاں تو ایسا تاثر پھیلایا جاتا ہے کہ سب کچھ برباد ہوگیا، یہاں کبھی جمہوریت نہیں رہی۔ قانون کی حکمرانی نہیں رہی، سارے ادارے نااہل ہیں۔ ان بقراطوں میں وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جنہیں پاکستان نے دولت دی، عزت دی، جن کے بچے امیر ملکوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جن کے پاکستان کے بڑے شہروں میں بنگلے ہیں۔ واشنگٹن، نیو یارک، لندن میں بھی فلیٹ ہیں۔ کچھ فرقہ واریت کے حوالے سے میرے اور آپ کے حوصلے توڑتے ہیں۔ کچھ جمہوریت اور آمریت کے حوالے سے ہمت شکنی کرتے ہیں۔میں پاکستان کا ہم عمر ہوں۔ مجھے فخر ہے اپنے پاکستانی ہونے پر۔ اگست 1947سے اگست 2019کے 72سال میرے اوپر بھی گزرے ہیں۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اتنی باہمت، بلند حوصلہ قوم شاید ہی کوئی اور ہو۔ نسل در نسل کتنے مصائب، آفات، اپنوں کے دیئے ہوئے رنج، دوستی کے نام پر دشمنی کرنے والے، مختلف مزاج، مختلف ماحول، لیکن مشکلات کا مقابلہ ایک سے جذبے کے ساتھ۔ 1947سے اب تک کون سا جبر ہے جو اس قوم نے نہیں سہا۔ کون سا ظلم ہے جو اس پر روا نہیں رکھا گیا لیکن یہ قائم و دائم ہے۔ ہر صبح نئے عزائم کے ساتھ وقت کے تھپیڑوں کا مقابلہ شروع کرتی ہے۔ شام تک کتنی انہونیاں برپا ہوتی ہیں۔ ملک کے اندر بھی اور سرحد پار سے بھی۔ اس کا مقابلہ کرتی ہے۔ شام 7بجے سے کتنے چینل، کتنے لوگ، کتنے ماہرین اس کی نیند اڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خزانہ خالی ہو چکا ہے لیکن یہ قوم رات کو بڑے سکون سے سوتی ہے۔ سہانے خواب دیکھتی ہے۔ صبح تازہ دم ہوکر پھر عشق بے خطر آتش نمرود میں کود پڑتا ہے۔

آئیے! اپنی آئندہ نسلوں کو وہ مناظر دکھائیں جب آزادی کا اعلان ہوتے ہی قافلے اپنے گھر بار چھوڑ چلے راستے میں بلوائی، کرپانیں، بندوقیں، تلواریں سونتے گھوڑوں پر سوار بسوں، ٹرکوں اور ٹرینوں پر حملے کر رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی عزیز از جان مائیں خون میں نہا رہی ہیں۔ ان کا سہارا، ان کی سیکورٹی ان کا باپ مزاحمت کرتا ہوا زخم زخم ہو رہا ہے۔ ساتھ کھیلنے والی بہن، بھائی اللہ کو پیارے ہو رہے ہیں۔

واہگہ، کھوکھرا پار، کشمیر، ڈھاکا، چٹاگانگ، کھلنا، یہی ہو رہا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں انسان ہجرت میں کہیں نہیں مارے گئے۔ آفریں ہے اس جذبے پر اور قابل فخر ہیں وہ انصار جو مغربی پنجاب میں سندھ میں ان لٹے پٹے انسانوں کو گلے سے لگا رہے ہیں۔

ایک سال گزرتا ہے اس قوم کا باپ ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ اللہ نے اس کو اتنی ہی زندگی دی ہے۔ بچوں کو اس افسردگی، اندوہ سے آگاہ کریں جس کا ایک نوزائیدہ قوم اپنے باپ کے سائے سے محروم ہوکر سامنا کرتی ہے۔

مشرقی اور مغربی پاکستان میں اس جاںکاہ صدمے سے دوچار ہونے کے باوجود آگے بڑھنے کا حوصلہ ہے۔ پانچ گنا بڑے دشمن کی طرف سے سازشیں جاری ہیں لیکن اس قوم کو اپنے آپ پر اعتماد ہے۔

ابھی قوم کی تعمیر ہو رہی ہے کہ چھ سال بعد ہی پنجاب میں فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔ قادیانیوں کے خلاف تحریک شروع ہو جاتی ہے۔ صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کی باہمی کشمکش ہے۔ لاہور میں پہلا جزوی مارشل لاء نافذ ہوتا ہے۔ ایک بدقسمت روایت کا آغاز ہو جاتا ہے۔آفریں ہے اس قوم پر کہ وہ اس سانحے کو بھی برداشت کرکے آگے بڑھتی جاتی ہے۔ ملک میں صنعتیں لگائی جا رہی ہیں۔ کسان اپنی سی محنت کر رہے ہیں۔ گندم کپاس اور مشرقی پاکستان میں پٹ سن پیدا ہو رہی ہے۔

پھر یہ قوم 1958کا مارشل لا بھی دیکھتی ہے۔ جمہوریت میں وقفہ آ جاتا ہے۔ ملک میں استحکام آتا ہے۔ صنعتوں کا پھیلائو ہوتا ہے مگر قوم کو بولنے پر پابندیاں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔

پھر 1965میں بھارت بین الاقوامی سرحد پار کرنے کی جرأت کرتا ہے۔ لیکن عوام اور فوج مل کر مزاحمت کرتے ہیں اپنے بچوں کو بتائیے کہ کس طرح لاہور سے دالبندین تک۔ چٹاگانگ سے ڈھاکے تک پاکستانی قوم ایک ہوگئی تھی۔ اس قوم نے ایک بہت بڑے دشمن کا یہ وار بھی برداشت کیا۔ پھر اس قوم نے جمہوریت کی بحالی کے لئے تحریکیں دیکھیں۔ 1971میں مشرقی پاکستانی بھائیوں کے الگ ہونے کا سانحہ، بہت ہی روح فرسا۔ آج تک دلوں میں یہ کسک ہے کہ وطن ٹوٹ بھی جاتا ہے۔ مادر وطن دولخت بھی ہوجاتی ہے۔ یہ صرف پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کی تاریخ کا عظیم المیہ تھا، ایک اکثریتی حصّے کا الگ ہو جانا۔قوم نے یہ المیہ بھی بڑے بلند حوصلے سے برداشت کیا اور باقی ماندہ پاکستان کو دنیا کی متحرک اور فعال قوموں میں شامل کرنے کے لئے دن رات محنت کی۔ کتنے بیٹے اپنے ماں باپ بھائی بہنوں سے دور دوسرے ملکوں میں محنت کرنے چلے گئے تاکہ اپنے وطن کو زر مبادلہ بھیج سکیں۔

پھر ایک اور قیامت ٹوٹی، ایک نیا مارشل لاء۔ بہت ہی سفاک۔ پاکستان دنیا سے کٹ کر رہ گیا۔ ایک منتخب وزیراعظم تختۂ دار پر، مذہبی انتہا پسندی زوروں پر۔ افغانستان کی جنگ میں ہم دنیا بھر کے شدت پسندوں کا مرکز بن گئے۔

1979سے کس طرح پاکستان بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں کی سازشوں کا سامنا کر رہا ہے۔ را، موساد، ساواک، خاد۔ اور نجانے کون کون سے سیکرٹ ایجنٹ زیر زمین کارروائیوں میں مصروف رہے ہیں۔ روس کی پاکستان کے گرم پانیوں تک رسائی کی جاں توڑ کوششیں۔ امریکہ پہلے سرد جنگ میں بھارت کے خلاف پاکستان کو مرکز بنائے رکھتا ہے۔ پھر سرد جنگ ختم ہوتے ہی بھارت امریکہ کی ڈارلنگ بن جاتا ہے۔

نوّے کی دہائی بہت ہی خون آشام ہے۔ اکیسویں صدی کا آغاز نائن الیون سے ہوتا ہے۔ پاکستان سے کئی ہزار میل دور رُونما ہونے والے واقعے کا ردّعمل اس قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ہمارے پڑوس میں امریکی یورپی اقوام اپنی فوجیں اتار دیتی ہیں۔ جو اب تک موجود ہیں۔

آفریں ہے اس قوم پر۔ 72سال میں اس پر کون سی قیامت نہیں ٹوٹی۔ ایسے حکمراں بھی آئے جنہوں نے قومی خزانہ جی بھر کے لوٹا لیکن یہ پوری ہمت سے بلند حوصلگی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ بہت سخت جاں، بہت جفاکش، پُرعزم۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

بچوں کو بتائیں کہ وہ ایسی مستقل مزاج، استقامت شعار قوم کے فرد ہیں۔ اگست کے مہینے میں ہم ایسی باتیں ہی کریں گے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

تازہ ترین