• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برصغیر میں انگریزوں اور کانگریس کے خلاف مسلمانوں کی کامیاب تحریک، جسے تاریخ میں’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کئی پہلوؤں سے 20ویں صدی کی ایک منفرد اور ممتاز تحریک ہے۔ اس کی قیادت قائد اعظم محمد علی جناح ؒسمیت دیگر ممتاز قائدین نے کی، جس کے نتیجے میں مسلمان ایک آزاد مملکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور 14اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ’’پاکستان‘‘ اُبھر کر سامنے آیا۔ آج پاکستان کی 72ویں سالگرہ کے موقع پر چند نامور شخصیات کا ذکر کرتے ہیں، جنھوں نے قیام پاکستان کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

قائداعظم محمد علی جناح ؒ

پاکستان کیلئے قائد اعظم کی خدمات کو مختصراً بیان کرنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔قدرت جب کسی قوم پر مہربان ہوتی ہے یا اسے کسی قوم کی تقدیر سنوارنا مقصود ہوتا ہے تو وہ اس میں ایسے بے لوث قائد پیدا کر دیتی ہے، جو اس قوم کی ڈولتی کشتی کو اپنے حسنِ تدبر سے ساحل تک لے جاتے ہیں۔ قائداعظم برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک ایسے ہی قائد بن کر اُبھرے۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھے، جن کی عظمت اور بلندیٔ کردار کے مخالفین بھی معترف تھے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی ہمشیرہ وجے لکشمی پنڈت نے کہا تھا، ’’اگر سو گاندھی، سو نہرو اور سو پٹیل مسلم لیگ کے پاس ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف اور صرف محمد علی جناح ہوتا، تو پاکستان کبھی نہ بنتا‘‘۔ قائد اعظم نے 1913ء میں مسلم رہنماؤں سر آغا خان سوئم، علامہ اقبال اور چوہدری رحمت علی کی درخواست پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور مسلمانوں کی سیاسی بیداری اور تحریک آزادی کی داغ بیل ڈالی۔ قائداعظم نے تدبر، فہم وفراست، سیاسی دور اندیشی اور جہد مسلسل سے مسلمانوں کو ہندو اور انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی۔

علامہ محمد اقبال ؒ

علامہ اقبال کا نام اور تحریکِ پاکستان کیلئے ان کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔علامہ اقبال 20ویں صدی کے عظیم شاعر، مصنف، قانون دان اور سیاستدان ہونے کے علاوہ تحریک پاکستان کی نامور شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں۔ بحیثیت سیاستدان علامہ اقبال کانمایاں کا رنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انھوں نے 1930ء میں الٰہ آباد کے مقام پر مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا۔ یہ نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا،’’میں اس بات کا خواہشمند ہوں کہ صوبہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان میں مسلمانوں کی آزاد مملکت قائم کی جائے‘‘۔ وہ خواب جسے علامہ اقبال نے دیکھا، وہ پوری ملت کی امنگوں اور آرزوؤں کا ترجمان بن گیا۔

سرسید احمد خان

سر سید احمد خان وہ شخصیت ہیں، جنھوں نے دو قومی نظریے کے ذریعے دنیا بھر کو آشکار کروایا کہ مسلمان اور ہندو دوالگ الگ قومیں ہیں۔ یہی وہ نظریہ تھا جو بعد میں پاکستان کے وجو د کا سبب بنا۔ سرسید احمد خان برصغیر میں مسلم نشاۃ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار بھی تھے۔ وہ یہ محسوس کرچکے تھے کہ انگریزوں کے دورِحکومت میں مسلمانوں کی زبوں حالی سے نجات کا واحد راستہ انگریزی زبان اور جدید تعلیم کا حصول ہے۔انھوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کے لیے علی گڑھ تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کی ابتدا 1859ء میں مراد آباد کے مقام پر ایک مدرسہ کےقیام سے کی گئی۔ یہ مدرسہ 1875ء میں ایم اے او اسکول اور پھر1877ء میں علی گڑھ کالج کے قیام کا باعث بنا۔ سرسید کی علمی تحریک کے نتیجے میں تحریکِ پاکستان کے لیے کارکنوں کی تعلیم یافتہ کھیپ تیار ہوئی، جنہوں نے اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

نواب لیاقت علی خان

تحریک آزادی کا ذکر محسن ملت اورپاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے نام کے بغیر ادھورا ہے۔ یکم اکتوبر1895ء کو ہندوستان کے علاقے کرنال میں پیدا ہونے والے نواب لیاقت علی خان نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا، جس کے بعد انھیں انڈین سول سروس میں نوکری کی پیشکش کی گئی لیکن انھوں نے انکار کرتے ہوئے اپنی زندگی قوم کے لیے وقف کرنے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے1921ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور 1922ء میں انگلینڈ بار میں شامل ہوئے۔تقریباً ایک سال بعد وہ ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرکے اس کی تنظیم نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1936ء میں آپ مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ اگلا برس آل انڈیا مسلم لیگ کے لیے گویا ایک نیا جنم ثابت ہوا، جس کی منزل مسلمانوں کیلئے ایک آزاد مملکت کا قیام تھا۔ پورے ہندوستان میں جب مسلم لیگ کی باقاعدہ رکنیت اور تنظیم نو کا عمل شروع ہوا تو بطور جنرل سیکریٹری لیاقت علی خان نے اس میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ تحریکِ آزادی کے حوالے سے ہر جدوجہد میں قائداعظم کے شانہ بشانہ رہے، اسی وجہ سے قائداعظم نے انھیں اپنا دست راست قرار دیا۔

مولانا محمد علی جوہر

تحریکِ پاکستان کی تاریخ میں دو بھائیوں، مولانا شوکت علی خان اور مولانا محمد علی جوہر کا کردار بھی ناقابلِ فراموش ہے۔ مولانا محمد علی جوہر نہ صرف جنگ آزادی بلکہ اسلام کی عظمت کے عظیم سپاہی بھی تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کے کردار کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے مسلمان لیڈر تھے جنہوں نے انگریز حکمرانوں اور کانگریس کے قائدین مثلاً مہاتماگاندھی، موتی لال نہرو اور لالہ لجپت رائے کو چیلنج کیا۔ حتیٰ کہ 1926ء میں موتی لال نہرو سے ہونے والی ملاقات میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ماسوائے مہاتما گاندھی، موتی لال نہرو اور جواہر لال نہرو کے تمام کانگریسی قائدین مسلمانوں کے دشمن ہیں‘‘۔1906ء میں بننے والی مسلم لیگ کے بانیان میں مولانا محمد علی جوہر کانام بھی شامل ہے۔ انھوں نے 1911ء میں اخباری دنیا میں تہلکہ مچانے والا انگریزی ہفت روزہ اخبار ’’کامریڈ‘‘ کلکتہ سے جاری کیا۔ یہی نہیں، آپ اُردو اخبار ’ہمدرد‘کے بانی بھی تھے۔ دونوں اخباروں نے مسلمانانِ پاک و ہند کا سیاسی تصور بیدار کرنے میں بڑی مدد کی۔

تازہ ترین