• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان میں قیامِ امن اور اٹھارہ سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے منصوبے پر اتفاق بلاشبہ علاقائی اور عالمی امن کے لئے انتہائی خوش آئند ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کر کے کہ ’’افغانستان میں پائیدار امن تمام شراکت داروں کے درمیان افہام و تفہیم ہی سے ممکن ہے‘‘ قیام امن کے لئے حالات کو سازگار بنانے کی ایک لازمی شرط کی بھی تکمیل ہو چکی ہے۔تاہم امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے لئے ہونے والے مذاکرات کا آٹھواں دور کسی سمجھوتے پر پہنچے بغیر ہی ختم ہوگیا، طالبان مذاکراتی ٹیم نے اس حوالے سے کہا ہے کہ انہوں نے امن سمجھوتے کیلئے مذاکرات کو طول دیا لیکن ڈیل نہ ہو سکی جبکہ مذاکرات کا حالیہ دور ختم ہونے کے بعد امریکی حکام کا تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ پیر کی صبح دوحا میں ختم ہونے والے مذاکرات میں طے پایا ہے کہ دونوں فریقین آئندہ مرحلے کیلئے اپنی اپنی قیادت سے مشاورت کریں گے۔ افغانستان میں امن کا قیام خطے کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اٹھارہ سال بعد بھی طالبان کو امن مذاکرات میں کلیدی اہمیت حاصل ہے جس کے بعد اس امر کو تسلیم نہ کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں کہ افغان عوام کی ایک بڑی تعداد آج بھی طالبان اور ان کے تصور اسلامی مملکت کی حامی ہے۔ ممکنہ امن معاہدے کے تحت طالبان کو افغانستان کی موجودہ حکومت سے مذاکرات اور افغانستان میں جنگ بندی پر آمادہ ہونا ہوگا جبکہ امریکہ اس معاہدے کے تحت افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کا پابند ہوگا۔ امریکہ کو چاہئے کہ اب جبکہ اس نے افغانستان کو باجگزار بنانے میں اپنی ناکامی تسلیم کر لی ہے تو افغانوں کو اپنا مستقبل خود طے کرنے دے اور اس میں فریق بننے کے بجائے پاکستان، روس اور چین کی طرح سہولت کار کا کردار ادا کرے۔ توقع ہے کہ افغان طالبان اور کابل حکومت بھی مزید تباہی سے بچنے کے لئے مفاہمانہ کردار ادا کریں گے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین