• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاطمہ حسین

نو سالہ گڈو اپنے گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور اس وجہ سے سبھی کا لاڈلا بھی۔ اس کی ہر خواہش پوری کردی جاتی ۔ایسا کم وبیش ہی ہوتا کہ اس کی کسی با ت سے انکارکیا جائے۔

اتنے کاڑ پیار کے باوجود وہ ہ فرما بردار اور انتہائی حساس و محبت کرنے والا بچہ تھا۔

وہ ہر سال 14اگست کے لیے پیسے جمع کرتا اور جشن آزادی کی تیاری کے لیے گھر کا ہر فرد اسے الگ سے بھی پیسے دیتا، جس سے وہ اپنی امی کے ساتھ جا کےیومِ آزادی کے حوالے سے ڈھیر ساری خریداری کرتااور پھر گھر کو سجاتا ۔ گھر میں تقریب رکھی جاتی سب بچوں کوبلوایا جاتا۔ اس تقریب میں بچوں کے لیے مختلف کھیل، تقریری مقابلے،ملی نغمے وغیرہ ہوتے۔پھر بڑے بزرگ آزادی کی داستانیں سناتے ۔ قیامِ پاکستان کے بارے میں بتاتے اور بچوں کو اپنے ملک کا نام روشن کرنے کا درس دیتے۔غرض تقریب میں نہ صرف کھیل کود ہوتا بلکہ بہت سی معلوماتی چیزیں بھی ہوتیں جن سے بچے بے حد لطف اندوز ہوتے۔

14اگست کا فی قریب آچکی تھی ، وہ اسکول جانے سےپہلے ہی امی سے کہہ کر گیا تھا کہ آج ان کے ساتھ خریداری کے لئے جائے گا۔اس لیے گڈو کی امی اب جلدی جلدی گھر کے کام نمٹا رہی تھیں۔گڈو اسکول سے آتے ہی سب کو سلام کرتات ہوئےکچن میں پہنچا ،جہاں اس کی امی کھانا بنا رہی تھیں۔

"السلام علیکم، امی ،کیا آپ ابھی تک فارغ نہیں ہوئیں؟"

"وعلیکم السلام،بیٹا فارغ ہی ہوں ۔ بس سب کو کھانا دے دوں جاؤ آپ بھی جلدی سے منہ ہاتھ دھوکےآجاؤ۔ کھاناکھاکر ان شاء اللہ نکلیں گے"

گڈو کی بانچھیں کھل گئیں۔"جی امی بس ابھی آیا"۔

گڈو کی والدہ نے جلدی سے کھانا لگایا۔اورسب کو بلانے چل دیں۔

دادا ابو دسترخون پر بیٹھتے ہوئے بولے،"بھئی ہمارا گڈو کہاں ہے؟ "

گڈو بھاگتا ہوا آیا۔"جی دادا ابو میں آگیا!"

’’شاباش! میرا بچہ اورسنا ؤ کیسا رہا آج کا دن؟‘‘

"بہت اچھا دادا ابو!آج کل سب 14اگست منا نے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ میں بھی آج بازار جا ؤں گا"۔گڈو کے چہرے پر خوشی ہی خوشی تھی۔

کھانا کھاتے ہی وہ امی کے سر ہو گیا۔’’چلیں امی!‘‘’’جلدی کریں باہر اندھیرا ہوجائےگا۔‘‘ گڈو نے بے صبری سے کہا تو امی مسکرانے لگیں۔

"جی بیٹا! آپ جاکر گاڑی میں بیٹھیں۔ میں آتی ہوں۔‘‘

گڈو خوشی خوشی گاڑی میں جا کے بیٹھ گیا۔

گاڑی بازار میں داخل ہوئی توگڈو پرجوش انداز میں بولا۔"امی سب سے پہلے اس دکان میں چلیں گے یہاں جھنڈے بہت اچھے ملتے ہیں"۔

’’اچھاجی! میرے پیارے شہزادے!‘‘ امی نے کہا۔

گڈو جیسے ہی جھنڈا لے کر دکان سے نکلا اس کی نظر دکان کے چبوترے پر بیٹھے اک بچے پر پڑی جو مسلسل رورہاتھا اور اپنی امی سےکوئی ضد کر رہا تھا۔ابھی وہ بچے کے پا س جانے ہی والا تھاکہ اس کی امی کی آواز آئی۔ "گڈو بیٹے! کہاں رہ گئے؟"

چلیں جلدی آئیں!‘‘ ابھی گڈو کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ امی نے کہا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر دوسری دکا ن میں داخل ہوگئیں۔گڈو کا اب دل نہیں لگ رہا تھا۔ اسکا سارا دھیان اس رونے والےبچے کی طرف تھا اس کا رونا بہت تکلیف دہ تھا۔

’’گڈو بیٹا! یہ شرٹ دیکھیے۔کیسی ہے؟ آپ کی پسند کی ہے نا۔‘‘ امی جان کہہ رہی تھیں۔گڈو بس گردن ہلا کے رہ گیا۔ وہ مسلسل اسی بچےکے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جب وہ دکا ن سے باہر نکلا اسے، پھر وہی بچہ روتا ہوا نظر آیا۔وہ اس بچے کے پاس پہنچ گیا۔اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا۔ ’’دوست السلام علیکم! آپ رو کیو ں رہے ہیں؟‘‘

بچے نے جواب دیا۔ ’’مجھے بھی 14 اگست منا نی ہے ،چیزیں خریدنی ہیں۔‘‘

نرم دل گڈ و کا دل پسیج گیا۔ ’’آپ کانام کیاہے؟آپ اور آپ کی والدہ یہاں اس طرح کیوں کھڑے ہیں؟‘‘

وہ سوں سوں کرتے ہوئے کہنے لگا۔’’ہم کچھ بھی نہیں لے سکتے۔ سب چیزیں اتنی مہنگی ہیں۔ امی جان کہتی ہیں اگر ہم نے ہرے رنگ کی شرٹ اورجھنڈے والے بیج لے لیے تو کھانے کے پیسے نہیں ہوں گے۔پھر ہمیں بھوکا سونا پڑے گا۔ میرے ابو بھی تو نہیں ہیں۔ وہ مجھے چودہ اگست کو اتنا کچھ دلاتے تھے۔‘‘ اتنا کہ کر وہ بچہ پھر سے رونا شروع ہو گیا۔

’’انا للہ وانا الیہ راجعون!! اداس نہ ہو دوست !!انکل وہاں بہت اچھے حال میں ہوں گے۔ آمین! اچھا!آپ نے ابھی تک اپنا نام نہیں بتا یا ؟‘‘

اس نے جواب دیا۔ ’’میرا نام معاذ حسین ہے۔‘‘

گڈو نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ آپکو دوست کہوں گ کوئی اعتراض تو نہیں ؟‘‘

’’نہیں! لیکن کیا آپ واقعی مجھ سے دوستی کریں گے؟‘‘ معاذ نے بے یقین سے پوچھا تو گڈو نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔ یہ دیکھ کر معاذ نے جلدی جلدی آنسو صاف کیے اور فورا ً ہاتھ آگے کر دیا۔’’میری کلاس میں سب نے میرے سے دوستی توڑ دی ۔ میرے ساتھ اب و ئی نہیں کھیلتا۔میرےابو جب بھی 14اگست آتی تھی تو میرے لیے جھنڈیاں لاتے، پھر ہم پورا گھر سجاتے۔معاذ کھویا کھویا بتا رہا تھا۔

گڈو نے پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا۔ ’’آپ اس سال بھی جشن آزادی ضرور مناؤ گے۔ سب چیزیں آجائیں گی انشاءاللہ!‘‘

معاذ کی امی اتنی دیر سے دونوں کی گفتگو سن رہیں تھیں۔ کہنے لگیں۔’’اللہ تمھیں خوش رکھے بیٹا۔ آؤ معاذ، اب گھر چلیں۔ کل میرے پاس پیسے آجائیں گےتو میں آپ کو گرین ٹی شرٹ ضرور لے کر دوں گی۔‘‘انہوں نے کہا اور معاذ کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگیں۔

ادھر گڈو کی امی گڈو کو نہ پا کے بہت پریشان ہوئیں۔فورا ًدکان سے باہر نکلیں اورادھر ادھر ڈھونڈنے لگیں۔اچانک انہیں فٹ پاتھ پر گڈو کھڑا نظر آیا جو معاذ سے ہاتھ ملا رہا تھا۔ یہ دیکھتے ہی انکا پارہ ہائی ہوگیا۔وہ غصے سے سیخ پا ان کے پاس پہنچیں اور معاذاوراس کی والدہ کو خوب سنائیں۔ گڈو بہت منمنایا ۔’’میری بات سن لیں امی!! پلیز!‘‘

مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔آخرمعاذ کی امی نے کہا۔ ’’بات سنیے بہن!! آپ جیسا سمجھ رہی ہیں ویسی کو ئی بات نہیں۔ آپ دراصل غلط فہمی کا شکار ہیں۔‘‘

گڈو کی امی غصے سے بولیں۔’’مجھے آپ کی کسی بات سے کوئی غرض نہیں۔ چلو آؤ گڈو!‘‘

"برائے مہربانی بس ایک بار میری بات سن لیں۔ آپکی سب غلط فہمی دور ہوجائے گی۔ میں اور میرے بیٹے نے آپ کےبیٹے کو کچھ نہیں کہا، نہ ہی کوئی پیسے ما نگے ,نہ بلایا۔ بلکہ آپ کا بیٹا تو اتنا حساس ہے۔جب معاذبری طرح رورہا تھا مجھ سے ضد کر رہا تھا تو یہ بچہ آیا اس نے معاذ سے بات کی اور دلاسہ دیا ۔ اور بس۔‘‘ معاذ کی امی نے بتایا۔

گڈو کی امی نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا۔ ’’رہنے دو بی بی!!" بہت دیکھیں تم جیسی جھوٹے،دھوکے باز جو لوگوں کو پھنسا کے انہیں لوٹتی ہیں۔‘‘

’’بیشک آپ نے ایسے لوگ دیکھے ہوں گے،مگر بخداہم ایسے نہیں۔ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا اور اپنے بیٹے کو بھی یہی سکھایا ہے۔ بچہ روز یہاں 14اگست کی چیزیں خریدنے لے آتا ہے ۔روز روتا ہے۔ میں بہلاتی ہوں کہ کل پیسے آجائیں گے تو پھر لے لیں گے۔خیر! میں معافی مانگتی ہوں! آپ کو ناحق تکلیف دی۔ اپنے بچے کی طرف سے بھی شرمندہ ہوں۔ ‘‘ اتنا کہہ کر معاذ کی امی نے بیٹے کا کا پاتھ پکڑا اور تیزی سے بھیڑ میں گم ہو گئیں۔ گڈو کی امی شرمندہ سے کھڑی تھیں ۔

گھر پہنچتے ہی گڈو سیدھا دادا ابو کے کمرے میں یا اور ان سے لپٹ کر رونے لگا۔ دادا ابو پریشان ہو گئے، پھر گڈو نےانہیں پوری کہانی سنائی اور کہنے لگا۔ ’’امی جان اچھی نہیں ہیں۔ میں ان سے ناراض ہوں۔‘‘

دادا ابو بھی غمگین ہو گئے، پھر وہ گڈو کو سمجھانے لگے۔’’بیٹا! آپ کی امی غلط نہیں ہیں۔ زمانہ خراب ہےکسی پہ بھروسہ نہیں کرسکتے، انہوں نے جو کیا وہ احتیاط کے طور پر ہی کیا۔‘‘

انہیں خوشی ہوئی کہ ان کا پوتا اتنا احساس کرتا ہے دوسروں کا۔ انہوں نے اس سے معاذ کی مدد کرنے کا وعدہ کرلیا۔

شام کو امی جان نے گڈو کے ابو کو ساری بات کہ سنائی۔ وہ کہنے لگے۔ ’’اوہ! کوئی بات نہیں۔ مانا کہ زمانہ خراب ہے،مگر ہر بندہ تو برا نہیں ہوسکتا۔ ہمیں ان کی ضرور مدد کرنی چاہیے۔ویسے بھی ہمارے گڈو کی خوشی بھی اسی میں ہے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ مسکرائے اورگڈو کی جانب دیکھا جو ابھی تک خٖفا خفا سا تھا۔

’’دراصل آج ہماری بے حسی اور خود غرضی ہمارے ملک کو لے ڈوبی ہے۔ہم آزادی تو منا لیتے ہیں، مگر اپنی سوچ کو آزاد نہیں کرتے۔ہم مفاد پرستی و مادی زندگی میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ انسان انسا ن ہی نہیں لگتا۔ دکھ درد کیا ہوتے ہیں بس یہ اپنوں تک محدود ہوگئے ہیں۔‘‘ وقار صاحب اداسی سے کہہ رہے تھے۔

اگلے دن اسکول سے واپسی پرگڈو اپنےابو اور امی کو لے کر اسی جگہ گیا، جہاں معاذ اواس کی امی ملے تھے، مگر انہیں مایوسی ہوئی ۔انہوں نے نے آس پاس کی سب ہی دکانوں سے معلوم کیا۔کسی سے کچھ خاص پتہ نہ چل سکا۔۔بڑی جدوجہدکے بعد ان کا پتہ مل ہی گیا۔ان کا گھر شہر سے دور اک پسماندہ علاقے میں تھا۔ وہ دستک دے کر اندر داخل ہوئے ۔ معاذ کی امی بری طرح بخار میں تپ رہی تھی۔معاذ مسلسل پانی کی پٹیاں ان کی پیشانی پر رکھ رہا تھا۔

گڈو کی امی نےنے محبت سے ان کا ہاتھ تھام لیا۔ ’’ بہن! میں اپنے کل کے رویے پر بے حد شرمندہ ہوں مجھے معاف کردیں۔‘‘

۔ ’’نہیں نہیں باجی !!ایسا نہ کہیں، مجھے کچھ برا نہیں لگا تھا۔‘‘ معاذ کی امی جلدی سے بولیں۔

انہوں نے معاذ کی امی کو اپنے گھرکھانا پکانے کے کام کی پیشکش کی جو انہوں بخوشی قبول کرلی ۔ وقار صاحب نے ساتھ ہی معاذ کی تعلیم دوبارہ شروع کروانے کا بھی یقین دلایا اور یہ بھی اعلان کردیا اس بارمعاذ اور گڈو ایک ساتھ چودہ اگست کا دن منائیں گے۔ان شاءاللہ! پھر جشن آزادی والے دن ، معاذ اوگڈو نے چھت پر چڑھ کر بڑا سا سبز جھنڈا لہرایا تو ہر ایک کا چہرہ خوشی سےکھل اٹھا۔ 

تازہ ترین